Monday, October 18, 2021

On the looting of Peshawar resources!

 پشاور شناسی

....برس رہی ہے اُداسی تمام آنگن میں

شہری سہولیات کی فراہمی اُور پشاور کے وسائل و مفادات کے نگران (منتظم) اداروں میں ضلعی حکومت اُور ذیلی چار ٹاؤنز کی انفرادی و اجتماعی کارکردگی کا معیار بہتر بنانے کی ضرورت عرصے سے محسوس کی جا رہی ہے اُور عملاً ہوتا یہ ہے کہ ہر چند برس بعد کوئی نیا بلدیاتی نظام متعارف کروا دیا جاتا ہے‘ جو ماضی پر مٹی ڈالنے اُور ایک نئے دن کی تلاش میں آگے بڑھنے کی اُمید دلاتا ہے اُور بس۔

اندرون شہر کی کہانی یہ ہے کہ ’ٹاؤن ون‘ کی زیرنگرانی یہاں مسائل پیدا ہونے اُور اِن کے حل ہونے کی رفتار میں فرق ہے‘ جس کا بنیادی نکتہ ’ردعمل کے وقت (reaction time)‘ ہے کہ ایک طرف وہ ہستیاں ہیں جو پشاور کی ہر خوبی پر اپنا پیدائشی حق سمجھتی ہیں اُور دوسری طرف وہ فیصلہ ساز ہیں جو اپنے صوابدیدی اُور غیرصوابدیدی اختیارات اُور مراعات کا تعین خود کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک معاملہ ’ٹاؤن ون‘ کے مالی وسائل سے گاڑیوں کے لئے خریدا جانے والا ایندھن (پیٹرول‘ ڈیزل اُور سی اِین جی) کے حوالے سے سامنے آیا ہے‘ جس میں مذکورہ سرکاری ایندھن حاصل کرنے کا استحقاق نہ رکھنے والوں کی نشاندہی ہوئی ہے جو سال ہا سال سے قواعد و ضوابط کے خلاف مراعات حاصل کر رہے ہیں اُور اب تک صرف ایندھن کی مد میں کروڑوں روپے کی بے قاعدگیاں کی گئی ہیں لیکن (خاکم بدہن) ٹاؤن ون یعنی پشاور شہر کے وسائل سے غیرقانونی ایندھن حاصل کرنے والوں کے خلاف نہ تو محکمانہ کاروائی عمل میں لائی گئی اُور نہ ہی اِس معاملے کا صوبائی حکومت‘ نیشنل اکاونٹی بیلٹی (نیب) یا کسی عدالت نے ازخود نوٹس لیا کیونکہ یہاں بدعنوانی مالی و سیاسی بااثر اُور مراعات یافتہ طبقے سے متعلق ہے لیکن جو ایک بات پورے وثوق سے کہی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اگر یہی بدعنوانی (گستاخی) کسی عام شہری سے سرزد ہوئی ہوتی تو حکام کے رویاروی فیصلے اُور بے رحم ردعمل قطعی مختلف دیکھنے میں آتا اُور اب تک اُس کی کھال کھینچ کر وصولی کی جا چکی ہوتی جبکہ ہر سطح پر حکومتی ترجمان ’بلاامتیاز کڑے احتساب‘ کے نعرے لگا رہے ہوتے!

کیا پشاور اِس قدر بے وقعت اُور بے قیادت ہو چکا ہے کہ اِس کی حیثیت ”مال ِمفت دل ِبے رحم“ جیسی ہے؟ 

لائق توجہ امر یہ ہے کہ اگر سرکاری محکمے صادق و امین نہیں تو اِس کی بنیادی وجہ ’سزاو جزا‘ کے مبہم تصورات‘ کارکردگی کے احتساب سے متعلق قواعد اُور اِن قواعد و قوانین پر مصلحت شناس عمل درآمد ہے جس سے عجیب و غریب صورتحال پیدا ہوئی ہے کہ بارہا غلطی تسلیم کرنے کے باوجود بھی بار بار درگزر سے کام لیا جاتا ہے جبکہ اِس طرح معافی سے تلافی نہیں ہوتی اُور پشاور کے وسائل کو پہنچنے والا نقصان (خسارہ) کسی نئی شکل و صورت میں جاری رہتا ہے۔ ”دیتا رہا فریب مسلسل کوئی مگر .... امکان ِالتفات سے ہم کھیلتے رہے (شوکت پردیسی)۔“

تفصیلات کے مطابق ’ٹاؤن ون‘ کے وسائل سے 22 نجی گاڑیوں کے لئے فراہم کیا جانے والا پیٹرول‘ ڈیزل اُور سی این جی پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جبکہ منتظم (ایڈمنسٹریٹر) نے نجی گاڑیوں اُور غیرحقدار ملازمین کے پیٹرول لینے کا سخت نوٹس لیتے ہوئے گریڈ 17 سے کم درجے کے ملازمین کے لئے ’مفت پیٹرول‘ کی سہولت ختم کر دی ہے‘ جو عرصہ 10 سال سے زائد جاری رہی اُور محتاط اندازے کے مطابق اِس عرصے میں قریب ڈھائی کروڑ روپے کا نقصان ہوا ہے۔ ٹاو¿ن ون کے وہ ملازمین کس طرح ایندھن حاصل کرتے رہے جبکہ وہ اِس کے حقدار نہیں تھے؟ اِس معمے کو سمجھنے کے لئے ملازمین کے درجہ بہ درجہ قائم بھائی چارے (یونین) کو دیکھنا ہوگا جس کے باعث پشاور اُور ٹاو¿ن ون کا مفاد پس پشت ڈال دیا گیا ہے۔ اندازہ ہے کہ غیرحقدار ملازمین کو ایندھن کی فراہمی روکنے سے ٹاو¿ن ون کو سالانہ 2 لاکھ روپے کی بچت ہوگی! گرامی قدر ایڈمنسٹریٹر صاحب اگر اِس معاملے کی گہرائی سے تحقیق کرتے اُور ٹاؤن ون آٹو ورکشاپ سے مرمت ہونے والی نجی گاڑیوں کی مرمت و فراہم کردہ پرزہ جات کی تفصیلات بھی طلب کرتے تو مزید لاکھوں روپے کی بچت ممکن ہوتی۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ ہر ماہ اِنہی فیصلہ سازوں کے دستخطوں سے حاصل کردہ پیٹرول کی ادائیگیاں ہوتی رہی ہیں اُور ’گھر کے بھیدی‘ کے بقول صرف ٹاؤن ون ملازمین ہی نہیں بلکہ اعلیٰ عہدوں پر فائز شخصیات کے اہل خانہ اُور دوست احباب کی گاڑیوں میں بھی سرکاری ایندھن ڈالا جا رہا ہے جبکہ بیرون شہر سیروسیاحتی دوروں کے لئے بھی ایندھن ٹاؤن ون اکاؤنٹ ہی سے حاصل کیا جاتا رہا ہے۔ 

شاعر فاروق انجنیئر نے کہا تھا کہ ”برس رہی ہے اُداسی تمام آنگن میں .... وہ رُت جگوں کی حویلی بڑے عذاب میں ہے۔“

قومی وسائل سے حاصل ہونے والے ایندھن کا غلط استعمال اُور غیرحقدار ملازمین یا عزیزواقارب کا سرکاری وسائل سے استفادہ جیسی واردات صرف ’ٹاو¿ن ون‘ میں رونما نہیں ہوئی بلکہ کم و بیش سبھی صوبائی و ضلعی سرکاری محکموں کا حال ایک جیسا ہے جہاں سرکاری وسائل کو ذاتی استعمال کے لئے مختص سمجھنے والے جس ایک حمام میں ننگے ہیں اگر اُس کلب کی سرگرمیوں کو کریدا جائے تو ایندھن کا غیرقانونی استعمال نہایت ہی معمولی جرم کے طور پر سامنے آئے گا لیکن چونکہ یہاں مرحلہ¿ فکر پشاور اُور بالخصوص پشاور شہر کے وسائل کی بابت بحث ہے اِس لئے صرف ’ٹاؤن ون‘ کا تذکرہ کیا جا رہا ہے جس کی مرتب کردہ ایک دستاویز کے مطابق ’ٹی ایم اُو کو 250 لیٹر‘ ٹاو¿ن آفیسر آئی اینڈ ایس کو 200لیٹر‘ ٹاو¿ن آفیسر فنانس کو 200 لیٹر‘ ٹی اُو آر کو 200 لیٹر‘ ایڈمنسٹریٹر آفیسر کو 200 لیٹر‘ اے ٹی آر اُو 160 لیٹر ماہانہ ایندھن کے حقدار ہیں۔ قانون کے مطابق گریڈ سولہ سے کم ملازمتی درجے کے ملازمین مفت پیٹرول حاصل نہیں کر سکتے لیکن ایسا ہوتا رہا ہے اُور صرف ایندھن ہی نہیں بلکہ سرکاری گاڑیوں کا غیرسرکاری استعمال بھی 10 سال سے جاری رہا۔

کیا اہل پشاور یہ پوچھنے کا حق رکھتے ہیں کہ اِن کے وسائل سے غیرقانونی استفادہ کرنے والوں کو کس اختیار کے تحت معاف کیا گیا؟ اِن سے وصولی کیوں نہیں کی گئی اُور ایندھن کے علاؤہ سرکاری وسائل سے گاڑیوں کی مرمت‘ اُور اِن گاڑیوں کا نجی استعمال کرنے والوں کا احتساب کیوں نہیں ہونا چاہئے؟ دفتری اوقات کے دوران اُور اِن کے علاؤہ تعطیلات کے روز بھی سرکاری گاڑیاں یہاں وہاں حتیٰ کہ سیاحتی مقامات پر دیکھی جاتی ہیں تو کیا صوبائی حکومت ایندھن اُور سرکاری گاڑیوں کے منجملہ غلط استعمال کا نوٹس لے گی؟

 ”اُمید اُن سے وفا کی تو خیر کیا کیجئے .... جفا بھی کرتے نہیں وہ کبھی جفا کی طرح (آتش بہاولپوری)۔“

https://mashriqtv.pk/daily-mashriq/uploads/mashriqnp/18-10-2021/mas-18-10-2021-2.jpg



No comments:

Post a Comment