Tuesday, October 26, 2021

Psychological health & journalism

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

صحافت: ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں ؟

پشاور کے ایوان ہائے صحافت (پریس کلب) سے وابستہ صحافیوں کے لئے وقتاً فوقتاً تربیتی نشستوں کے اہتمام میں حالیہ اضافہ اپنی نوعیت کا انتہائی منفرد و مختلف رہا جس کے شرکا کی پریشانیوں میں شاید یہ جان کر مزید اضافہ ہو گیا ہو گا کہ دہشت گردی کا ایک منفی اثر یہ بھی مرتب ہوا ہے کہ خیبرپختونخوا (بشمول پشاور) میں صحافی نفسیاتی عارضوں میں مبتلا ہیں لیکن اِس بارے خاطرخواہ خواندگی نہیں پائی جاتی اُور نہ ہی اِن نفسیاتی عارضوں کے معلوم ہونے پر بھی علاج معالجے کو ضروری سمجھا جاتا ہے۔

اِس بارے میں صورتحال کا سرسری جائزہ پیش کرتے ہوئے نفسیاتی علوم (سائیکالوجی) سے وابستہ محترمہ گلشن تارہ نے کہا کہ ”خیبرپختونخوا کے 70فیصد سے زائد صحافی ذہنی دباؤ کا شکار ہیں جبکہ کونسلنگ (نفسیاتی مشاورت) کی ضرورت ہے اُور ایسا نہ ہونے کے باعث (اندیشہ ہے کہ) نفسیاتی مسائل کی شدت میں بتدریج اضافہ ہوگا۔ نفسیاتی مشاورت (psychology counseling) یکساں ضروری ہے بصورت دیگر مریضوں کی اپنی صحت اُور جان کو خطرات لاحق رہتے ہیں۔“ محترمہ تارہ نے اِس حقیقت کا بھی اعتراف کیا کہ ”معاشرے میں ہر انسان کسی نہ کسی قسم کے ذہنی دباؤ  کا شکار ہوتا ہے اُور یہ ذہنی دباؤبہت ساری معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بھی ہو سکتا ہے لہٰذا ضرورت اِس امر کی ہے کہ نفسیاتی عارضوں کو معمولی نہ سمجھا جائے اُور جسمانی صحت کی طرح نفسیاتی صحت کا بھی خیال رکھتے ہوئے متعلقہ معالج (نفسیاتی امور کے مستند معالج) سے رجوع کیا جائے۔“ صحافیوں کی استعداد کار اُور معلومات میں اضافے کی جاری کوششوں میں نفسیاتی الجھنوں اُور ذہنی صحت کے حوالے آگاہی کی یہ نشست اپنی جگہ اہم تھی جس کے شرکا کو کم سے کم جس ایک بات کے بارے میں یقینا علم ہو چکا ہے کہ ”ذہنی طور پر پریشان‘ ہر شخص ’پاگل‘ نہیں ہوتا اُور اگر ذہنی پریشانیوں کا بروقت علاج نہ کروایا جائے تو یہ کسی بھی انسان کو پاگل بنانے کی صلاحیت رکھتی ہیں۔“ اِسی طرح نفسیاتی امراض کیا ہوتے ہیں اُور دیگر امراض کی طرح نفسیاتی عارضوں کی بھی علامات ہوتی ہیں جن میں نیند کے معمولات تبدیل ہونا‘ نیند کی کمی‘ سماجی تعلقات اُور روئیوں میں تبدیلی‘ لڑائی جھگڑے‘ دوسروں کو شک کی نگاہ سے دیکھنا‘ بچوں کو ڈانٹنا‘ دھتکارنا اُور کسی عمومی بات کا پتنگڑ بنانے جیسی تحاریک کسی عارضے کی نشاندہی ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ نفسیاتی عارضے میں مبتلا شخص نہ صرف اپنی ذات میں بے سکون ہوتا ہے بلکہ وہ گردوپیش میں دیگر افراد کے لئے بے سکونی کا باعث بن رہا ہوتا ہے اُور یہی وہ مرحلہء فکر ہے جہاں صرف صحافی ہی نہیں بلکہ معاشرے کی ہر سطح پر نفسیاتی مریض خود کو مریض نہیں سمجھتے۔ توجہ طلب ہے کہ نفسیاتی الجھنیں معاملات کے بارے میں سوچنے‘ سمجھنے یا روزمرہ کے عمومی فیصلے کرنے یا کسی نتیجے تک پہنچنے اُور برداشت جیسی صلاحیتوں کو متاثر کرتی ہیں اُور اگر کوئی بھی شخص اپنے اندر ایسی تبدیلیاں محسوس کرے کہ اُسے بات بے بات پر غصہ آئے یا طبیعت میں اشتعال کا غلبہ رہے تو تجویز یہی کیا جاتا ہے کہ ایسی صورت میں نفسیاتی امراض کے مستند معالجین سے رجوع کرنا چاہئے۔ اگرچہ یہ بات صحافیوں کی نشست میں زیرغور نہیں آئی لیکن ’غربت‘ جملہ بیماریوں کی جڑ ہے جبکہ نفسیاتی عارضوں کا ایک سبب ملاوٹ شدہ اشیائے خوردونوش کا استعمال اُور ڈاکٹروں کی جانب سے تجویز نہ ہونے کے باوجود ازخود ڈاکٹری یا حکیمی ادویات لینا ہے!

جسم کے دیگر اعضا کی نسبت انسان سب سے زیادہ دماغ اُور نفسیات کے بارے میں جاننے کا دعویٰ کرتا ہے اُور یہی پہلی و بنیادی غلطی ہے۔ نفسیاتی الجھنیں سمجھ آ جائیں گی لیکن اگر اِن کے پیدا ہونے کے عمل کو جان لیا جائے۔ اِس مرحلہ فکر پر ٹھہر کر ایک مثال جان لیں کہ شاید ہی دنیا کا کوئی ایسا شخص ہو جو غصے کے مضر اثرات کے بارے میں نہ جانتا ہو لیکن اِس خواندگی کے باوجود اُسے غصہ آتا ہے اُور جب غصہ اُس کی برداشت سے اکثر زیادہ (بے قابو) ہو جائے تو ایسی صورت کو طب کی اصطلاح میں نفسیاتی عارضہ کہا جاتا ہے۔ اِسی طرح علوم نفسیات میں عبادت کو بھی نفسیاتی بیماری ہی کی ایک قسم بتائی جاتی ہے جبکہ عبادات اُور عقائد نفسیاتی عارضوں کو کم کرتے ہیں کیونکہ اِن میں دعا کے ذریعے یقین اُور اُمید پیدا ہوتی ہے اُور دنیا کا کوئی ایک بھی ایسا ڈاکٹر نہیں جو مریض کو دوا کے علاؤہ اُس میں یقین اُور اُمید جیسے جذبات پیدا کر سکے جو لاعلاج امراض میں جادوئی اثرات رکھتی ہیں۔ بہرکیف جس ایک بات کو ہمارے ماہرین نفسیات کی اکثریت فراموش کر جاتی ہے وہ یہ ہے کہ کرہ ارض پر موجود تمام جانداروں (مخلوقات) میں صرف انسان ہی ایک ایسا جاندار ہے جس کا نفسیاتی نظام انتہائی پیچیدہ (دوسروں سے) و مختلف ہے اُور جب ہم انسان کا دیگر جانداروں (ہم زمین مخلوقات) سے موازنہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انسان کے ساتھ ایک نفسیاتی عمل بھی جڑا ہوا ہے جس کی وجہ سے ہمارے اندر خیالات اُور جذبات پیدا ہوتے ہیں لیکن انسانی ذہن کی اِس پیداوار (خیالات اُور جذبات) کے لئے اُسے معلومات درکار ہوتی ہیں یا وہ ازخود معلومات اخذ کر کے کسی نتیجے پر پہنچنے کی اپنی صلاحیت استعمال کرتا ہے اُور یوں کسی شخصیت یا واقعات کے بارے خیالات کے تانے بانے بننا شروع کر دیتا ہے چونکہ یہ انتہائی تیزرفتار عمل ہوتا ہے کہ اِسے روکا یا اِس کے تلاطم کا زور توڑا نہیں جا سکتا اِس لئے یہی غالب و کامیاب رہتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ہم کسی شخص کے بارے میں سوچتے ہیں کہ وہ اچھا ہے یا وہ بُرا ہے تو درحقیقت یہ ہمارا دماغ کی اختراع ہوتی ہے کہ جو مختلف قسم کی معلومات کو اکٹھا کر کے ہمیں کسی نتیجہ ءخیال تک پہنچا رہا ہوتا ہے اُور اِنہی خیالات کے تحریک میں کسی انسان کی شخصیت بنتی ہے۔ اکثر سننے میں آتا ہے کہ فلاں شخص منفی ذہنیت کا حامل ہے‘ وہ ہر چیز میں کیڑے نکالتا ہے وغیرہ۔ 

اگر ہم انسان اپنے دماغ اُور اِس کے نفسیاتی عمل کو سمجھ لیں تو عیاں ہو جائے گا کہ انسانی دماغ جس طرح قدم قدم پر رہنمائی کر رہا ہوتا ہے تو درحقیقت وہ معلومات کو تصورات اُور تصورات کو خیالات میں ڈھال کر فیصلہ سازی یا رائے زنی کرواتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ جو کچھ ہمارے دماغ میں چل رہا ہوتا ہے وہ کائنات (ہمارے گردوپیش) کی حقیقت کا بیان نہیں ہوتا بلکہ تطہیر شدہ اندازہ (حاصل) ہوتا ہے۔ اِنسان اپنی اُور کائنات کی حقیقت تک اُسی وقت پہنچ سکتا ہے جب وہ خالی الذہن رہ سکے اُور طبیعت کے اُس آسان پن سے نجات حاصل کرے جو اِسے ہر مسئلے کے فوری حل (نتیجے) تک پہنچا دیتی ہے۔ اِس مرحلہء فکر پر انسانوں (یقینا بشمول صحافیوں) کو اِس بات پر بھی سوچنا چاہئے کہ آخر وہ ذہن کے بے لاگ سوچنے اُُور اِس سے پیدا ہونے والے نفسیاتی مسائل سے دوچار کیوں ہیں اُور دیگر اعضائے جسمانی کے مقابلے آخر اِنہیں صرف ذہن و نفسیات ہی سے کیوں مسائل (الجھنیں) درپیش ہیں؟ 

”سوچ اپنی ذات تک محدود ہے .... ذہن کی کیا یہ تباہی کچھ نہیں (طاہر عظیم)۔“

....



https://epaper.dailyaaj.com.pk/epaper/pages/75cccd7df1db34d4eaac7f269f885ae2.jpg


No comments:

Post a Comment