Saturday, September 25, 2021

Kitab Kahani : The other [dark] side of politics!

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

کتاب کہانی: کئی سُولیاں سر راہ تھیں

سیاسی اختلاف کی پاداش میں فوجی عدالت سے سزائے موت پانے والے ایک قیدی کی روداد (آپ بیتی) بعنوان ’کئی سُولیاں سرِراہ تھیں‘ کا چوتھا ایڈیشن سانجھ پبلی کیشنز (لاہور) نے شائع کیا ہے جس میں خواجہ آصف جاوید بٹ ایڈوکیٹ نے جنرل ضیا الحق کے دور حکومت اپنے ساتھ پیش آنے والے واقعات کا تذکرہ محفوظ کیا ہے۔ جنرل ضیا الحق 16 ستمبر 1978ءسے 17 اگست 1988ءتک پاکستان کے چھٹے صدر مملکت رہے جبکہ اِس سے قبل بطور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر اُن کا بلاشرکت غیرے دور حکومت (جسے آمریت بھی کہا جاتا ہے) 5 جولائی 1977ءسے 24 مارچ 1985ءتک جاری رہا۔ آپ یکم مارچ 1976ءسے 17 اگست 1988ءپاک فوج کے سربراہ رہے‘ جن سے قبل ٹکا خان اُور جن کے بعد مرزا اسلم بیگ نے پاک فوج کی بطور سربراہ قیادت کی تھی۔

 نئی نسل کے لئے پاکستان کی سیاسی تاریخ کو سمجھنے کے لئے جنرل ضیاالحق کی آمریت کا باب انتہائی اہم ہے اُور آصف بٹ کی مذکورہ کتاب اِس سلسلے میں بہت مددگار ثابت ہو سکتی ہے جس کے انتساب میں اُنہوں نے پوری کتاب کو سموتے ہوئے لکھا ہے کہ ”ضیا آمریت کے دوران مزاحمتی کردار ادا کرنے والے اُن ساد لوحوں کے نام جو تاریک راہوں میں لٹے اُور مارے گئے۔ اُن زندہ اُور درگور مصیبت زدوں کے نام جو اُس طویل آمرانہ دور میں مہم جو‘ مبتلائے سحر اُور خانہ بربادی پر تُلے اپنے پیاروں کے پیچھے (کی تلاش میں) جیل جیل کی خاک چھانتے رہے۔“ اگرچہ آصف بٹ نے آمریت کے صرف اُنہی پہلو ؤں پر زیادہ بات کی ہے جن کا اُن کی اپنی ذات و مشکلات سے تعلق تھا لیکن کتاب میں زیربحث لایا گیا موضوع بے پناہ وسعت رکھتا ہے اُور اِس میں اُن سبھی پہلوؤں (بے رحم روئیوں) کا کہیں سرسری‘ اجمالاً تو کہیں تفصیلاً و دستاویزی طور پر ذکر موجود ہے‘ جب ظلم وستم کی انتہا کی گئی۔ 471 صفحات پر مشتمل اِس کتاب کو پڑھ کر پاکستان میں جمہوری نظام‘ اقدار اُور آزادی کی نہ صرف سمجھ آتی ہے کہ کس طرح کھٹن راستوں سے گزر کر یہ نعمت میسر آئی ہے اُور اِس کی حفاظت کیوں ضروری ہے۔ حاصل ِکتاب یہ نتیجہ خیال اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر جمہوریت کی حفاظت اُور اِس کی قدر و اہمیت کا خاطرخواہ احساس نہ کیا جائے تو اِس کا نتیجہ کیا نکلتا ہے اُور جب جمہوریت کی بساط لپیٹ دی جاتی ہے تب کس قدر گھٹن عام ہوتی ہے‘ یہ سبھی احساسات کتاب میں جابجا تحریر ملتے ہیں۔ 

قفس در قفس کے باب میں جاوید بٹ نے ’سنٹرل جیل پشاور‘ میں گزرے اپنے شب و روز کا بھی ذکر کیا ہے جب اُنہیں پنجاب کے قیدخانوں سے پشاور جیل منتقل کیا گیا اُور یہاں جب اُنہوں نے پختون مہمان نوازی اُور احترام کو قریب سے دیکھا۔ لکھتے ہیں ”جو حسن ِسلوک (قلعہ) بالاحصار (کے قیدخانے) میں میرے ساتھ روا رکھا گیا‘ اُس کی بنا پر ہر پختون مجھے فرشتہ نما لگ رہا تھا اُور میرے دل سے اِس نسل کے لئے دعائیں اُور محبتیں پھوٹ رہی تھیں۔“ ”پشاور جیل میں میلے کا سماں“ سے متعلق مشاہدات خاصے دلچسپ ہیں جن کی روشنی میں اُس وقت کی طلبہ یونین سیاست اُور تعلیمی اِداروں بشمول جامعات میں رونما ہونے والے پُرتشدد واقعات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس طرح تعلیمی اِداروں میں سیاست متعارف کروائی گئی اُور کس طرح تعلیمی اِداروں میں سیاسی مخالفین کو کچلنے کے لئے ریاست ’غنڈہ گردی‘ کی سرپرستی کرتی رہی ہے۔ کیا تعلیمی اداروں میں سیاست ہونی چاہئے؟ 

طلبہ سیاسی تنظیموں پر پابندی کے فائدے اُور نقصانات کیا ہیں؟ اِس حوالے سے وہ سبھی سیاسی کارکن زیادہ بہتر و جامع انداز میں روشنی ڈال سکتے ہیں جو اِس پورے عمل سے گزرے ہیں۔ جاوید بٹ کی پشاور سنٹرل جیل سے متعلق یاداشت میں تحریر ہے کہ ایک دن 20 کے قریب مختلف کالجوں کے طلبہ کا گروپ جیل میں وارد ہو کر میرے والی بیرک (کمرے) میں آ مقیم ہوا۔ یہ سب کے سب ’پیپلز سٹوڈنٹس فیڈریشن (PSF)‘ سے وابستہ تھے اُور اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ جھگڑے کی وجہ سے گرفتار کر کے جیل منتقل کئے گئے تھے۔ اِن میں ڈاکٹر اظہر جدون‘ ڈاکٹر کمال (مرحوم)‘ جہانزیب‘ قاسم جان اُور جاوید اختر (مرحوم) وغیرہ شامل تھے۔ اِن سب کے آ جانے سے (قیدخانے) میں عید کا سا ماحول پیدا ہو گیا۔ (یہ) سب (عمر میں) مجھ سے تو بہرحال جونیئر تھے جب کوئی 21 سال کا ہو اُور آپ 27 سال کے تو اُس وقت یہ فرق واضح محسوس ہوتا ہے۔ پہلے دو چار دن تو مجھے میری بزرگی کی قیمت ’صیغہ جمع‘ میں ادب کے ساتھ بُلا کر ادا کی گئی لیکن پھر مجھے بھی یہ لوگ گدگدی کرنے پر آگئے (اُور یوں) چھ سال (عمر میں) بڑا ہونے کا فرق جاتا رہا۔ نسوار کا استعمال آدھے سے زیادہ جوان باقاعدگی سے کرتے تھے اُور چرس سے دو تین چھوڑ کر سب ہی شغل فرماتے۔ مجھے گھیر گھار کر چرس بھرے سگریٹ کے کش لگانے پر آمادہ کر ہی لیا گیا۔ چرس بھرے سگریٹ کے دو چار کش لینے کے بعد میری کنپٹیوں (سر) کے ادندر جیسے مختلف قسم کی اونچی‘ کم‘ تیز‘ تیز تر‘ ٹی ٹوں ٹاں ٹیں .... ٹیں .... ٹاں.... ں ں ں .... کی عجیب و غریب کیفیت پیدا ہوئی۔ (چرس پینے کی وجہ سے بنا گھڑی دیکھے میری) وقت کو ماپنےکی صلاحیت (بھی) تقریباً جاتی رہی (اُور) معلوم ہی نہیں ہوتا تھا کہ کتنا وقت گزر گیا ہے اُور عالم استغراق سے کتنی دیر بعد سر اُٹھایا ہے!“

نظریات کی سیاست اُور اصولوں کی رہنمائی میں سفر کی ہر منزل پہلے سے زیادہ کھٹن اُور دشوارگزار ہوتی ہے اُور یہی وجہ ہے کہ بہت کم لوگ سیاست میں استقامت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہی استقامت ہر شخص کی زندگی میں آنے والی ’کربلا‘ ہے‘ جہاں اُسے بھوک پیاس اُور ظلم برداشت کرنا پڑتے ہیں کیونکہ جب مقصد عظیم ہو تو حوصلہ‘ ہمت اُور برداشت جواب نہیں دیتی۔ سیاسی قیدیوں کو ’سر راہ‘ کتنی سُولیوں سے گزرنا پڑتا ہے اُور اِنہیں کس قدر جسمانی تکالیف و ذہنی اذیت اُور خاندانی و سماجی مسائل سے واسطہ رہتا ہے‘ ممکن نہیں کہ اُن کا احاطہ الفاظ یا کسی ایک آپ بیتی (کتاب کی صورت) میں ہو سکے۔ ایسے باضمیروں کا وقت پیچھا کرتا ہے اُور بامقصد زندگی بسر کرنے والے نفوس عالیہ (خواص) ہوں یا عوام‘ یہی وقت معلم بھی ہے‘ جو انسانی تجربات‘ مشاہدات اُور وارداتوں سے نتائج اخذ کرنے میں مدد کرتا ہے۔ اُمید ہے جاوید بٹ اپنی آب بیتی کے آئندہ ایڈیشن میں اُن سیاسی کرداروں کا بھی ذکر کریں جنہوں نے اِن جیسے پرخلوص کارکنوں کی قربانیوں سے فائدہ اُٹھایا‘ جنہوں نے نظریاتی سیاست کو موروثی سیاست کا بدنما لبادہ پہنا رکھا ہے۔ سبق یہ ہے کہ جمہوریت کی حفاظت کی جائے۔ جمہوریت کی قدر ہونی چاہئے اُور ”وسیع تر قومی مفاد“ اگر کسی چیز کا نام ہے تو وہ جمہوریت کے بغیر کوئی دوسری شے (جنس) نہیں اُور اِسی ”قومی مفاد“ پر ذاتی مفادات قربان کرنے والوں میں شامل آصف بٹ اُس کارواں کا حصہ رہے ہیں‘ جو تاحال اپنی منزل کی تلاش میں سرگرداں ہے۔ 

”کبھی سسکی‘ کبھی آوازہ‘ سفر جاری ہے .... کسی دیوانے کا دیوانہ سفر جاری ہے (شاعر:وقار خان)۔“





No comments:

Post a Comment