ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
ہاؤسنگ: سعی لاحاصل
متحدہ مجلس عمل سے تعلق رکھنے والے رکن صوبائی اسمبلی عنایت اللہ خان نے جس اہم مسئلے کی جانب قانون ساز ایوان کے ذریعے خیبرپختونخوا حکومت کی توجہ مبذول کروائی ہے وہ مکانات کی کمی ہے اُور اِس بات کو صوبائی حکومت بھی تسلیم کرتی ہے کہ اگرچہ خیبرپختونخوا حکومت گھروں کی تعمیر کے متعدد منصوبے شروع کئے ہوئے ہے لیکن صوبے میں مجموعی طور پر سات لاکھ سے نو لاکھ (قریب ایک ملین) گھروں کی کمی ہے۔ ہاؤسنگ کے صوبائی وزیر ڈاکٹر امجد علی خان صوبائی اسمبلی ایوان کو (ستمبر دوہزار اکیس) میں مطلع کر چکے ہیں کہ رہائشی مکانات کی کمی سے نمٹنے کے لئے حکومت اپنے وسائل میں رہتے ہوئے اقدامات کر رہی ہے لیکن اُن کی جانب سے ایوان کو دی جانے والی یقین دہانی پر حزب اختلاف کی جماعتوں کو زیادہ اطمینان نہیں اُور وہ صوبائی حکومت سے اِس مسئلے میں 2 طرح کے اُور فوری اقدامات (کوئیک ایکشن) کے خواہاں ہیں۔
حزب اختلاف چاہتی ہے کہ ہر ضلع کی سطح پر گھروں کی کمی کے بارے میں اعدادوشمار مرتب کر کے حکمت عملی وضع کی جائے کیونکہ جب حکومت زیادہ بڑے پیمانے پر گھروں کی کمی پورا کرنے کے لئے منصوبے بناتی ہے تو اِس سے دو طرح کی خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔ ایک تو لاگت زیادہ ہونے کی وجہ سے منصوبوں کو آئندہ مالی سالوں کی ترقیاتی حکمت عملیوں کے لئے اُٹھا رکھا جاتا ہے اُور محکمہ خزانہ سے سفارشات طلب کی جاتی ہیں‘ جو صوبائی محصولات (ٹیکسوں) میں اضافے کی تجویز دیتی ہے اُور نئے ٹیکس کسی بھی صورت ناقابل قبول نہیں ہو سکتے کیونکہ عام آدمی (ہم عوام) پہلے ہی مہنگائی کے سبب کم ہوتی قوت ِخرید کی وجہ سے پریشان ہیں اُور عوام کو نئی پریشانی میں مبتلا کرنا منطقی نہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ حکومت جب بڑے پیمانے پر گھروں کی تعمیر کا فیصلہ کرتی ہے تو یہ فیصلہ شہری آبادی کے قریب کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے دیہی و مضافاتی علاقوں سے شہروں کی جانب نقل مکانی کے رجحان میں اضافہ ہوتا ہے یعنی جس رجحان کی حکومت کو خود حوصلہ شکنی کرنی چاہئے لیکن وہ غیرمحسوس انداز میں خود اِس بات کی حوصلہ افزائی کر رہی ہے کہ لوگ شہروں کی جانب نقل مکانی کریں۔ یہ پہلو بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ حکومت کے ترقیاتی منصوبوں کے لئے مالی وسائل کی فراہمی وفاقی حکومت کی مہربانی سے مشروط ہے اُور گزشتہ کئی دہائیوں سے صوبائی آئینی حقوق کی ادائیگی نہیں ہو رہی‘ جس کے لئے جدوجہد میں ماضی کی طرح موجودہ صوبائی حکومت بھی مصلحتوں سے کام لے رہی ہے کیونکہ سیاسی حکومتوں کی مجبوریوں میں یہ بات بھی شامل ہوتی ہے کہ انہیں وفاق سے اپنے تعلقات بنائے رکھنے ہوتے ہیں بلکہ اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ وفاق ہی کی حمایت سے صوبائی حکومت قائم و برقرار رہتی ہے۔
رہائشگاہوں کی تعمیر کے لئے بڑے پیمانے پر سوچنے اُور اقدامات کرنے سے بہتر ہے کہ ضلعی وسائل (مقامی آمدنی) اُور اضلاع کی ترقی کے لئے مختص وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے ترجیحات کا تعین کیا جائے اُور اِس سلسلے میں سب سے بہترین طریقہ یہی ہے کہ ہر کام صوبائی حکومت اپنے ذمے لینے کی بجائے بلدیاتی اداروں کو قائم کرے‘ اُنہیں مضبوط بنائے اُور ترقی کے عمل میں بلدیاتی اداروں کی سطح پر ہونے والی مشاورت یا غوروخوض سے کام لے۔ عمومی مشاہدہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کے نامزد منتخب اُمیدوار جب صوبائی اُور قومی سطح پر اپنے اپنے انتخابی حلقوں کی نمائندگی کرتے ہیں تو وہ علاقائی مسائل سے زیادہ قومی سیاست (سیاسی مفادات) سے متعلق سوچ بچار میں اپنی توانائیاں زیادہ خرچ کر رہے ہوتے ہیں اُور یہی وہ مرحلہ فکر ہے‘ جسے سیاست کا منفی پہلو قرار دیتے ہوئے بلدیاتی اداروں کو غیرسیاسی رکھنے کی حمایت کی جاتی ہے لیکن شاید شعور کی موجودہ سطح پر ایسا کرنا ممکن نہیں۔
خیبرپختونخوا قانون ساز ایوان میں ’ہاؤسنگ کی ضروریات‘ کمی اُور اِس سے جڑے دیگر مسائل‘ کئی مرتبہ زیرغور آ چکے ہیں اُور ہر موقع پر حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے جس ایک نکتے پر بطور خاص زور دیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ ”صوبائی حکومت زراعت کے لئے زیراستعمال اُور قابل کاشت اراضی پر رہائشی بستیاں آباد کرنے کی اجازت نہ دے۔“ اُور اِس تجویز و معاملے سے خود حکومتی اراکین بھی اتفاق کرتے ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ رہائشی ضروریات اِس قدر زیادہ ہیں اُور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے اِن کی طلب میں اِس قدر تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ حکومت زرعی اراضی پر نئی رہائشی بستیوں کے قیام کو روکنا چاہے بھی تو نہیں روک سکتی کیونکہ اِس کے لئے متعلقہ اداروں سے اجازت کے لئے اُس وقت رابطہ کیا جاتا ہے جب یہ بستیاں تقریباً آباد ہو چکی ہوتی ہیں۔ قانون شکنی کے اِس انداز کی پشت پناہی کرنے والے کون ہیں اُور اِس میں عوام کے منتخب نمائندوں اُور اِنتخابی حلقوں کی سیاست کا کس قدر عمل دخل ہے‘ یہ بیان کرنے کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ ہر شخص جانتا ہے کہ کس طرح قانون بااثر طبقات اُور عوام سے الگ الگ معاملہ کرتا ہے اُور جب تک قانون کی ’یکساں بلاامتیاز اُور بنا مصلحت حکمرانی‘ عملاً قائم نہیں ہو گی اُس وقت تک ہاؤسنگ کی ضروریات اُور زرعی اراضی کا تحفظ ہی نہیں بلکہ دیگر بحران کی صورت اختیار کئے سماجی مسائل بھی حل نہیں ہوں گے‘ بھلے کتنی ہی زبانی و کلامی کوشش کر لی جائے۔ ”وہ جس کی تاب و توانائی کا جواب نہیں .... ابھی وہ سعی جنوں خیز کامیاب نہیں (مجاز)۔“
....
No comments:
Post a Comment