Wednesday, August 4, 2021

Pollution - the most important issue.

پشاور کہانی : اہم مسئلہ 

صوبائی دارالحکومت پشاور کے کئی حصوں میں فضائی آلودگی اِس درجہ (خطرناک سطح تک) بڑھ چکی ہے کہ اب وہاں سانس لینا ’آ بلا گلے لگ‘ کی صورت بیماریوں کو دعوت دینا ہے۔ لائق توجہ ہے کہ آب و ہوا کی بہتری کے لئے کئے جانے والے جملہ اقدامات اُور حکمت ِعملیوں کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے‘ جن میں سرفہرست ’بس ریپیڈ ٹرانسپورٹ (BRT)‘ منصوبے کے ثمرات بھی ہیں‘ جس کے فعال ہونے سے اُمید تھی کہ پشاور میں فضائی آلودگی کی شرح کم ہوگی۔ مذکورہ فضائی آلودگی کو زیادہ تیزی سے کم کرنے کے لئے اضافی طور پر 67 کروڑ (670ملین) روپے بھی مختص کئے گئے تاکہ پشاور میں چلنے والی پرانی بسیں (پبلک ٹرانسپورٹ) ختم کر کے ’میٹرو بس (بی آر ٹی)‘ پر آمدورفت کا انحصار بڑھایا جائے۔ توجہ طلب ہے کہ جب ہم ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ حکومت کی زیرنگرانی چلنے والا ٹرانسپورٹ کا نظام لیکن پشاور سے کراچی پبلک ٹرانسپورٹ کا مطلب نجی اداروں کے زیرکنٹرول چلنے والا ٹرانسپورٹ کا نظام لیا جاتا ہے‘ جسے ”پبلک“ کہنا اُور سمجھنا غلط فہمی ہے اُور اِس کا بھی ازالہ ہونا چاہئے۔ 

فیصلہ سازی کے مراحل پر غوروخوض اُور ترقیاتی امور کے حوالے سے تکنیکی طور پر ترجیحات کا تعین کرنے والے پشاور کے مفادات بارے کتنا سوچتے ہیں اُور کتنے فکرمند پائے جاتے ہیں‘ اِسے چند حقائق کی روشنی میں باآسانی سمجھا جا سکتا ہے جیسا کہ جن سیاسی فیصلہ سازوں کے پاس ’پبلک ٹرانسپورٹ‘ (حکومتی نگرانی میں بسیں چلانے) کے لئے مالی وسائل نہیں ہوتے لیکن وہی فیصلہ ساز نجی ٹرانسپورٹرز سے پرانی بسیں خریدنے کے لئے فراخدلی سے مالی وسائل مختص کرتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کی مبینہ پبلک ٹرانسپورٹ کو فضائی آلودگی کی بنیادی وجہ قرار دیا گیا‘ جس کے بعد ’بی آر ٹی‘ کے جواز میں ایک نکتے کا اضافہ ہوا۔ پرانی بسیں خریدنا اُور اُنہیں ناکارہ بنانے کے عمل میں حکومت اُور ٹرانسپورٹرز یکساں فائدہ اُٹھا رہے ہیں اُور دونوں فریقین کے لئے یہ صورتحال کامیابی (win-win-situtaion) ہے۔ ٹرانسپورٹ کے نجی مالکان کون ہیں اُور اِن کے فیصلہ سازوں سے کاروباری مفادات کیا ہیں‘ یہ حقیقت اگر کھول کر بھی بیان کی جائے تب بھی اہل پشاور کے لئے تعجب خیز نہیں ہوگی کہ صوبائی قانون ساز اسمبلی میں موجود کئی اراکین کے کاروباری مفادات ’مبینہ پبلک ٹرانسپورٹ‘ سے جڑے ہوئے ہیں!

پشاور میٹرو بس (بی آر ٹی) کو بنانے سے متعلق جو ’ماحولیاتی جائزہ (انوائرمینٹل اَسسمنٹ)‘ کی گئی تھی اُس میں بطور خاص اِس نکتے کو اُجاگر کیا گیا کہ ’بی آر ٹی‘ کے فعال ہونے سے پشاور کی ہوا میں موجود کاربن کی سطح کم ہو گی کیونکہ ڈیزل اُور دیگر ایندھن سے چلنے والی عمومی پبلک ٹرانسپورٹ کی جگہ متبادل ایندھن استعمال کرنے والی ’ہائبرڈ بسیں‘ لے لیں گی۔ اعدادوشمار پیش کئے گئے کہ پشاور کے مختلف پبلک ٹرانسپورٹ روٹس (راہداریوں) پر 618 پرانی بسیں چلتی ہیں‘ جنہیں ٹرانس پشاور (TransPeshawar) نامی کمپنی کے قیام سے بتدریج ختم کیا جائے گا جس سے نہ صرف فضائی آلودگی بلکہ پشاور کے مختلف روٹس پر ٹریفک کا دباو¿ بھی کم ہوگا لیکن برسرزمین صورتحال یہ ہے کہ پشاور کے مختلف روٹس پر ٹریفک کا دباو¿ اُور فضائی آلودگی بدستور (جوں کی توں) موجود ہے۔ بی آر ٹی کے ساتھ وہ پرانی بسیں بھی چل رہی ہیں جنہیں ماحولیاتی آلودگی کا باعث قرار دیتے ہوئے ’بی آر ٹی‘ بنانے کا فیصلہ کیا گیا تھا اُور صرف وہ مسافر بسیں ہی مسئلہ نہیں جنہیں پبلک ٹرانسپورٹ کے لئے استعمال کیا جاتا ہے بلکہ پشاور کے کئی تعلیمی ادارے ایسے ہیں جنہوں نے پرانی بسیں رنگ روغن کر کے اُنہیں ’سکولز وینز‘ بنا رکھا ہے اُور یہ بسیں دھواں اُگلتی صبح سے شام تک اندرون شہر کے اُن حصوں سے بھی گزرتی ہیں جہاں بڑی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع ہے۔

پشاور میں بڑھتی ہوئی فضائی آلودگی اِس لئے ’اہم (سنجیدہ) مسئلہ‘ ہے کیونکہ ماضی میں ہوئی بارش کے بعد‘ پھولوں کے اِس شہر میں فضائی آلودگی کی سطح میں غیرمعمولی کمی آیا کرتی تھی لیکن حالیہ تجزئیات سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ بارش کے بعد بھی پشاور کے کئی حصوں میں فضائی آلودگی کی سطح ’خطرناک حد سے زیادہ یعنی بلند رہتی ہے۔‘ شہر کے وہ حصے جو فضائی آلودگی سے براہ¿ راست متاثر ہو رہے ہیں اُن میں سرفہرست ’چوک یادگار‘ گھنٹہ گھر تا بازار کلاں‘ گھنٹہ گھر تا ہشت نگری گیٹ‘ چوک یادگار تا کابلی دروازہ اُور چوک یادگار تک اشرف روڈ شامل ہیں۔ اِن سبھی علاقوں کا مسئلہ یہ ہے کہ شہر کی آبادی بڑھنے کی وجہ سے یہاں کے کاروباری مراکز‘ منڈیاں اُور بازاروں کا بوجھ آمدورفت کے وسائل پر منتقل ہو گیا ہے اُور صوبائی حکومت اگر پشاور شہر اُور اِس کے مضافاتی علاقوں میں فضائی آلودگی کی سطح کم کرتے ہوئے اِسے معمول پر لانا چاہتی ہے تو اِسے اندرون شہر قائم تمام منڈیوں شہر کی حدود سے باہر‘ رنگ روڈ کے پار منتقل کرنا ہوگا۔ مثال کے طور پر ’پیپل منڈی‘ شہر کے وسط میں واقع ہے‘ جس کے لئے سازوسامان کی ترسیل اندرون ملک سے بذریعہ ٹرک ہوتی ہے۔ ٹرک اڈے (حاجی کیمپ) سے سازوسامان چھوٹی بڑی مال گاڑیوں پر لاد کر پیپل منڈی منتقل کیا جاتا ہے جہاں سے خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع کے لئے یہی مال دوبارہ ٹرک اڈے کے لئے روانہ ہوتا ہے۔ یہی صورتحال رام پورہ گیٹ سے ہشت نگری تک پھیلی آٹے‘ دالوں‘ گھی‘ خوردنی تیل‘ مصالحہ جات اُور دیگر اجناس کی منڈی کا بھی ہے کہ پہلے اِن کے لئے اندرون شہر مال کی آمد ہوتی ہے اُور پھر اِن کی بیرون پشاور اُنہی راستوں سے گزرتے ہوئے ترسیل کی جاتی ہے جن سے ہو کر یہ پشاور شہر پہنچے تھے۔

پشاور میٹرو ’بی آر ٹی‘ کے فعال ہونے کے بعد سے حکومت نے 618 پرانی بسوں میں سے 146 بسیں (فی بس 10 لاکھ سے 14 لاکھ روپے) کے عوض خریدیں اُور چاہتی ہے کہ باقی ماندہ بسیں بھی جلد خرید کر مسافروں کا سارا بوجھ ’بی آر ٹی‘ پر منتقل کر دیا جائے۔ کیا نجی ٹرانسپورٹ مالکان اپنی وہ بسیں فروخت کرنا چاہیں گے جو فی الوقت کارآمد ہیں؟ کیا ’میٹرو بسوں‘ کی تعداد اِس قدر ہے کہ وہ پشاور کے سو فیصد پبلک ٹرانسپورٹ مسافروں کا بوجھ اُٹھا سکیں؟ اِس مرحلہ¿ فکر پر ”ہر حکومتی فیصلہ سازی کے ناکام ہونے کی وجہ“ بھی جان لیجئے جو کہ آبادی سے متعلق غلط اعدادوشمار ہیں۔ مثال کے طور پر جب کسی بھی چھوٹے بڑے ترقیاتی منصوبے سے متعلق حکمت ِعملی وضع کی جاتی ہے تو اِس موقع پر پشاور کی آبادی سے متعلق جو اعدادوشمار مدنظر رکھے جاتے ہیں اُن میں کمی بیشی پائی جاتی ہے۔ سال 2017ءکی مردم شماری کے مطابق ضلع پشاور (92 یونین کونسلوں) کی کل آبادی 42 لاکھ 69 ہزار 079 افراد پر مشتمل ہے جن بیس لاکھ شہری علاقوں کی آبادی ہے اُور خیبرپختونخوا کے شہری علاقوں کی آبادی میں سالانہ 2.96فیصد جبکہ دیہی علاقوں کی آبادی میں سالانہ 2.87فیصد کے تناسب سے اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان کے 10 بڑے شہروں میں کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد‘ روال پنڈی اُور گوجرانوالہ کے بعد پشاور چھٹے نمبر پر ہے اُور ضلع پشاور شہر کی آبادی جو کہ 1998ءکی مردم شماری میں 9 لاکھ 82 ہزار 816 تھی 2017ءکی مردم شماری میں بڑھ کر 19 لاکھ 70 ہزار 42 ہو چکی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ 2017ءکی مردم شماری میں پشاور ڈویژن (ضلع چارسدہ‘ ضلع نوشہرہ‘ ضلع خیبر‘ ضلع مہمند اُور ضلع پشاور) کی کل آبادی 74 لاکھ 3 ہزار 817 نفوس پر مشتمل دکھائی گئی اُس سے کئی گنا زیادہ (مقامی وغیرمقامی) آبادی پشاور شہر اُور اِس کے مضافاتی علاقوں میں آباد ہے! متعدد تجربات کی ناکامی سے حاصل ہونے والے نتائج مدنظر رکھتے ہوئے لب لباب (خلاصہ کلام) یہ ہے کہ جہاں منصوبہ بندی کے لئے دستیاب اعدادوشمار درست نہیں ہوں گے وہاں حکمت ِعملیوں کے خاطرخواہ نتائج (اہداف) بھی حاصل ہونا ممکن نہیں۔

....


No comments:

Post a Comment