ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
اِبہام سے اِبہام تک
طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) کے سرکاری و نجی تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرنے کے لئے جس اضافی اہلیت کو لازمی قرار دیا گیا ہے اُسے ’نیشنل میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز ایڈمشن ٹیسٹ (MDCAT)‘ کہا جاتا ہے۔ اِس خصوصی امتحان میں حصہ لینا طب کی تعلیم حاصل کرنے کے ہر خواہشمند طالب عمل کے لئے ضروری ہوتا ہے۔ رواں برس (22-2021ء) کے لئے ایم ڈی کیٹ امتحان کا انعقاد پورے ملک میں 30 اگست سے 30 ستمبر کے درمیان روزانہ کی بنیاد پر ہوا لیکن اِس امتحانی طریقہ کار اُور اِس کے مراحل سے متعلق اعتراضات رکھنے والوں نے لاہور کی عدالت ِعالیہ (ہائی کورٹ) سے رجوع کر رکھا تھا جس کی وجہ سے ایک ایسی غیریقینی کی صورتحال درپیش تھی کہ داخلے کے خواہشمند اُور میڈیکل و ڈینٹل کالجز اپنی اپنی جگہ پریشان تھے اُور کسی کو بھی معلوم نہیں تھا کہ کیا ہونے والا ہے!
22 اکتوبر 2021ءکے روز لاہور ہائی کورٹ نے مذکورہ امتحانی مرحلے (ایم ڈی کیٹ) کے خلاف ایک سے زیادہ درخواستوں (پٹیشنز) کو خارج کر دیا۔ درخواست گزاروں نے ’پاکستان میڈیکل کمیشن ایکٹ 2020ئ‘ اُور ’پاکستان میڈیکل کمیشن کنڈکٹ آف ایگزیمنیشن ریگولیشنز 2021ئ‘ کی متعدد شقوں کا حوالہ دیا تھا جن کی مبینہ طور پر ایم ڈی کیٹ امتحان میں خلاف ورزی کی گئی‘ اِس لئے عدالت نے ایم ڈی کیٹ امتحان کو کالعدم قرار دے لیکن ’لاہور ہائی کورٹ‘ نے درخواست گزاروں کے مؤقف سے اتفاق نہیں کیا اُور اب صورتحال واضح ہو چکی ہے کہ ’ایم ڈی کیٹ‘ کے نتائج جہاں اُور جیسے تھے اُنہیں درست تسلیم کر لیا گیا ہے اُور اِس کے بعد اگلا مرحلہ یعنی میڈیکل و ڈینٹل کالجوں میں داخلے شروع ہوں گے جس کے لئے پاکستان میڈیکل کمیشن نے پہلی مرتبہ صوبوں کو خودمختار بنایا ہے کہ اگر وہ میڈیکل و ڈینٹل کے نئے تعلیمی سال میں داخلوں کے لئے اپنے ہاں قواعد و ضوابط بنانا چاہیں تو ایسا کر سکتے ہیں۔
پاکستان میڈیکل کمیشن کے سربراہ (صدر) ڈاکٹر ارشد تقی نے بائیس اکتوبر ہی کے روز صوبائی حکومتوں کو اپنے ہاں نجی میڈیکل کالجوں سے متعلق قواعد سازی کا اختیار دیا تاہم اُنہوں نے یہ بات بھی واضح کی کہ اِس اختیار میں اہلیت (میرٹ) پر سمجھوتا تسلیم نہیں کیا جائے گا لیکن یہاں مسئلہ (درپیش مرحلہ) یہ ہے کہ امتحانی بورڈز کی جانب سے زیادہ نمبرات اُور ایم ڈی کیٹ میں بھی زیادہ نمبر حاصل کر کے کامیاب طالب علموں کی اکثریت سرکاری و نجی میڈیکل کالجوں میں داخلے کے لئے درخواست گزار ہے لیکن تعلیمی اداروں میں نشستیں محدود ہیں جیسا کہ سندھ میں ساڑھے سات سے آٹھ ہزار طلبہ کامیاب ہوئے لیکن وہاں کی میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں نشستوں کی کل تعداد تین ہزار ہے اُور اِسی قسم کی زیادہ سنگین صورتحال خیبرپختونخوا میں بھی دیکھنے کو مل رہی ہے کہ یہاں بھی سرکاری میڈیکل و ڈینٹل میں داخلے خواہشمندوں اُور اہلیت رکھنے والوں کی تعداد مجموعی نشستوں 1620 سے درخواست گزاروں کی تعداد ہزاروں گنا زیادہ ہے۔ خیبرپختونخوا میں سولہ نجی جبکہ 14 سرکاری میڈیکل کالجز ہیں جن نشستوں کی کل تعداد 1486 ہے جو گزشتہ تعلیمی سال (2020-21ئ) کے مقابلے 104 نشستیں زیادہ ہیں۔ یہ اضافہ پاکستان میڈیکل کمیشن نے فروری 2021ءمیں کیا تھا جبکہ اِس موقع پر قبائلی (پسماندہ) اضلاع سے تعلق رکھنے والوں کے لئے مختص نشستوں کی تعداد دگنی (136) کر دی گئی تھی۔ خیبرپختونخوا کے میڈیکل کالجوں کے 10 میڈیکل اُور 4 ڈینٹل کالجوں میں کل 1382 نشستیں ہیں جن میں سے 922 اوپن میرٹ‘ 136 قبائلی اضلاع‘ 130 جنرل سلیف فنانس‘ 43 غیرملکی سلیف فنانس‘ 29 بلوچستان کے قبائلی علاقوں‘ 34 آزاد جموں و کشمیر‘ 12 افغان شہریت رکھنے والوں‘ 6 معذور افراد‘ 4 مقبوضہ کشمیر اُور دیگر پسماندہ اضلاع جیسا کہ چترال‘ بونیر‘ ٹانک‘ دیر‘ شانگلہ وغیرہ سے تعلق رکھنے والے طلبہ کے لئے مختص ہیں۔
بنیادی بات یہ ہے کہ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی 460 نشستیں مختلف حوالوں سے مختص ہیں اُور یہ تعداد چار یا پانچ میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کے مساوی بنتی ہیں۔ اصولاً نشستوں کی تعداد میں حسب آبادی اضافہ ہونا چاہئے کیونکہ ایک ایسی صورت میں جبکہ طلبہ کی اکثریت اپنے خرچ پر یعنی سالانہ پندرہ لاکھ روپے فیس بھی ادا کرنے کے لئے تیار ہے لیکن اُنہیں پاکستان میں داخلہ نہیں ملتا اُور وہ مجبوراً بیرون ملک داخلہ لیتے ہیں جس کی وجہ سے نہ صرف بیش قیمت ذہانت بلکہ زرمبادلہ بھی بیرون ملک منتقل ہوتا ہے۔ طب کی تعلیم سے متعلق بندوبست جس قدر واضح بنانے کی کوشش کی جاتی ہے یہ اُسی قدر ابہام میں الجھ جاتا ہے۔
ابہام در ابہام کی یہ صورتحال غور و خوض کی متقاضی ہے کہ طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم اُور اِس سے متعلق بندوبست زیادہ وسیع (بڑے پیمانے) پر کیا جائے۔ دوسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ صوبوں کو خاطرخواہ خودمختاری نہیں دی جا رہی۔ پاکستان میڈیکل کمیشن نے صوبوں کو یہ اختیار دے رکھا ہے کہ وہ نئے تعلیمی سال (2022ئ) کے لئے نجی میڈیکل کالجوں کے داخلہ قواعد اپنے طور پر بھی وضع کر سکتے ہیں تو اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد صوبوں کو یہ اختیار کیوں نہیں دیا جاتا کہ وہ اپنے طور پر نجی و سرکاری میڈیکل کالجوں کے قیام کی بھی منظوری دے سکیں؟
....
No comments:
Post a Comment