ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: آرزو جرم ہے‘ مدعا جرم ہے
پشاور میں بڑھتے ہوئے عمومی جرائم (سٹریٹ کرائمز) کی کہانیاں گلی گلی اُور بازار بازار پھیلی ہوئی ہے۔ تازہ ترین واردات جس نے گل بہار میں بالعموم اُور اندرون شہر میں بالخصوص سنسنی و تشویش پھیلا رکھی ہے وہ چار اکتوبر دوہزاراکیس کی رات نو بجکر پینتیس منٹ پر ’گل بہار نمبر ایک‘ گلی نمبر ایک‘ میں پیش آنے والا واقعہ ہے جس کے بارے میں متعلقہ تھانے (گل بہار) کو مطلع کیا گیا‘ جہاں اِس قسم کی وارداتیں رپورٹ ہونا چونکہ معمول بن چکا ہے اِس لئے ابتدا میں روزنامچہ درج کر لیا گیا جو کسی واردات کا بیان اُور پولیس کے مطلع ہونے کی سند ہوتی ہے۔ پولیس فوری طور پر ’ایف آئی آر‘ درج نہیں کرتی کیونکہ اِس سے کسی تھانے کی ساکھ متاثر ہوتی ہے اُور یوں اپنی ساکھ بچانے کے چکر میں پشاور کو جرائم پیشہ عناصر کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا جبکہ عمومی و خصوصی جرائم سے انکار اپنی جگہ قابل ِمذمت ہے۔ جرائم کے حوالے سے پشاور شہر کی صورتحال اِس حد تک بگڑ چکی ہے کہ اب پولیس کے پاس سائلین (متاثرہ شہریوں) سے ہمدردی و دلاسے کے الفاظ بھی نہیں رہے۔ کسی عام شخص کا پولیس تھانے سے واسطہ پڑنے کی صورت اُسے جس قسم کے روئیوں کا سامنا ہوتا ہے اُور جس انداز میں اُسے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یہ کہانی پھر سہی! چار اکتوبر کی شب بھی یہی ہوا لیکن اتفاق سے مذکورہ گلی میں جہاں راہزنی کی واردات رونما ہوئی وہاں کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرہ لگا ہوا تھا‘ جس نے پوری واردات محفوظ کر لی اُور یوں پولیس کے ہاتھ راہزنی کرنے والے تین نوجوان لڑکوں کا حلیہ اُور اختیار کیا جانے والا دلیرانہ طریقہ واردات عیاں ہو گیا جس کے بعد مزید کسی ثبوت کی ضرورت نہیں رہی اُور جرم رونما ہونے سے انکار کی گنجائش بھی جاتی رہی۔ پھر یہ ”ستم“ بھی ہوا کہ واردات کی کلوزسرکٹ ویڈیو کی سوشل میڈیا پر تشہیر ہوگئی جو پولیس کے پہنچنے اُور واردات کے اِن ثبوتوں تک رسائی محدود کرنے سے قبل ویڈیو جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ اہل پشاور ایک عرصے سے جن ’سٹریٹ کرائمز‘ سے پریشان تھے اُس کا انتہائی بھیانک چہرہ سب کے سامنے تھا! ظاہر تھا کہ راہزنی میں دکھائی دینے والے تینوں لڑکوں کی ’باڈی لینگویج‘ سے عیاں تھا کہ وہ پہلی مرتبہ واردات نہیں کر رہے تھے اُور دوسری بات اُن کو علاقے کی پوری خبر تھی کہ کونسی گلی کہاں نکلتی ہے اُور کن گلیوں میں سے ہوتے ہوئے باآسانی روپوش ہوا جا سکتا ہے۔ گل بہار میں پیش آنے والی یہ واردات رات کے ایک ایسے وقت میں ہوئی جب اہل پشاور کی اکثریت عشایئے کے معمول میں مصروف ہوتی ہے اُور نو سے دس بجے کے درمیان آمدورفت کم ہو جاتی ہے۔ یہ ایک نہایت ہی سوچی سمجھی واردات تھی جس میں صرف محل وقوع ہی کو نہیں بلکہ مجرم دن کے اختتام پر شہریوں کے معمولات سے بھی آگاہی رکھتے تھے۔
سٹریٹ کرائمز جیسے عمومی و خصوصی جرائم پر قابو پانے کے لئے ٹیکنالوجی کا استعمال ملک کے کئی شہروں میں ہو رہا ہے۔ رواں ہفتے ہیں راول پنڈی پولیس نے 86 مقامات پر ’ہائی ڈیفینیشن (HD)‘ کیمرے نصب کرنے کے علاو¿ہ پولیس کی آن لائن شکایات کو گوگل ارتھ کے ساتھ منسلک کر رکھا ہے‘ جو اپنی نوعیت کا منفرد اقدام ہے۔ پشاور کے لئے ’سیف سٹی پراجیکٹ (Safe City Project)‘ کا تصور پیش کئے ہوئے پندرہ برس (ڈیڑھ دہائی) سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہے لیکن اِس پر عمل درآمد کا دور دور تک نام و نشان نہیں۔ تحریک انصاف کے پہلے دور حکومت (2013ءسے 2018ئ) کے دوران وزیراعلیٰ پرویز خٹک اُور 2018ءسے جاری تحریک انصاف کے دوسرے دور حکومت میں وزیراعلیٰ محمود خان ’سیف سٹی پراجیکٹ‘ کے حوالے سے متعدد اجلاسوں کی سربراہی کر چکے ہیں لیکن بات جہاں سے چلی تھی وہیں رُکی ہوئی ہے۔ کسی شہر کو نگرانی کے ذریعے محفوظ بنانے کی حکمت ِعملی کے پہلے مرحلے میں تین شہروں (لاہور‘ اسلام آباد اُور پشاور) کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن ماسوائے پشاور باقی دونوں شہروں دارالحکومت اسلام آباد اُور لاہور میں نہ صرف مذکورہ منصوبے مکمل کر لئے گئے بلکہ سال 2015ءسے پنجاب میں ایک خصوصی ادارہ بنام ”سیف سٹی اتھارٹیز“ بنا کر اِس کا دائرہ صوبے کے دیگر شہروں تک وسیع کر دیا گیا ہے لیکن نہیں بدلی تو پشاور کی قسمت نہیں بدلی اُور حسب اعلان پشاور کے 800 مقامات پر 6 ہزار کیمرے نصب نہ ہو سکے۔ قابل ذکر ہے کہ اِس مقصد کے لئے مالی سال 2013-14ءکے بجٹ میں خطیر رقم بھی مختص کی گئی تھی لیکن پندرہ برس بعد بھی پشاور ’سیف سٹی‘ نہیں بن سکا۔ یہ نکتہ اپنی جگہ اہم ہے کہ جن شہروں کو ’سیف سٹی‘ کے نام سے محفوظ بنایا گیا ہے وہاں بالخصوص سٹریٹ کرائمز اُور گاڑیوں یا موٹرسائیکلوں کی چوری کی وارداتوں میں نمایاں کمی دیکھنے میں آئی ہے۔
گل بہار پشاور میں سٹریٹ کرائمز واحد ایسا مسئلہ اُور ’لمحہ فکریہ‘ نہیں جس پر اہل علاقہ کو تشویش ہو اُور جسے حل کرنے کے لئے بار بار مطالبات نہ دہرائے جاتے ہوں۔
گلبہار کو بہار چاہئے۔
یہاں کے سبزہ زاروں پر تعمیرات کا جاری سلسلہ اِس حد تک طول پکڑ چکا ہے کہ کئی باغات سبزہ زاروں اُور سبزہ زار سکڑ کر راہداریوں میں تبدیل ہو گئے ہیں۔ تجاوزات کے باعث فٹ پاتھ تلاش کرنے پڑتے ہیں جبکہ شاہراؤں اُور گلی کوچوں کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث آمدورفت باسہولت نہیں رہی۔ نکاسی آب کا پانی یہاں وہاں سڑک پر بہتا نظر آتا ہے۔
گل بہار کا حسن اُور کشش ماند پڑ چکی ہے کیونکہ یہاں کے رہائشی اُور تجارتی علاقے میں تمیز باقی نہیں رہی۔ گلی کوچوں میں کثیرالمنزلہ کمرشل عمارتیں بن رہی ہیں‘ جن کے نقشے منظور کرنے والوں نے پشاور سے بڑا ظلم کیا ہے۔ سڑک کنارے تجارتی مراکز کے سبب پارکنگ سرراہ ہوتی ہے اُور نکاسی¿ آب کا نظام ایسا ہے کہ بارش ہو یا نہ ہو‘ عشرت سینما روڈ اُور اِس سے ملحقہ گلی کوچوں پر پانی کھڑا رہتا ہے جہاں پانی کھڑا رہنے کی وجہ سے گڑھے پڑ چکے ہیں اُور گندے پانی کی چھینٹوں سے بچ کر گزرنا آسان نہیں رہا۔
گل بہار کے باسیوں نے خیبرپختونخوا پولیس کے سربراہ (انسپکٹر جنرل) سے سٹریٹ کرائمز کی روک تھام کے لئے گشت بڑھانے اُور گل بہار کے لئے الگ سیکورٹی پلان تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کر کے اہم چوراہوں کی ہمہ وقت نگرانی ممکن ہے لیکن ایسا کرنے کے لئے قوت ِارادی اُور شہریوں کی شکایات کو درخوراعتنا (لائق توجہ) سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ”آرزو جرم ہے‘ مدعا جرم ہے .... اِس فضا میں اُمید و وفا جرم ہے (رشی پٹیالوی)۔“
No comments:
Post a Comment