Sunday, October 3, 2021

Peshawar Shanasi: Agricultural profile

 پشاور شناسی

....تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

جنوب ایشیا کے قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ہونے کا اعزاز رکھنے والے ’پشاور‘ کی معلوم تاریخ سے متعلق 2 حوالے قابل ذکر ہیں۔ پہلے حوالے میں پشاور کا وجود آج سے کم و بیش 1483 برس پہلے سے ثابت ہے جبکہ تاریخ کا دوسرے حوالہ پیش کرتے ہوئے آثار قدیمہ و ارضیات کے ماہرین و تحقیق کار دعویٰ کرتے ہیں کہ پشاور کی پہلی اینٹ کب رکھی گئی یہ تو معلوم نہیں لیکن یہ شہر آج سے ڈھائی ہزار سال قبل یا اُس سے بھی پہلے موجود تھا اُور اِس دعوے کے ثبوت میں کھدائیوں سے برآمد ہونے والے آثار و نوادرات‘ سکے‘ برتن اُور تعمیراتی نمونے پیش کئے جاتے ہیں‘ جنہیں ایک الگ اُور خصوصی عجائب گھر (سٹی میوزیم) میں نمائش کے لئے رکھا گیا ہے۔ پشاور کے قائم و دائم پہلوؤں کو اُجاگر کرنے کے لئے ’سٹی میوزیم‘ بنانے کی حکمت عملی کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ یہاں کی تاریخ کے منفرد پہلوؤں اُور اِس زندہ تاریخی شہر میں پائے جانے والے زندہ آثار قدیمہ کو محفوظ و بحال کیا جائے اُور اِن سے سیاحتی وسائل کی صورت استفادہ کیا جائے تاکہ دنیا بھر سے سیاح پشاور کی تاریخی حیثیت اُور یہاں رواں دواں طویل و مسلسل زندگی کا قریب سے مشاہدہ کرنے آئیں لیکن مختلف وجوہات (امن و امان کی غیریقینی پر مبنی صورتحال‘ کورونا کی عالمی وبا اُور سیاحتی ترقی کے لئے مختص مالی وسائل کی کمی) جیسے محرکات کے سبب اِس حکمت ِعملی کو ’اچھے دنوں‘ کی اُمید میں مو¿خر کر دیا گیا ہے تاہم صورتحال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ پشاور کا مخصوص طرز ِتعمیر جو مکانات کی صورت موجود ہے‘ اِس میں تیزی سے کمی آ رہی ہے اُور اگرچہ صوبائی محکمہ¿ آثار قدیمہ نے ایسے سینکڑوں مکانات کی فہرستیں مرتب کر رکھی ہیں جنہیں ’قدیمی (آثار قدیمہ)‘ قرار دیا گیا ہے اُور اُنہیں منہدم یا تعمیرومرمت کے ذریعے اُن کے فن تعمیر سے چھیڑچھاڑ کی ممانعت ہے لیکن بازار کلاں‘ محلہ قاضی خیلاں‘ گنج‘ کریم پورہ‘ اندر شہر‘ ڈھگی دالگراں‘ رامپورہ گیٹ اُور اِس سے ملحقہ گلی کوچوں میں نہ صرف مکانات منہدم کرکے ازسرنو تعمیر ہوئے ہیں بلکہ کئی ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں محفوظ قرار دی گئی فصیل شہر کو منہدم کر کے یا نقصان پہنچانے کی صورت قوانین و قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزی کی گئی۔ چند ایک ایسی مثالیں بھی موجود ہیں جن میں محکمۂ آثار قدیمہ کے فیصلہ سازوں نے پشاور کے اِن ناقابل تلافی نقصانات پر مگرمچھ کے آنسو بہائے اُور کاغذی کاروائیوں کے طور پر محفوظ آثار کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف متعلقہ تھانہ جات میں مقدمات (ایف آئی آر) درج کروانے کے لئے درخواستیں دیں لیکن کوئی ایک بھی ایسی مثال موجود نہیں جس میں ملزمان کو مجرم بناتے ہوئے آثار قدیمہ کے قوانین کے تحت ایسی سخت سزائیں دی گئی ہوں جو دوسروں کے لئے نشان ِعبرت ٹھہریں۔ مقدمہ (ایف آئی آر) درج کروانے کی حد تک نمائشی کارکردگی کا پشاور کو کوئی فائدہ نہیں ہوا البتہ محکمۂ آثار قدیمہ کے چند ملازمین کی مالی حالت ضرور تبدیل ہوئی اُور برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آثار قدیمہ کے اہلکاروں کی مٹھی گرم رکھے تو اُسے حاصل من چاہی آزادی پر قانون شکنی کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2020ءمیں جاری کردہ 180 بدعنوان ممالک کی فہرست میں پاکستان 124ویں نمبر پر فائز ہے۔ بدعنوان کی چھاپ اِس لحاظ سے بھی قابل مذمت ہے کہ اسلامی ملک کے بارے عالمی رائے ایسے نظریاتی ملک کا حوالہ بن چکی ہے‘ جہاں کی اکثریتی آبادی مسلمان ہے! باعث ِشرمندگی ہے کہ عالمی بدعنوان ممالک میں پاکستان کی درجہ بندی بھارت سے بھی زیادہ گئی گزری (خراب) ہے جو بدعنوان ممالک کی مذکورہ فہرست میں 40ویں درجے پر ہے۔ بدعنوانی کی اِس چھاپ سے چھٹکارہ سرکاری ملازمین کی مالی حالت اُور اِن کی کارکردگی کا احتساب کئے بغیر ممکن نہیں۔ پشاور اگر ایک‘ ایک کر کے اپنی خوبیوں (فن ِتعمیر کے شاہکاروں) کو کھو رہا ہے تو اِس کا نوٹس لیتے ہوئے محکمہ¿ آثار قدیمہ کے اُن اہلکاروں کا احتساب ہونا چاہئے‘ جنہوں نے اپنے صوابدیدی اُور غیرصوابدیدی اختیارات ”برائے فروخت“ پیش کر رکھے ہیں۔

سرکاری دستاویزات کے مطابق ’دوہزارپندرہ مربع کلومیٹر‘ رقبے پر پھیلے پشاور کا شہری علاقہ ’دوسو پندرہ مربع کلومیٹر‘ وسیع ہے یعنی ضلع پشاور کی اکثریتی آبادی دیہی علاقوں پر مشتمل ہے‘ جہاں کے رہنے والوں کی معیشت و معاشرت کھیتی باڑی (زراعت) سے وابستہ ہے اُور وادئ پشاور کی یہ خوبی (خصوصیت) شاید بہت ہی کم قارئین کو معلوم ہو کہ .... پشاور ایسی ”زرخیز و شاداب اُور نایاب وادی“ کا نام بھی ہے جہاں مختلف موسموں کے پھل سبزی اُور اجناس بیک وقت اُگائے جاتے ہیں اُور صرف یہی نہیں بلکہ اِن کا معیار‘ لذت اُور غذائی خصوصیات بھی بہترین (مثالی) ہوتی ہیں لیکن پشاور پر موسم کی عنایات‘ یہاں کی زرخیزی اُور زود ہضم پانی جیسی نعمت کی خاطرخواہ قدر (احساس) دیکھنے میں نہیں آتا۔ آثار قدیمہ کی صورت صدیوں پر پھیلی تاریخ ہو یا زرخیزی و شادابی کی صورت قدرت کی عنایات‘ پشاور مقام ِشکر ہے جسے ناشکری سے بدل دیا گیا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ہریانہ‘ ناساپہ‘ شکرپورہ اُور دامان ِافغانی نامی (بیشتر ٹاؤن ٹو کے) دیہات سے تعلق رکھنے والے کاشتکار اُور زمیندار اِن دنوں سراپا احتجاج ہیں کیونکہ مبینہ طور پر پشاور کے مضافاتی علاقوں میں باغات اُور کھیتوں کو حسب سابق پانی نہیں مل رہا جس کی وجہ سے پشاور کے دیہی سرسبز و شاداب علاقے بنجر میدانوں (barren plains) میں تبدیل ہو رہے ہیں! 

کاشتکاروں اُور زمینداروں کے اِس احتجاج کو ذہن میں رکھتے ہوئے اِس باریک نکتے پر غور کی ضرورت ہے کہ پشاور اگر صدیوں سے آباد ہے تو اِس کی بنیادی وجہ کیا ہے جبکہ اِس عمر کے دیگر شہر کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں؟ توجہ طلب ہے پشاور کی حیات اُور یہاں کی رونقوں کا بنیادی محرک سارا سال دستیاب رہنے والا پانی ہے جو پشاور کے وسائل پر آبادی کے بوجھ‘ ناقص و غلط منصوبہ بندی کے باعث کم ہو رہا ہے۔ حالیہ مردم شماری (دوہزارسترہ) کے نتائج بارے ملک کے سبھی بڑے شہروں میں احتجاج کیا گیا لیکن پشاور جو کہ پاکستان کا چھٹا بڑا شہر ہے اِس سے متعلق خانہ و مردم شماری کے نتائج کو من و عن تسلیم کر لیا گیا لیکن پشاور کے مسائل اُس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک یہاں کی آبادی سے متعلق اعدادوشمار کو درست نہیں کیا جاتا اُور اِس سلسلے میں صوبائی اُور ضلعی حکومت کو متعلقہ وفاقی ادارۂ شماریات پر انحصار کرنے کی بجائے اپنے افرادی و تکنیکی وسائل سے پشاور کی کل 92 یونین میں خانہ و مردم شماری کا عمل شروع کرنا چاہئے تاکہ ہر علاقے کی اپنی ضروریات و مسائل کے حل بارے غوروخوض اُور منصوبہ بندی ممکن ہو سکے۔ ایک لاٹھی سے سب کو ہانکا نہیں جا سکتا اُور بنا درست اعدادوشمار اندھی ترقی (ہوا میں تیر چلانے) سے بھی خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہوں گے کیونکہ سائنسی علوم سے فطرت کا یہ اصول ثابت ہے کہ کسی عمل کو بار بار‘ ہزار بار اُور لاکھوں بار بھی غلط طریقے سے سرانجام دینے سے ایک ہی نتیجہ بصورت ناکامی (failure) نکلتا ہے تو پشاور کے مسائل کو اِس زاویئے سے کیوں نہیں دیکھا جاتا؟ آج پشاور ایک وسیع و عریض تجربہ گاہ کا نام ہے‘ جہاں غلطیوں کو غلطیوں سے درست کرنے کی پے در پے کوششوں میں اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود بھی مسائل پہلے سے زیادہ شدید بلکہ بحرانی شکل اختیار کر گئے ہیں۔

 ”مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں .... تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا (میر تقی میر)۔“

....




No comments:

Post a Comment