Tuesday, October 5, 2021

Environmental friendly development needed

 ژرف ِنگاہ .... شبیرحسین اِمام

تذکرۂ سود و زیاں

’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ اپنے انتظامی فیصلوں میں ’خود مختار‘ اِدارہ ہے‘ جس کے سالانہ اخراجات 35 کروڑ (350ملین) روپے میں ملازمین کی تنخواہیں شامل ہیں۔ حکومت چاہتی ہے کہ اِس ادارے کو مالی طور پر خودمختار ہونا چاہئے اُور اِس کی آمدنی کے مستقل ذرائع میں اِس حد تک اضافہ کیا جائے کہ اِسے تعمیر و ترقیاتی امور میں دقت پیش نہ آئے۔ اِس سلسلے میں وضع کردہ حکمت عملی پر عمل درآمد کا آغاز کر دیا گیا ہے جس کی دو برس میں تکمیل سے اُمید ہے کہ سال 2023ءتک گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی سالانہ آمدنی ڈھائی ارب روپے تک جا پہنچے گی جبکہ رواں برس 55 کروڑ (550ملین) روپے کا منافع متوقع ہے۔ ذہن نشین رہے کہ سال 2019ءمیں اتھارٹی کی آمدنی 36 کروڑ روپے تھی جسے مالی سال 2020ءمیں بڑھاتے ہوئے 90 کروڑ روپے تک لیجایا گیا ہے۔ اتھارٹی کی آمدنی میں دو برس کے دوران 200 فیصد سے زائد اضافہ کیسے ہوگا‘ یہ بات سمجھنے کے لئے اُن 2 ترقیاتی منصوبوں کو دیکھنا ہوگا جو سیاحوں کو سہولیات کی فراہمی کے نام پر کئے جا رہے ہیں۔ پہلا منصوبہ نتھیاگلی میں عالمی معیار کے مطابق جدید ترین سہولیات و آسائشوں سے مزین قیام و طعام کا بندوبست (فائیو سٹار ہوٹل) ہوگا جبکہ دوسرا منصوبہ ایویبہ کے مقام پر نئی چیئرلفٹ کی تنصیب ہوگی۔ مذکورہ دونوں منصوبے غیرملکی سرمایہ کاری سے مکمل ہوں گے۔ ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کا شاید پہلا ’فائیو سٹار ہوٹل‘ نتھیاگلی میں بننے جا رہا ہے اُور وہ بھی کسی شہر میں نہیں بلکہ جنگل کے بیچوں بیچ اُور ظاہر سی بات (یقینی امر) ہے کہ جب جنگل میں مور ناچے گا تو اُسے دیکھنے کا خاطرخواہ بندوبست بھی کیا جائے گا‘ جس سے گلیات کی جنت نظیر وادیوں کی خاموشی‘ سکون اُور وہاں کے مقامی لوگوں سمیت جنگلی حیات کا آرام و سکون (حقوق) پائمال ہوں گے۔

 ”ازل سے کر رہی ہے زندگانی تجربے لیکن .... زمانہ آج تک سمجھا نہیں سود و زیاں اپنا (قابل اجمیری)۔“

نتھیاگلی میں پنج ستارہ (فائیوسٹار) ہوٹل کے قیام کے لئے بات چیت (مذاکرات) کا عمل 2012ءسے جاری تھا اُور بتایا جا رہا ہے کہ اِس منصوبے کی منظوری 8 سالہ غوروخوض کے بعد دی گئی ہے۔ عجیب و غریب مرحلہ¿ فکر ہے کہ آٹھ سال کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اُور نہ ہی اُن ماحولیاتی و ارضیاتی ماہرین کے بارے میں علم ہو سکا کہ وہ کون تھے جنہوں نے جنگل کے بیچوں بیچ‘ فائیوسٹار ہوٹل بنانے کو جائز قرار دیا جبکہ کسی سیاحتی مقام پر اگر بنیادی نوعیت کی قیام و طعام کی سہولیات بھی اگر مہیا کر دی جائیں تو یہ بھی کافی ہوتا ہے کیونکہ اِن جنت نظیر وادیوں اُور فطرت کا قریب سے مشاہدہ کرنے والوں کے لئے چند روزہ قیام کے دوران سہولیات معنی نہیں رکھتیں بلکہ وہ قدرت سے لطف ہونے آتے ہیں اُور کسی ایسے سیاحتی مقام پر ’فائیو سٹار آسائشوں‘ کا مطلب قطعی مختلف ہوتا ہے۔ یہ بات اپنی جگہ اہم ہے کہ اگر سال 2012ءسے نتھیاگلی کے ایک حصے میں درخت کاٹ کر عالمی معیار کا ہوٹل بنانے پر غوروخوض ہو رہا تھا تو اِس سے سیاسی و بلدیاتی منتخب نمائندوں کیوں بے خبر رہے!؟

نتھیاگلی میں فائیو سٹار ہوٹل کی تعمیر کا معاہدہ جس سرمایہ کار کمپنی (Baron Group) سے کیا گیا ہے وہ اتھارٹی کو زمین کے اجارے (لیز) کی مد میں قریب 85 کروڑ (850 ملین) روپے ادا کریں گے اُور یہ ادائیگی 10 سال کی مدت میں ہوگی جبکہ ہوٹل تعمیر ہونے کے بعد اتھارٹی کو سالانہ 1 ارب روپے کی آمدنی ہونے لگے گی۔ اِسی طرح ایویبہ کے مقام پر نئی (آسٹریلوی ساختہ) چیئرلفٹ لگانے کا ٹھیکہ جس سرمایہ کار کمپنی (Manal Group) کو دیا گیا ہے۔ چیئرلفٹ کی فعالیت کے بعد اتھارٹی کو سالانہ 94 کروڑ روپے آمدنی ہوگی جبکہ چیئرلفٹ کا موجودہ ٹھیکیدار 5 کروڑ روپے سالانہ ادا کر رہا ہے اُور اُس نے 58 سال قبل نصب ہونے والی چیئرلفٹ بند کرنے کے خلاف عدالت سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا ہے جس کی سماعت (4 اکتوبر 2021ئ) کے روز سول جج شاہد زمان نے گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو ’توہین ِعدالت‘ کا نوٹس جاری کیا کیونکہ چیئر لفٹ کے ٹھیکیدار (ایاز خان) نے لفٹ کو بند کرنے سے فیصلے کے خلاف مذکورہ ایبٹ آباد سول جج ون کی عدالت سے رجوع کیا تھا اُور عدالت نے اتھارٹی کو اِس بارے تفصیلی رپورٹ جاری کرنے تک چیئرلفٹ کو جاری رکھنے کے احکامات صادر کئے تھے۔ مقدمے کی اگلی سماعت کے لئے 20 اکتوبر کی تاریخ مقرر کی گئی ہے۔ دریں اثنا اتھارٹی نے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر سے تحریری رابطہ کرتے ہوئے ایوبیہ چیئرلفٹ کے ٹھیکیدار اُور اِس کی حمایت کرنے والے مقامی فلاحی تنظیم ”گلیات تحفظ مو¿ومنٹ“ کے چیئرمین (سردار صابر) اُور وائس چیئرمین (سردار افتخار) کے خلاف ابتدائی تفتیشی رپورٹ (FIR) درج کرنے کا کہا گیا جن کا جرم یہ ہے کہ اُنہوں نے اتھارٹی کی جانب سے بند کی جانے والی چیئرلفٹ کے دروازے زبردستی کھول کر قانون کو ہاتھ میں لیا ہے۔ گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے فیصلہ سازوں کو سوشل میڈیا صارفین سے بھی شکایات ہیں کہ وہ اتھارٹی کے خلاف بے بنیاد تبصروں کی تشہیر کرتے ہیں۔ گلیات کے رہنے والوں کو ایک تعداد ایسی بھی ہے جسے پینے کا پانی نہیں ملتا۔ خستہ حال سڑکوں کی وجہ سے آمدورفت باسہولت نہیں اُور گرمی ہو یا سردی موسمی اثرات کی وجہ سے یہاں کے رہنے والوں کو انواع و اقسام کی مشکلات درپیش رہتی ہیں جن میں ماحول دوست ایندھن کی عدم دستیابی بھی شامل ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ آمدن میں اِضافے‘ سیاحتی سرگرمیوں کے فروغ اُور ماحولیاتی تحفظ کے تقاضے مربوط نہیں۔ زیادہ سے زیادہ آمدنی کے چکر میں اگر ماحولیاتی تنوع (eco system) کا لحاظ نہ رکھا گیا تو اِس سے حاصل ہونے والی بظاہر آمدنی درحقیقت ایک ایسا خسارہ ہوگا‘ جس کی بعدازاں ازالہ اُور غلطی کی تلافی ممکن نہیں رہے گی۔ ”اپنی زباں تو بند ہے تم خود ہی سوچ لو .... پڑتا نہیں ہے یوں ہی ستم گر کسی کا نام (قتیل شفائی)۔“

....


No comments:

Post a Comment