ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام
سیکورٹی خطرات و خدشات
افغان مہاجرین کی ہزارہ ڈویژن آنے کا سلسلہ جاری ہے۔ سینکڑوں کی تعداد میں آنے والے یہ مہاجرین مانسہرہ پہنچ رہے ہیں جہاں ایک لاکھ سے زائد مہاجرین شنکیاری‘ خاکی‘ اچھڑیاں‘ گڑھی حبیب اللہ‘ اُوگی‘ مانسہرہ شہر‘ بٹ دریاں اُور شیخ آباد کیمپ پہنچ رہے ہیں لیکن اِن کی رجسٹریشن نہیں ہو رہی۔ پولیس حکام اپنی جگہ حیران اُور تشویش میں مبتلا ہیں اُور ایک اعلیٰ پولیس اہلکار کے بقول مہاجرین کی آڑ میں جرائم پیشہ یا دہشت گرد عناصر کے ہونے کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا جبکہ پولیس کے پاس نہ تو افرادی و تکنیکی وسائل اُور نہ ہی احکامات موجود ہیں کہ نئے آنے والے مہاجرین کی رجسٹریشن کرے۔ اصولاً سرحد میں داخل ہونے کے وقت مہاجرین کے کوائف رجسٹر کرنے کے بعد اُنہیں رجسٹریشن دستاویزات جاری ہونی چاہیئں‘ جنہیں اِس بات کا پابند بنایا جائے کہ وہ اپنی نقل و حرکت سے متعلقہ تھانے کو آگاہ کریں گے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی افغان مہاجر خاندان مانسہرہ میں پہلے سے موجود عزیزواقارب کے پاس یا مقررہ مقامات (مہاجر خیمہ بستیوں) میں قیام کرنا چاہتا ہے تو اپنی رجسٹریشن کی سند کا متعلقہ (قریبی) تھانے میں اندراج کرے جہاں مہاجرین کے کوائف سے متعلق ایک الگ رجسٹر ہونا چاہئے۔ حکومت کی جانب سے رجسٹرڈ مہاجرین کو پاکستان میں موبائل فون کنکشن خریدنے کی سہولت دی گئی ہے لیکن اِس کے کوائف متعلقہ پولیس تھانے کو فراہم نہیں کئے جاتے۔ رجسٹریشن کے بعد اُور بنا رجسٹریشن مہاجرین کو نقل و حرکت کی آزادی ہوتی ہے اُور چونکہ سرکاری اِدارے آپس میں مربوط نہیں‘ اِس لئے مہاجرین انتظامی خامیوں کا فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔
ہزارہ ڈویژن میں جرائم کی صورتحال پہلے ہی غیرمعمولی ہے۔ گاڑیاں اُور موٹرسائیکل چوری کی وارداتیں جو ماضی میں نہ ہونے کے برابر تھیں لیکن اب اِن کی شرح میں اضافہ ہو چکا ہے۔ سٹریٹ کرائمز بھی تواتر سے رپورٹ ہو رہے ہیں۔ رواں ہفتے ایبٹ آباد سے چوری شدہ 31 موٹرسائیکل برآمد کئے گئے اُور اِس کارہائے نمایاں کو مزید نمایاں کرنے کے لئے ’تھانہ سٹی‘ میں تیس ستمبر کے روز اعلیٰ پولیس حکام (ایڈیشنل ایس پی‘ ایس پی انوسٹی گیشن‘ اے ایس پی‘ ڈی ایس پیز اُور ایس ایچ اُو) نے پریس کانفرنس کی۔ مذکورہ موٹرسائیکل ضلع ایبٹ آباد کے مختلف تھانہ جات سے چوری کئے گئے تھے اُور بیشتر وارداتوں میں ’کلوز سرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں (CCTV)‘ کی مدد سے موٹرسائیکل چوروں کا سراغ لگایا گیا۔ قابل ذکر ہے کہ ضلعی ولیس سربراہ ظہور بابر آفریدی نے چوری شدہ موٹرسائیکل برآمد کرنے کے لئے خصوصی کمیٹی تشکیل دی تھی جس میں ڈی ایس پی کینٹ راجہ محبوب اُور ایس ایچ اُو سٹی سردار واجد شامل تھے اُور اِس اقدام کے نتیجے میں ایبٹ آباد سے موٹرسائیکل چوری کرنے والا 4 رکنی گروہ گرفتار کیا جن کے قبضے سے 31 موٹرسائیکل برآمد ہوئے اُور اِن میں سے 9 موٹرسائیکلوں کو اُن کے مالکان کے حوالے کر دیا گیا۔ بنیادی ضرورت آبادی کے تناسب سے تھانہ جات اُور پولیس کی افرادی قوت میں اضافہ کرنے کی ہے‘ جس کی جانب بہت کم توجہ دی جا رہی ہے۔ 1969 مربع کلومیٹر پر پھیلا ’ایبٹ آباد‘ ہزارہ ڈویژن کا صدر مقام ہے۔ اِدارہ¿ شماریات (pbs.gov.pk) کی ویب سائٹ پر دستیاب چھٹی مردم شماری (2017ئ) کے نتائج کے مطابق ایبٹ آباد تحصیل کی کل آبادی 9 لاکھ 81 ہزار 590 افراد (7 لاکھ مرد اُور قریب ڈھائی لاکھ خواتین) پر مشتمل ہے جن میں شہری علاقے میں 2 لاکھ 44 ہزار اُور دیہی علاقوں میں 7 لاکھ 36 ہزار سے زیادہ لوگ رہتے ہیں اُور یہ ایک ٹاو¿ن اُور پینتیس یونین کونسلوں کا مجموعہ ہے۔ عجیب و غریب صورتحال یہ ہے کہ ایبٹ آباد شہر چاروں اَطراف میں پھیل رہا ہے۔ نئی بستیاں آباد ہو رہی ہیں اُور دیہی علاقوں سے شہری علاقوں کی جانب نقل مکانی کا رجحان اپنی جگہ موجود ہے۔ مزید مہاجرین کی آمد کا ایک منفی اثر یہ دیکھا گیا ہے کہ مکانوں کے کرائے بڑھ جاتے ہیں۔ مہاجر خاندان کسی ایک گھر کو مل بانٹ کر استعمال کرتے ہیں اُور یوں دو یا تین خاندان کرایہ تقسیم کر لیتے ہیں جبکہ مقامی افراد کی اکثریت ایک گھر یا گھر کے ایک حصے (پورشن) میں رہتی ہے۔
مہاجرین کی آمد کے ساتھ کرائے کے مکانات کی مانگ بڑھ گئی ہے جن سے متعلق اگرچہ قانون موجود ہے کہ کوئی بھی مالک مکان اپنے ہاں ٹھہرنے والے کرایہ داروں کے کوائف سے متعلقہ تھانے کو مطلع کرتا ہے لیکن ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں ایک سے زیادہ خاندانوں کے بارے میں تھانے کو آگاہ نہیں کیا جاتا اُور یوں بنا کوائف معلوم ہوئے مہاجرین کی ایک بڑی تعداد شہری علاقوں میں روپوش رہتی ہے‘ جن کی کھوج کا عمل اگرچہ جاری رہتا ہے لیکن یہ ایک مستقل خطرہ ہے۔
طالبان کے اَفغان دارالحکومت میں داخل ہونے (پندرہ اگست دوہزاراکیس) سے پہلے پاکستان کی جانب افغانوں کے سفر کا سلسلہ جاری تھا جس میں وقت کے ساتھ اضافہ ہوا تاہم طالبان نے طورخم اُور چمن پر جمع پہلے سے موجود ہزاروں خاندانوں میں مزید اضافہ نہیں ہونے دیا۔ افغانستان سے آمدہ اطلاعات کے مطابق طالبان پاکستان اُور ایران کی جانب صرف اُنہی افراد کو سفر کی اجازت دیتے ہیں‘ جن کے پاس سفری دستاویزات (پاسپورٹ اُور ویزا) ہوں چونکہ افغانستان میں پاکستانی سفارتخانے فعال ہیں جہاں سے علاج معالجے یا تجارت جیسے مقاصد کے لئے زیادہ ویزے جاری کئے جاتے ہیں‘ اِس لئے افغان بطور مہمان داخل ہوتے ہیں‘ جس کے بعد وہ اپنی حیثیت مہاجرت میں تبدیل کر لیتے ہیں۔
عالمی قوانین کے مطابق ایسے افراد کی سہولت کاری کے لئے اقوام متحدہ کا ذیلی ادارہ یو این ایچ سی کے دفاتر اُور گشتی مراکز موجود ہیں‘ جہاں افغانوں سے بات چیت کر کے اُور اُن کی بیان کردہ مجبوری یا درپیش خطرے سے متعلق مو¿قف کو درست تسلیم ہونے کی صورت مہاجر ہونے کی سند (رجسٹریشن کارڈ) جاری کیا جاتا ہے لیکن یہاں مسئلہ یہ ہے کہ ایران کی طرح مہاجرین کے لئے خیمہ بستیوں تک محدود رہنے کی پابندی نہیں اُور وہ رجسٹرڈ ہونے کے بعد پاکستان کے کسی بھی حصے میں بودوباش اختیار کر سکتے ہیں۔ پاکستان کی داخلی سیکورٹی (امن و امان کی صورتحال) کو درپیش مسائل و مشکلات کو مدنظر رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ مہاجرین کی نقل و حرکت پر نظر رکھی جائے اُور مزید افغان مہاجرین کی آمد کے جاری سلسلے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومتی ادارے مربوط حکمت عملی تشکیل دیں کیونکہ خطرہ بڑا ہے اُور انسانی ہمدردی کی آڑ میں ملک دشمن عناصر یا جرائم پیشہ گروہوں کے پاکستان میں داخل ہونا خارج از امکان نہیں ہے۔
....
No comments:
Post a Comment