ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: خواب در خواب
شاعر ”عتیق اللہ“ کا یہ شعر بیان ایک ایسی صورتحال کا عکاس ہے‘ جو پشاور کے مسائل کا جامع بیان قرار دیا جا سکتا ہے کہ ”آئینہ آئینہ تیرتا کوئی عکس .... اُور ہر خواب میں دوسرا خواب ہے!“ اہل پشاور کی آنکھوں میں ہر خواب کے بعد بسنے والا دوسرا خواب کب شرمندہ تعبیر ہوگا‘ یہ ایک ایسا سوال ہے کہ اِس کے بارے میں سوچتے ہوئے مزید کئی سوالات جنم لیتے ہیں اُور یوں خواب در خواب ہی نہیں بلکہ سوال در سوال کا سلسلہ بھی چل نکلتا ہے! اہل پشاور سادہ لوح سہی‘ سادہ دل سہی لیکن اتنے بھی بیوقوف نہیں کہ وہ سب کچھ سمجھ نہ رہے ہوں جس سے اُنہیں الگ رکھنے کے لئے ”کارکردگی کے سراب“ تخلیق کئے جا رہے ہیں۔ سب سے پہلا سوال بصورت اعتراض یہ کیا جاتا ہے کہ پشاور کی ترقی کے وعدوں اُور زمینی حقائق میں فاصلہ کیوں ہے؟ حکومتی ادارے اگر کچھ کرنا چاہتے ہیں تو وہ اِس کا ذرائع ابلاغ کے ذریعے اعلان کیوں کرتے ہیں؟ اہل پشاور کی اکثریت کے لئے یہ اَمر بھی سمجھ (منطق) سے بالاتر ہے کہ صوبائی دارالحکومت کے کسی ایک حصے کو تجاوزات سے پاک کرنے اُور تجاوزات کے مسئلے کا مستقل و پائیدار حل تلاش کرنے کے لئے ’نئی حد براری‘ کروائی جا رہی ہے جس کے ذریعے سرکاری اراضی کا تعین کیا جائے گا لیکن باقی ماندہ پشاور یعنی درجنوں تجارتی و رہائشی مراکز میں موجود تجاوزات کو نظرانداز کر دیا گیا ہے! اِس سلسلے میں اندرون یکہ توت گیٹ سے منڈا بیڑی چوک تک تجاوزات نے جن رہائشیوں کے ناک میں دم کر رکھا ہے اُن میں سیّد سعید الزمان گیلانی بھی شامل ہیں‘ جو حال ہی میں خودساختہ جلاوطنی ترک کر کے امریکہ سے واپس آئے ہیں اُور اُن کے بقول ”بے ہنگم آبادی بڑھنے سے پیدا ہونے والے مسائل کے علاؤہ شہری سہولیات کے معیار و مقدار میں کمی اُور ہر طرف تجاوزات کی کھلی چھوٹ اِس بات کا منہ بولتا ثبوت ہیں کہ متعلقہ بلدیاتی ادارہ (ٹاؤن ون)‘ ضلعی حکام (ڈسٹرکٹ گورنمنٹ)‘ ضلعی انتظامیہ (کمشنر و ڈپٹی کمشنر پشاور) اُور صوبائی حکومت (سیاسی فیصلہ سازوں) نے پشاور کو اُن افراد اُور حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے‘ جن کے دل اُور جن کے عمل (قول و فعل میں) پشاور کے لئے محبت اُور رحم کے جذبات نہیں ہیں۔“ اِس سے زیادہ جامع تبصرہ کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا کہ آج ”پشاور پر رحم“ یا ”پشاور سے رحم کا برتاؤ“ کرنے والوں کا شمار اُنگلیوں پر بھی ممکن نہیں رہا جبکہ سیاسی و غیرسیاسی نمائندوں کی تعداد آسمان سے باتیں کر رہی ہے!
خیبرپختونخوا حکومت کی ویب سائٹ (kp.gov.pk) پر موجود اعدادوشمار کے مطابق ضلع پشاور کا کل رقبہ 1257 مربع کلومیٹر ہے اُور یہاں کی کل آبادی کا 48.49 فیصد شہری علاقوں میں جبکہ 51.51 فیصد دیہی علاقوں میں آباد ہے اُور ہر خاندان میں اوسطاً 8.6 افراد بستے ہیں۔ آبادی کے یہ اعدادوشمار درست نہیں اُور جہاں فیصلہ سازوں کے پاس آبادی جیسے بنیادی کلیے سے متعلق کوائف ہی درست نہ ہوں‘ وہاں منصوبہ بندی اُور ترقیاتی عمل سے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو سکتے۔ اِس بات کو ایک مثال سے سمجھا جا سکتا ہے۔ سرکاری دستاویزات کے مطابق سال 1950ءمیں پشاور کی آبادی 1 لاکھ 52 ہزار 825 نفوس پر مشتمل تھی اُور اگر اِس آبادی کا موازنہ آبادی کے موجودہ اعدادوشمار سے کرتے ہوئے شرح نمو اخذ کی جائے تو وہ تین سے چار فیصد سالانہ بنتی ہے یعنی حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ پشاور کی آبادی میں ہر سال تین سے چار فیصد ہو رہا ہے۔ شاید ہمارے سیاسی فیصلہ سازوں کو معلوم نہیں کہ کسی شہر یا ملک کی آبادی سے متعلق اُن کے فراہم کردہ مردم شماری یا خانہ شماری کے اعدادوشمار کو من و عن دنیا تسلیم نہیں کرے گی بلکہ ایسے کئی آزاد ذرائع ہیں جو اپنے طور پر اُور خلائی سیاروں سے لی گئی تصاویر کی بنیاد پر خانہ شماری کرتے ہیں جبکہ وہاں صحت و تعلیم کے نظام اُور انتخابات کے لئے مرتب کی جانے والی ووٹر فہرستوں کو مدنظر رکھتے ہوئے مردم شماری کے کوائف میں اضافے کا سائنسی نتیجہ پیش کیا جاتا ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے فعال اقوام متحدہ کا ایک ذیلی ادارہ ’ڈیپارٹمنٹ آف اکنامکس اینڈ سوشل افیئرز پاپولیشن ڈائنامکس (population.un.org/wup) ہے اُور اِس ویب سائٹ پر سال 2050ءتک ممالک اُور اُن کے بڑے شہروں کی آبادی سے متعلق سائنسی بنیادوں پر مرتب کردہ اعدادوشمار (تخمینہ جات) موجود ہیں جو کسی بھی وقت بلاقیمت (مفت) حاصل (ڈاون لوڈ) کئے جا سکتے ہیں۔
لمحہ فکریہ ہے کہ پشاور کی آبادی میں ہر سال 50 سے 70 ہزار افراد کا اِضافہ ہو رہا ہے اُور یہ سلسلہ 2035 تک جاری رہے گا‘ جس کی شرح میں کمی آبادی کنٹرول کرنے یا پشاور نقل مکانی کرنے کے رجحان کی حوصلہ شکنی کرنے سے ممکن ہے۔ گزشتہ دس برس کے دوران پیش آنے والے واقعات بالخصوص قبائلی علاقوں میں فوجی کاروائیوں کے نتیجے میں نقل مکانی کرنے والوں کی اکثریت کا رخ پشاور کی جانب رہا۔ اِسی طرح افغان مہاجرین کے لئے پہلا پڑا ؤ پشاور ہی ہوتا ہے جبکہ قبائلی علاقوں کو بندوبستی علاقوں میں ضم کرنے کے بعد بھی نقل مکانی کا سلسلہ جاری ہے‘ جس کا ثبوت تین اطراف میں پھیلتا پشاور ہے کہ اِس کی آبادی میلوں پہلے شروع ہو جاتی ہے اُور جی ٹی روڈ و رنگ روڈ کے اطراف میں وہ علاقے جو کبھی زرخیز زمینوں اُور باغات کی سیر کرواتے نظاروں پر مشتمل ہوتے تھے اب رہائشی مراکز میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ خوبصورت ناموں سے بستیاں بن گئی ہیں‘ جن میں اکثریت ایسی رہائشی بستیوں کی ہے جن میں نکاسی آب‘ صفائی‘ گیس اُور پینے کے صاف پانی جیسے بنیادی سہولیات تک میسر نہیں۔ دیہی علاقوں کے کچے پکے راستے اُور کھیتوں کی پگڈنڈیاں خودرو جھاڑیوں کی طرح اُبھرنے والی رہائشی بستیوں کی راہداریوں میں تبدیل کر دی گئی ہیں لیکن صورتحال یہ ہے کہ ضلع پشاور کے شہری و دیہی علاقوں میں تمیز نہیں رہی۔
اندرون شہر کے علاقوں کی آب و ہوا آلودہ ترین جبکہ دیہی علاقوں کا قدرت سے قریب ترین رہن سہن جیسی خوبیاں دم توڑ گئی ہیں۔ الغرض پشاور کے آئینے میں آج جتنے عکس بھی دکھائی دے رہے ہیں وہ سب کے سب ایک دوسرے میں گم ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ جیسے ”آئینہ عکس میں عکس آئینہ بردار میں گم“ ہو چکا ہو بلکہ یہ صورتحال تو دما دم مست قلندر جیسی ہے کہ جس کا جتنا دل چاہتا ہے پشاور کے وسائل کو لوٹ رہا ہے اُور ”پشاور کے پرسان ِحال (یہاں سے منتخب ہونے والے سیاسی نمائندے)“ بھی خاموش ہیں۔ ”آئینہ عکس اُور پس آئینہ بھی مست .... پوشیدہ مست خواب ہویدا‘ بھی مست مست (جاوید صبا)۔“
.....
No comments:
Post a Comment