پشاور شناسی
.... گھاس ’اِک‘ قبر پر کچھ اُور ہری لگتی ہے!
پشاور کی محبت میں سرشار ”رحیم اللہ یوسفزئی“ کی وفات (نو ستمبر دوہزاراکیس) پر صرف اُن کے ہم پیشہ (قلم قبیلہ) ہی افسردہ نہیں بلکہ پشاور شناسوں کی وہ تعداد میں غمزدہ ہے‘ جو صحافت کے شعبے میں سند کا درجہ رکھنے والے ’یوسفزئی‘ کے پشاور سے دلی تعلق اُور مخصوص نرم لہجے میں پشاور سے اخلاص و محبت کے اظہار پر مبنی خیالات سے آگاہ تھے۔ یادش بخیر‘ شمال مغربی سرحدی صوبے (حال خیبرپختونخوا) میں متحدہ مجلس عمل کے نام سے جماعت اسلامی‘ تحریک جعفریہ‘ جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمن‘ جماعت اہلحدیث اُور جمیعت علمائے پاکستان پر مبنی دینی جماعتوں کا اتحاد سال 2002ءمیں قائم ہوا‘ جنہیں صوبائی حکومت بنانے کا موقع ملا تو پشاور سمیت دیگر اضلاع کے لئے مختص ترقیاتی وسائل وزیراعلیٰ کے آبائی حلقے میں تعمیروترقی پر خرچ ہونے لگے۔ اِس ناانصافی کے خلاف ’پشاور بچاو¿ تحریک‘ کا محاذ بنایا گیا اُور اِس کی روح رواں رحیم اللہ یوسفزئی نے صوبائی دارالحکومت کو اُس کا جائز حق دلانے کے لئے دامے‘ درہمے‘ سخنے مدد کی اُور پیش پیش رہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی (پیدائش 10 ستمبر 1954ئ) ضلع مردان کے گاو¿ں شموزئی میں پیدا ہوئے۔ مادری زبان پشتو (وہبی) لیکن اُردو اُور انگریزی پر یکساں (کسبی) عبور رکھتے تھے جبکہ ہندکو زبان کے چند الفاظ کی ادائیگی اُن کے منہ سے بہت اچھی لگتی بالخصوس جب وہ مخصوص دھیمے لہجے میں پشاور کے اصل وارثوں کی زبان (ہندکو) میں ’لالے دی جان‘ کہتے تو یہ درحقیقت مذاق نہیں ہوتا بلکہ وہ پشاوریوں کی نرم مزاجی اُور اِن کے ہاں پائے جانے والے عمومی ادب و احترام کو خراج عقیدت پیش کر رہے ہوتے کہ جس میں ہر چھوٹے بڑے کو اُس کے اصل نام کی بجائے اچھے و معروف القابات سے مخاطب کیا جاتا ہے۔ ہندکو زبان کے علاو¿ہ شاید ہی دنیا کی کسی دوسرے زبان میں عمومی بول چال اِس قدر ادب و تعظیم کے دائرے یا مدارج رکھتی ہو لیکن چونکہ اب اہل پشاور کے لئے ہندکو زبان اُتنی ہی اجنبی بن چکی ہے جتنی یہاں آباد ہونے والی دیگر اقوام کی اکثریت کے لئے ہے‘ اِس لئے بات بات پر ’لالے دی جان‘ اُور ’قربان جاواں‘ جیسے صیغے روزمرہ بول چال کے دوران سننے میں نہیں آتے۔ ’رحیم اللہ یوسفزئی‘ کی ’علم جو‘ طبیعت اُور ’علمی اضطراب‘ نے اُنہیں صحافت کی دنیا میں کامیاب و بلند مرتبے پر فائز کیا۔ یہی وجہ تھی کہ وہ اپنی مادری زبان پشتو کو بھی سطحی نہیں بلکہ انتہائی گہرائی سے جانتے تھے اُور کسی ایک لفظ کی تہہ تک جانے میں تحقیق کو الجھنے یا بے نتیجہ چھوڑنے کے قائل نہیں تھے۔ اخبار کے صوبائی دفتر میں مدیرت (ریزیڈنٹ ایڈیٹر) کے طور پر فائز ہونے کی وجہ سے اکثر خبروں کے معیار اُور اُن میں استعمال ہونے والی اصطلاحات پر نظر رکھتے۔ ایک مرتبہ راقم سے محرم الحرام کی مناسبت سے تحریر خبر میں لفظ ’امام بارگاہ‘ سے متعلق سوالات پوچھے اُور یہ جاننے کی کوشش کی کہ ’امام بارگاہ‘ اُور ’امام باڑہ‘ کی وجہ تسمیہ کیا ہے‘ یہ الفاظ کب سے رائج ہیں اُور مختلف ثقافتوں میں اِس عبادت گاہ کے مختلف نام کیا رائج ہیں۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے کبھی بھی سیکھنے کا عمل ترک نہیں کیا اُور یہی وجہ تھی کہ جب تک اُن کے لوگوں سے ملنے یعنی بات چیت سے علم کے حصول کا سلسلہ جاری رہا‘ جو اُن کی علالت کے باعث آخری پانچ چھ ماہ صرف ٹیلی فونک رابطوں کی حد تک رہا اُور پھر دو ماہ اِس سے بھی محدود ہو گیا تھا تو اِس دوران اُنہوں نے لکھنے لکھانے کا عمل ترک دیا حالانکہ قوی الحافظہ تھے اُور مشق بھی خوب تھی۔ اُن کی آخری تحریر وفات سے قریب ڈھائی مہینے قبل ’دی نیوز‘ میں شائع ہوئی تھی۔
مرحوم و مغفور ”رحیم اللہ یوسفزئی“ صرف صحافتی ہی نہیں بلکہ سیاست کے شاہسوار بھی تھے۔ پاکستان اُور افغانستان کی قوم پرست جماعتیں و مذہبی حلقوں میں یکساں مقبول رہے اُور اگرچہ اپنی نگارشات میں صحافتی اقدار کو ملحوظ رکھتے ہوئے غیرجانبداری اُور سچائی کے جملہ پہلوو¿ں کے بیان پر مبنی توازن برقرار رکھتے لیکن اُن کے سیاسی جھکاو¿ کو باآسانی محسوس کیا جا سکتا تھا۔ دانشور اِس قدر تھے کہ کسی بھی قوم پرست جماعت کو اپنی دیانتدارانہ صحافتی خدمات کی وجہ سے ملنے والی حیثیت کا فائدہ اُٹھانے کا موقع فراہم نہیں کیا۔ یہی صحافیانہ ایمانداری‘ تجربہ اُور مہارت اُن کی کل کمائی (اثاثہ) تھا جسے اُنہوں نے آخری دم تک ہاتھ سے جانے نہیں دیا اُور اِس حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے کہ جاننے والوں کی اکثریت اُن کی کامیاب زندگی کی معترف ہے اُور اُن سے دوستی و تعلق پر افتخار محسوس کرتی ہے۔
رحیم اللہ یوسفزئی کو پشاور سے اپنے تعلق پر ہمیشہ فخر رہا اُور اُن کے ہاں پشاور کا قرض اُور اِس کی محبت کے تقاضے نبھانے کی کوششیں بھی ہر دور میں جاری رہیں جو ایک ایسا وسیع عنوان ہے جس کا احاطہ کسی ایک تحریر میں ممکن نہیں۔ آپ نہ صرف خود پشاور کے شیدائی تھے بلکہ پشاور سے محبت اُور اِس جذبے کی قدر کرنے والوں کی حمایت اُور اُن کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے میں مصلحت سے کام نہیں لیتے تھے۔ اللہ تعالیٰ اہل محبت کے درجات بلند سے بلند فرمائے اُور مرحوم کے قرابت داروں‘ دوست‘ احباب‘ عزیزواقارب اُور بالخصوص ایوان ہائے صحافت (پشاور پریس کلب) اُور خیبریونین آف جرنلسٹس کے افسردہ اراکین کو صبرجمیل عطا فرمائے۔ دنیا کی حقیقت ہی یہی ہے کہ یہاں حیات کی محافظ موت ہے اُور موت کوئی ایسی حالت نہیں جو زندگی سے کم خوشگوار تجربہ ہو کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو اِسے یوں زندگی کے بعد نہ رکھا جاتا جو درحقیقت ایک انعام ہے‘ اُن ہستیوں کے لئے جو اپنی دنیاوی تجربہ گاہ میں اپنی زندگیاں حق گوئی کی نذر کرتے ہوئے امربالمعروف اُور نہی عن المنکرات (حی علی خیر العمل) کی عملاً تفسیر بنتے ہیں۔ ”زندگی موت کے پہلو میں بھلی لگتی ہے .... گھاس اِس قبر پر کچھ اُور ہری لگتی ہے! (سلیم احمد)“
رحیم اللہ یوسفزئی کی پشاور سے محبت کو سلام ہے جنہوں نے پشاور سے تعلق کو مضبوط کیا اُور یہاں ایک درِدولت (گھر) کی تعمیر کی صورت اپنی آنے والی نسلوں کو بھی پیغام دیا ہے کہ وہ پشاور سے اپنا تعلق بنائے رکھیں‘ جو یقینا ایسا ہی کریں گے۔ رحیم اللہ یوسفزئی کو لاتعداد اشکبار آنکھوں کے سامنے 10 ستمبر 2021ءکے روز (آبائی گاؤں کاٹلنگ) میں سپردخاک کیا گیا‘ آسمان صحافت کے اِس درخشاں ستارے کو آسودہ خاک کرتے ہوئے اُن کے چہرے کا رخ مغرب کی طرف موڑ دیا گیا‘ جو پشاور کی جغرافیائی سمت ہے۔ ”روز کے روز بدلتا ہوں میں خود اپنا جواز .... زندگانی میں تجھے حل نہیں ہونے دیتا (سعید اللہ قریشی)۔“
....
No comments:
Post a Comment