Tuesday, August 3, 2021

Muharram ul Harram & Security Concerns

محرم الحرام‘ تیاریاں‘ انتظامات اُور خدشات
 اسلامی سال کے پہلے مہینے ’محرم الحرام‘ کا آغاز 9 یا 10 اگست سے ہو رہا ہے جبکہ یوم عاشور (10محرم الحرام) اٹھارہ یا اُنیس اگست اُور چہلم اِمام 27 یا 28 ستمبر روائتی مذہبی جوش و خروش سے منانے کی تیاریاں اُور انتظامات مکمل کر لئے گئے ہیں۔ بنیادی طور پر محرم الحرام کے آغاز سے 8 ربیع الاوّل تک کا عرصہ بطور ’ایام ِعزا (سوگ)‘ منایا جاتا ہے اُور اِن ’ایام ِعزا‘ کے دوران عبادت گاہوں (اِمامیہ مساجد و امام بارگاہوں) کی سیّاہ پوشی کی جاتی ہے۔ کامل ”2 مہینے 8 دن“ پر مشتمل اِن ایام ِعزا کے حوالے سے ہر سال کی طرح اِس مرتبہ بھی قانون نافذ کرنے والے اداروں نے شہری سہولیات فراہم کرنے والے اداروں اُور محکمہ¿ صحت کو شریک کرتے ہوئے ضلعی حفاظتی اقدامات (سیکورٹی پلانز) تشکیل دیئے ہیں‘ جن پر ’عدم اِطمینان‘ کا اظہار کرتے ہوئے امامیہ جرگہ خیبرپختونخوا نے پشاور سمیت حساس علاقوں میں سیکورٹی انتظامات سخت کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔ عزاداریسیّد الشہدا  کے ذریعے تمام مسالک اُور جملہ مسلم و غیر مسلم مکاتب ِفکر کے درمیان جس ہم آہنگی کا قیام اُور فروغ ہونا چاہئے‘ اُس کی اہمیت و ضرورت تو ہر کوئی محسوس کر رہا ہے لیکن اِس سلسلے میں اِنفرادی و اجتماعی حیثیت سے ’ذمہ داری‘ اُور ’احساس ِ ذمہ داری‘ عام نہیں۔

محرم الحرام کی آمد سے قبل اخبارات میں ضلعی اِنتظامیہ اُور پولیس کے اعلیٰ حکام کے ساتھ تصاویر شائع کروانے والے مانوس چہرے نمودار ہوتے ہیں۔ امن کمیٹیاں بنائی جاتی ہیں لیکن پشاور میں بالخصوص اُور خیبرپختونخوا میں بالعموم وہ امن بحال نہیں ہو رہا جو12 جولائی 1992ء(یوم عاشور) کے موقع پر ’سانحہ¿ کوہاٹی گیٹ‘ کے بعد سے متاثر ہے اُور جس کی برسی و غم صرف اہل تشیع ہی نہیں بلکہ اہل سنت کے وہ گھرانے بھی مناتے ہیں‘ جن کے پیارے مذہب کی بنیاد پر پائی جانے والی نفرت کا نشانہ بنے تھے۔ مذکورہ سانحے میں 10 افراد قتل جبکہ درجنوں زخمی ہوئے اُور اِس سانحے کے بعد پیدا ہوئی کشیدگی اپنی جگہ جبکہ املاک پر حملوں کا سلسلہ بھی شروع ہوا‘ جو پشاور کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے۔

محرم الحرام کی مناسبت سے حفاظتی انتظامات پر سرکاری خزانے سے ہر سال کروڑوں روپے خرچ کئے جاتے ہیں لیکن مثالی صورت میں امن و امان کو بحال نہیں کیا جاتا جس کے بعد خصوصی حفاظتی انتظامات کی ضرورت ہی پیش نہ آئے جیسا کہ مقامی اُور غیرمقامی کی تمیز نہ کرتے ہوئے بازاروں اُور راستوں کو ہر قسم کی آمدورفت کے لئے بند کرنا اُور موبائل فونز کی سروسیز معطل رکھنے جیسے انتظامات ناقابل فہم ہیں۔ 1992ءسے قبل میں صرف افغان مہاجرین اُور مقامی و غیرمقامی (دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے) متنازعہ علمائے کرام کے داخلے پر پابندی عائد کی جاتی تھی لیکن سوشل میڈیا اُور انٹرنیٹ کے ذریعے نفرت انگیز تقاریر پھیل جاتی ہیں اُور یہ پابندی بے معنی ہو کر رہ گئی ہے۔ کورونا وبا کے ظاہر ہونے کے بعد سے رواں برس دوسری مرتبہ محرم الحرام کی مناسبت سے مذہبی اجتماعات منعقد ہوں گے جن میں مساجد و امام بارگاہوں کی چاردیواریوں کے اندر اُور کھلے مقامات پر ”کربلا شناسی“ عام کرنے کے لئے ذکر و فکر کی محافل منعقد ہوں گی جنہیں اِس سال کورونا قواعد (SOPs) کی روشنی میں منعقد کرنا پہلے سے زیادہ ضروری ہو چکا ہے کیونکہ نئی قسم (ڈیلٹا وائرس) کی موجودگی اُور وفاقی و خیبرپختونخوا حکومتوں کی جانب سے نئے حفاظتی انتظامات (2 اگست) جاری کئے گئے ہیں جن میں اگرچہ محرم الحرام کا ذکر نہیں لیکن چونکہ محرم الحرام کی مناسبت سے تقاریب کا آغاز ہفتے دس دن میں ہونے والا ہے‘ اِس لئے کسی الگ ہدایت نامہ کی ضرورت نہیں اُور کسی بھی مسلک کی نمائندگی کرنے والوں کو طلب کر کے اُن سے اِس بات کا تحریری عہدنامہ لینا چاہئے کہ وہ اپنے ہاں ہونے والے اجتماعات میں ’کورونا ایس اُو پیز‘ کو یقینی بنائیں گے اُور اگر زبانی کلامی یا تحریری یقین دہانی کے باوجود گزشتہ برس کی طرح اِس سال بھی ’کورونا ایس او پیز‘ پر عمل درآمد دیکھنے میں نہیں آتا تو ایسی صورت میں ضلعی اِنتظامیہ اُور پولیس کے اَعلیٰ حکام پر اُن کرداروں کی حقیقت عیاں ہو جانی چاہئے جن کے لئے محرم الحرام اُن کی ذاتی تشہیری سرگرمیوں (معمولات) کا نادر موقع ہوتا ہے۔ کسی اُور مرحلہ فکر پر بیان کیا جائے گا کہ اِمام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی عظیم قربانی (قیام و عمل) کا ذکر کس طرح ہدایت‘ اخلاقیات پر مبنی معاشرت اُور سب سے بڑھ کر اِنسانیت کے فروغ کا ذریعہ ہیں لیکن اِس لمحہ فکریہ پر صرف اِسی جانب توجہ دلانی ہے کہ اگر ’درحسینؓ پہ ملتے ہیں ہر مزاج کے لوگ .... یہ دوستی کا وسیلہ ہے دشمنی کا نہیں“ اُور اگر اِس حقیقت کو بھی سمجھ لیا گیا ہے کہ ”اِنسان کو بیدار تو ہو لینے دو .... ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسینؓ“ تو پھر اختلاف کی گنجائش کہاں اُور کیوں رہ جاتی ہے!؟

علامہ ڈاکٹر سیّد کلب حسین صادق نقوی (وفات نومبر دوہزاربیس) نے ایک خاص نکتے کی جانب توجہ دلاتے ہوئے گویا دریا کو کوزے میں بند کر دیا تھا کہ ”اگر منبر سدھر جائے تو معاشرہ خود بخود سدھر جائے گا۔“ مگر مشکل تو یہی ہے کہ منبر و محراب کی ذمہ داریوں کا خاطرخواہ احساس نہیں کیا جا رہا اُور ”تو برائے وصل کردن آمدی .... نے برائے فصل کردن آمدی (ترجمہ) تو جوڑ (پیار) پیدا کرنے کے لئے (دنیا) میں آیا ہے ناکہ توڑ (اختلافات) پیدا کرنے کے لئے۔“ جیسی صورتحال درپیش ہے۔ اس لئے محرم الحرام کے دوران حالات و تعلقات معمول پر لانے اُور فاصلے و اختلافات ختم کرنے پر توجہ دینی چاہئے تاکہ اسلامی جمہوریہ میں امن دوست معاشرے کا چہرہ اُبھرے۔ اِس موقع پر تمام تر ذمہ داری علمائے کرام ہی نہیں بنتی بلکہ ہر کس و ناکس کو چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے تقاریر کے ایسے ٹکڑے (clips) کا  تبادلہ (share)  نہ کرے‘ جن میں فروعی باتوں کو علمی بحث کی بجائے شدت و یک طرفہ زوایئے سے بیان (پیش) کیا جاتا ہے اُور اِس سے مذہبی منافرت پھیلتی ہے۔ مذہبی تعلیمات پر عمل سے لیکر مذہبی عقائد اُور مراسم کی ادائیگی تک ہر لفظ اُور ہر اقدام احتیاط پر مبنی ہونا چاہئے جس سے دوریاں ایجاد نہ ہوں اور فاصلے قربت سے بدل جائیں جو وقت کی اہم ضرورت ہے۔
....

No comments:

Post a Comment