ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
اہلیت و قابلیت اُور سیاست
پہلا نکتہ: طب کی تعلیم حاصل کرنے کے خواہشمند طلبا و طالبات کی علمی قابلیت اُور ذہنی اہلیت جانچنے کے ایک سے زیادہ معیار مقرر ہیں اُور اِن دونوں معیارات کی کسوٹی پر پورا اُترنے والوں کو ہی ’ایم بی بی ایس‘ یا ’بی ڈی ایس‘ میں داخلہ دیا جاتا ہے۔ طلبہ کی اہلیت جانچنے کا ایک معیار‘ ایک پیمانہ اُور ایک امتحان کیوں کافی نہیں ہو سکتا؟
دوسرا نکتہ: ’میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ کے نام سے طلبہ کی اہلیت جانچنے کے لئے خصوصی امتحان میں کامیابی کے لئے 65 فیصد نمبر حاصل کرنا لازمی ہے جبکہ اِس سے قبل (گزشتہ برس) یہ معیار 60 فیصد مقرر تھا۔ کامیابی کے لئے اِس قدر بلند شرح سے نمبرات حاصل کرنا کیوں لازم ہے اُور یہ معیار پچاس فیصد یا اِس سے کم کیوں مقرر نہیں ہونا چاہئے؟
تیسرا نکتہ: طب کی تعلیم حاصل کرنے کے کسی خواہشمند طالب علم کے لئے ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کامیاب ہونا لازم ہے اگر کوئی طالب علم ’ایم ڈی کیٹ‘ میں کامیاب نہ ہو سکے تو اُسے نہ تو اپنے امتحانی پرچہ جات کی جانچ پڑتال (rechecking) کا موقع دیا جاتا ہے اُور نہ ہی وہ اپنا ایک تعلیمی سال ضائع کئے بغیر ’ایم ڈی کیٹ‘ امتحان دوبارہ دے سکتا ہے۔ کیا وجہ ہے کہ ایم ڈی کیٹ کے پرچہ جات طلبہ کی تسلی و تشفی کے لئے نہیں دکھائے جاتے اُور اُنہیں اپنے نمبر بہتر بنانے کا فوری موقع (سپلمنٹری ایگزیم) بھی نہیں دیا جاتا؟
چوتھا نکتہ: ’ایم ڈی کیٹ‘ نامی امتحان کے لئے سوالنامہ قومی سطح پر تیار کیا جاتا ہے اُور اِس مقصد کے لئے پورے ملک میں ’ایف ایس سی (بارہویں کلاس)‘ کی سطح پر پڑھائے جانے والے مضامین (نصابی کتب) سے سوالنامہ تیار کیا جاتا ہے۔ اِس امتحانی حکمت ِعملی کی وجہ سے اکثر طلبہ ’آو¿ٹ آف کورس‘ یعنی وہ اپنے زیرمطالعہ رہے نصاب ِتعلیم سے ہٹ کر داغے گئے سوالات کی شکایت کرتے ہیں۔ آخر ایسا کیوں ممکن نہیں کہ ہر صوبے اُور ہر امتحانی بورڈ کے طلبہ کے لئے اُن کے ہاں پڑھائے جانے والے نصاب سے ’ایم ڈی کیٹ‘ کا سوالنامہ تیار کیا جائے؟
پانچواں نکتہ: ’ایم ڈی کیٹ‘ میں 65فیصد سے کم نمبر حاصل کرنے والوں کو ناکام (fail) قرار دے دیا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں یہی”فیل“ قرار دیئے جانے والے طلبہ کی بڑی تعداد بیرون ملک تعلیمی اداروں کا رخ کرتی ہے جہاں اُنہیں داخلہ حاصل کرنے کے لئے نہ صرف اہل سمجھا جاتا ہے بلکہ اُنہیں خصوصی تعلیمی وظائف (سکالرشپس) بھی دیئے جاتے ہیں اُور تعلیمی مراحل امتیازی حیثیت سے مکمل کرتے ہیں۔ اِس سے معلوم ہوا کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کی اہمیت اُور ضرورت صرف پاکستان کی حد تک ہے اُور اِس سے کسی طالب علم کی تعلیمی قابلیت یا ذہنی اہلیت اُور رجحانات کا اندازہ لگانا درست نہیں اُور اصلاح طلب ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ امتحانی نظام پر نظرثانی کی جائے۔
چھٹا نکتہ: بیرون ملک طب کی تعلیم حاصل کرنے والے پاکستانی طلبہ کے ساتھ نہ صرف ذہانت بلکہ خطیر اُور قیمتی زرمبادلہ بھی جاتا ہے جبکہ پاکستان میں طب کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں حسب طلب و ضرورت نشستوں کی تعداد میں اضافہ مطالبات کے باوجود بھی نہیں کیا جا رہا۔ ہر سال پہلے سے زیادہ طلبہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کا امتحان دیتے ہیں اُور ہر سال ہی پہلے سے زیادہ طلبہ کو داخلہ نہ ملنے کی صورت مایوسی ہوتی ہے تو آخر کیا وجہ ہے کہ اہلیت و ذہانت ہونے کے باوجود بھی طب کی تعلیم کے مواقعوں میں اضافہ نہیں کیا جا رہا تو (خاکم بدہن) کہیں ایسا تو نہیں کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ ہر سال کروڑوں روپے کمانے کا ذریعہ بنا دیا گیا ہو؟
ساتواں نکتہ: پاکستان میں طب کی تعلیم میں یکساں اہم کردار نجی تعلیمی اداروں کا ہے‘ جنہوں نے اِس شعبے میں مالی وسائل سے سرمایہ کاری کے علاو¿ہ ذہین ترین اُور قابل اساتذہ کی خدمات حاصل کر رکھی ہیں تاکہ نجی کالجوں کے درمیان پائے جانے والے مقابلے کے ماحول میں اُنہیں فوقیت (داخلہ لیتے وقت دوسروں پر ترجیح) دی جائے لیکن حکومت کی جانب سے نہ تو نجی اداروں کی سرمایہ کاری کو تحفظ حاصل ہے‘ نہ اِنہیں بلاسود قرضہ جات دیئے جاتے ہیں تاکہ یہ مالی بحران سے نکلنے اُور اپنی خدمات کے معیار کو بلند کرنے میں مزید سرمایہ کاری کریں۔ کورونا وبا نے طب کے سبھی نجی اداروں کو مشکلات سے دوچار کر رکھا ہے‘ جن کی مدد بارے حکومت نے دو سال سے تاحال کوئی پالیسی نہیں دی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ حکومت طب کے نجی تعلیمی اداروں کی خدمات کا اعتراف تو کرتی ہے لیکن اِن کی سرپرستی نہیں کی جاتی؟
آٹھواں نکتہ: طب (میڈیکل و ڈینٹل) کے نجی تعلیمی اداروں کو جامعات کا درجہ دینے اُور اُن کے ہاں نشستوں کی تعداد (زیرتعلیم طلبہ کی گنجائش) بڑھانے میں بھی متعلقہ منتظم حکومتی ادارہ (پاکستان میڈیکل کمیشن) اُور سیاسی و غیرسیاسی فیصلہ ساز دلچسپی نہیں لے رہے۔ تعلیم کے شعبے میں مقامی و بیرونی سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھنے والوں کے لئے خصوصی حکمت ِعملی وضع کیوں نہیں کی جاتی؟
نواں نکتہ: اٹھارہویں آئینی ترمیم (سال 2010ئ) سے لاگو ہے جس کا بنیادی نکتہ صوبائی خودمختاری کی صورت فیصلہ سازی میں وفاق کے بوجھ کو کم کرنا ہے لیکن طب کی تعلیم کے منتظم ادارے (پاکستان میڈیکل کمیشن) کو وفاقی حکومت نے اپنے پاس رکھا ہوا ہے اُور اِس کی جملہ فیصلہ سازی سمیت اِس ادارے کے نگرانوں کا انتخاب بھی منظور نظر (من پسند) افراد سے کیا جاتا ہے‘ جن میں اکثریت کا طب کی تعلیم یا اِس شعبے سے دور دور کا واسطہ (تعلق) نہیں ہوتا اُور جب یہ غیرمتعلقہ لوگ فیصلہ سازی کرتے ہیں تو اِن کے فیصلے اُور اقدامات نہ صرف زیرتعلیم اُور تعلیم حاصل کرنے کے خواہمشندوں بلکہ طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے جملہ پیشہ ور افراد کے لئے بھی پریشانی اُور مشکلات کا باعث ہوتے ہیں۔ آخر اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت صوبوں کو طب کی تعلیم سے متعلق فیصلے کرنے کا اختیار کیوں نہیں دیا جاتا جیسا کہ دیگر درجات میں تعلیم کے لئے اِنہیں اختیار حاصل ہے؟
دسواں نکتہ: طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کی تعلیم اندرون یا بیرون ملک حاصل کرنے والوں کو مساوی تصدیق نامے (رجسٹریشن) جاری کی جاتی ہے جبکہ دونوں قسم کے تعلیمی بندوبست میں علمی و عملی نصاب کے درمیان زمین آسمان کا فرق ہے۔ بیرون ملک کا کوئی بھی تعلیمی ادارہ پاکستان سے پوچھ کر یا پاکستان کی منظوری سے نصاب تعلیم نہ تو مرتب کرتا ہے اُور نہ ہی ایسا نصاب تعلیم لاگو کرتا ہے‘ جو پاکستان میں بھی پڑھایا جا رہا ہو۔ کیا وجہ ہے کہ الگ الگ نظام تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے والوں کو بعدازاں ایک ہی ترازو میں تولا جاتا ہے؟
گیارہواں نکتہ: طب کے تعلیمی بندوبست کے حوالے سے جملہ فریقین (طلبا و طالبات‘ اِن کے والدین و اساتذہ‘ نجی تعلیمی اداروں اُور طب کے تعلیمی امور بارے ماہرین) کا ’پاکستان میڈیکل کمیشن‘ کی کارکردگی اُور فیصلہ سازی کے بارے تحفظات اُور شکایات ہیں تو آخر کیا وجہ ہے کہ اِن سبھی فریقین کی رائے (اجتماعی دانش) کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دی جا رہی؟ ”سمجھنے ہی نہیں دیتی سیاست ہم کو سچائی .... کبھی چہرہ نہیں ملتا‘ کبھی درپن نہیں ملتا۔ (شاعر نامعلوم)۔“
بارہواں نکتہ: سیاست کے لغوی سمجھنے اُور سمجھانے کی ضرورت ہے کہ یہ ایک ایسا طرزفکروعمل کا مجموعہ ہے کہ جس سے وابستہ کردار اختلافات ختم کرنے کے لئے اپنی صلاحیتوں اُور ریاستی و غیرریاستی وسائل بروئے کار لاتے ہیں لیکن پاکستان کی سیاست میں ”کامیابی کا معیار“ اختلافات کم یا ختم کرنے کی بجائے اِن کی شدت میں اضافے سے منسوب ہے۔ کیا یہ طرز ِسیاست تبدیل نہیں ہونا چاہئے؟ ”سیاست کے چہرے پہ رونق نہیں .... یہ عورت ہمیشہ کی بیمار ہے (شکیل جمالی)۔“
....
![]() |
Editorial Page Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated October 03, 2021 Sunday |
No comments:
Post a Comment