Sunday, September 26, 2021

Education from exams to protest

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

اہم موڑ

طب کی بنیادی تعلیم (ایم بی بی ایس اُور بی ڈی ایس) حاصل کرنے خواہشمند طلبا و طالبات کو اپنی ذہانت‘ اہلیت اُور برتری ثابت کرنے کے لئے 2 امتحانی مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ پہلا 10ویں کلاس (میٹرک) کے بعد شروع ہوتا ہے اُور اِس 2 سالہ دور (گیارہویں اُور بارہویں جماعتوں) میں اُنہیں ایڑی چوٹی کا زور لگانا ہوتا ہے تاکہ لازمی مضامین کے علاو¿ہ فزکس (علم ِطبیعات)‘ کیمسٹری (علم ِکیمیا) اُور بیالوجی (علم ِحیاتیات) میں نمایاں نمبر حاصل کرتے ہوئے متعلقہ امتحانی بورڈ میں خصوصی حیثیت سے کامیاب ہوں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کسی طالب علم کی زندگی کے یہی 2 سال اُس کی باقی ماندہ عملی زندگی کا تعین کرتے ہیں تو غلط نہیں ہوگا۔ ’ایف اے / ایف ایس سی‘ طلبہ کی زندگی کا ”اہم ترین موڑ“ سمجھا تو جاتا ہے لیکن اِس کے تحفظ اُور درست رہنمائی کے علاو¿ہ کامیاب ہونے والے طلبہ کی تعداد کے مطابق داخلوں کا اہتمام و انتظام نہیں کیا جاتا۔ ہر سال طب و دیگر تعلیمی شعبوں میں داخلہ حاصل کرنے کے خواہشمندوں کی بڑی تعداد (اکثریت) داخلوں سے محروم رہ جاتی ہے لیکن بالخصوص طب کے تعلیمی اداروں میں نشستوں کی تعداد میں حسب آبادی و ضرورت (خاطرخواہ) اضافہ نہیں کیا جاتا تو آخر تعلیمی اداروں کی تعداد یا اِن میں ہر سال نشستوں کی تعداد بتدریج بڑھانا کس کی ذمہ داری ہے اُور اِس سلسلے میں عوام کا دیرینہ مطالبہ کیوں سُنا اَن سُنا کیا جا رہا ہے۔ طب کی تعلیم سے متعلق حکومتی بندوبست عوام کی نظروں میں خرابیوں کا مجموعہ ہے اُور یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک تعلیم حاصل کرنے والوں کے علاو¿ہ اندرون ملک زیرتعلیم طلبا و طالبات اُور ڈاکٹر بننے کے بعد میڈیکل کمیشن کے پیچیدہ و مالی لحاظ سے مہنگے انتظامی امور کے بارے شکایت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہتا ہے۔ حالیہ احتجاج اُن طلبہ کی جانب سے جاری ہے جو اپنے والدین کے ہمراہ چاروں صوبوں سے ’اسلام آباد‘ میں میڈیکل کمیشن کے سامنے جمع ہوئے۔ سینکڑوں کی تعداد میں اِن احتجاج کرنے والوں نے پچیس اُور چھبیس ستمبر کی ساری رات ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کے صدر دفتر کے سامنے کھلے آسمان تک بسر کی۔ اپنے مطالبات کے حق میں نعرے لگائے اُور تھک ہار کر میڈیکل کمیشن کے سامنے سڑک اُور ملحقہ سبزہ زار پر سو گئے تاہم اُنہوں نے اعلان کر رکھا ہے کہ وہ مبینہ ’بے حس میڈیکل کمیشن‘ کے سامنے ہار نہیں مانیں گے اُور احتجاج جاری رکھتے ہوئے اِس کا دائرہ بھی بڑھایا جائے گا۔ آخری خبریں آنے تک ڈاکٹروں کی ملک گیر نمائندہ تنظیم ’پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (PMA)‘ نے بھی طلبہ کی حمایت کر دی ہے اُور ’پی ایم اے پنجاب‘ کے کئی رہنماؤں نے طلبہ اُور اُن کے والدین کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے دھرنے میں شرکت بھی کی ہے۔

وفاقی ادارے (پاکستان میڈیکل کمیشن) کے تعلقات کسی بھی فریق سے مثالی نہیں۔ طب کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کے علاو¿ہ میڈیکل کمیشن کے پاس رجسٹرڈ ڈاکٹر‘ طب کی تدریس کرنے والے اساتذہ‘ اندرون و بیرون ملک طب کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ اُور نجی تعلیمی ادارے اپنی اپنی جگہ یکساں فریادی (نوحہ کناں) ہیں۔ اِس صورتحال کی سنگینی کا اندازہ اِس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ مذکورہ سبھی فریقین نے عدالتوں سے رجوع کر رکھا ہے اُور ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کے قیام اُور اِس قیام کو جس آئین سے تحفظ دیا گیا ہے اُس کے خلاف حالیہ (تازہ ترین) مقدمہ رواں ہفتے (چوبیس ستمبر دوہزاراکیس) عدالت ِعالیہ (پشاور ہائی کورٹ) میں درج ہوا ہے جس میں درخواست گزار جواد افضل وغیرہ نے ”پاکستان میڈیکل کمیشن قانون 2020ئ“ کو غیرمناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ مذکورہ قانون آئین پاکستان (1973ئ) کی مختلف شقوں کے خلاف ہے بالخصوص یہ 18ویں آئینی ترمیم سے بھی متصادم ہے جس میں صوبوں کو تعلیم جیسے شعبے میں فیصلے کرنے کی اجازت (آئینی خودمختاری) دی گئی تھی۔ مقدمہ درج ہو چکا ہے اُور سماعت کے لئے ’یکم اکتوبر‘ کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ اِس مقدمے (مو¿قف) کی خاص بات طلبہ کی اہلیت جانچنے کے معیار (MDCAT) نامی امتحان ہے‘ جس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ اِس کی خاطرخواہ تیاری کے لئے طلبہ کو وقت نہیں دیا گیا اُور پے در پے امتحانات کی وجہ سے طلبہ شدید ذہنی دباو¿ کا شکار ہوتے ہیں۔ اگرچہ مقدمے میں یہ نکتہ شامل نہیں کہ طلبہ کی اہلیت جانچنے کے لئے اُنہیں ایک سے زیادہ امتحانی مراحل سے واسطہ پڑتا ہے جو غیرضروری اُور نامناسب تعلیمی بندوبست ہے اصولاً بورڈ امتحان ہی کسی طالب کی اہلیت و قابلیت جانچنے کے لئے کافی ہے اُور اگر بورڈ امتحان ’کسی وجہ سے‘ کافی نہیں تو پھر اِسے جاری رکھنے کا مقصد سمجھ و ضرورت سے بالاتر ہے۔ اُمید کے مقدمے کے کسی مرحلے پر اِس بارے بھی غور ہوگا کہ آخر میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلے کے لئے کسی اضافی امتحان کی ضرورت (طلب) ہی کیوں پیش آتی ہے؟

پشاور ہائی کورٹ کے سامنے میڈیکل کمیشن سے متعلق دوسرا اعتراض (عذر) یہ پیش گیا ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی (تعلیمی اہلیت جانچنے کا) امتحانی مرحلہ پانچ مختلف نصابوں (چار صوبوں اُور وفاقی تعلیمی نصاب) پر مشتمل ہے‘ جس میں کامیابی کے لئے کم سے کم 65 فیصد نمبر حاصل کرنا ضروری ہیں۔ یہ پینسٹھ فیصد نمبر بورڈ امتحان میں پاس ہونے کے مقررہ معیار سے زیادہ رکھے گئے ہیں۔ درخواست گزاروں کا مو¿قف ہے کہ کورونا وبا سے پیدا ہونے والی ہنگامی صورتحال کی وجہ سے درس و تدریس کا عمل بار بار تعطل کا شکار رہا ہے اُور جبکہ اِس بات کا اعتراف خود وفاقی و صوبائی حکومتیں بھی کرتی ہیں تو اِس کے باوجود میڈیکل و ڈینٹل تعلیم کے خواہشمند طلبا و طالبات سے ’پاسنگ مارکس‘ کم کرنے کی صورت رعایت کیوں نہیں کی گئی؟ تیسرا نکتہ صوبائی خودمختاری سے متعلق ہے کہ طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم میں داخلوں کے لئے اہلیت کا امتحان (ایم ڈی کیٹ) منعقد کرنے کا اختیار صوبوں کو ہونا چاہئے کہ وہ امتحان کے نصاب‘ امتحان کی تاریخ اُور امتحان کے آن لائن یا آف لائن طریقہ¿ کار سے متعلق فیصلہ خود کریں۔ ذہن نشین رہے کہ رواں برس ہونے والے مذکورہ ’ایم ڈی کیٹ امتحان‘ کے نتائج ایسے طلبا و طالبات کے لئے مایوسی کا باعث بنے ہیں جو سکول و بورڈ امتحانات کے دوران یعنی اپنے پورے تعلیمی عرصے (ایجوکیشن کیئریر) میں نمایاں رہے لیکن وہ ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کامیاب نہ ہو سکے یا اِس امتحان کو بھی امتیازی نمبروں سے پاس نہ کر سکے۔ یہ صورتحال صرف طلبا و طالبات ہی کے لئے نہیں بلکہ والدین اُور اساتذہ کے لئے پریشان کن ہیں جنہوں نے بچوں کے اچھے مستقبل کے خواب میں اپنا پیٹ کاٹ کر اُور اپنی ضروریات کی قربانیاں دے کر سرمایہ کاری کی لیکن اُن کے سامنے ایک ’ناقابل یقین نتیجہ‘ اُور سردمہری کا مظاہرہ کرنے والا ’بے رحم ادارہ‘ موجود ہے‘ جس پر کسی مہذب و شائستہ اُور آئینی حقوق و اخلاقی ذرائع کا استعمال کرتے ہوئے شکایت یا مقدمہ درج کرنے اُور کسی بھی نوعیت کے احتجاج کا کوئی اثر نہیں ہو رہا۔

وفاقی اُور صوبائی سطح پر فیصلہ سازوں کو لاکھوں کی تعداد میں طب کی تعلیم کے خواہشمند طلبہ اُور اِن کے والدین میں پائی جانے والی تشویش و پریشانی کا سدباب کرنے کے لئے خاطرخواہ فوری اُور باعث ِاطمینان عملی اقدامات کرنے چاہیئں۔

....





No comments:

Post a Comment