Tuesday, November 16, 2021

Burn Hall: Parents Day vs Appreciation Day

ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
مقصد تعلیم: قوت اخوت عوام

پاکستان میں بہت ہی کم ”نجی تعلیمی“ اِدارے ایسے ہیں جہاں تعلیم میں پنہاں ”قومی خدمت“ جیسے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے ’درس و تدریس‘ میں بہتری کے کم سے کم معیار کو حاصل کرنے کا بیانیہ (عہد) بھی ملتا ہے اُور روائتی تدریسی عمل کے ساتھ طلاب کو تحصیل ِعلم کے ساتھ نظم و ضبط سے روشناس کرایا جاتا ہے تاکہ وہ کسی بھی شعبہ ہائے زندگی میں اپنے قومی ترانے میں دیئے گئے اِس تصور کی منہ بولتی تصویر کے طور پر ”قوت ِاخوت ِعوام“ کا مظاہرہ کریں۔ ایسے ہی ’نیک نام‘ اُور ’معروف‘ اداروں میں ایبٹ آباد کا ’آرمی برن ہال‘ بھی شامل ہے‘ جس کا قیام مسیحی خدمتگاروں (مشنریوں) نے 1943ء(78 برس قبل) کیا تھا اُور اُن کا بنیادی مقصد ’تعلیم بصورت خدمت و عبادت‘ تھی۔

 قیام پاکستان کے بعد ’برن ہال‘ نامی تعلیمی ادارے کے بانی اراکین فادر برمن تھجیسن (Fr. Herman Thijssen)‘ فادر جارج شانکس (Fr.George Shanks) اُور فادر فرانسیس اسکینین (Fr. Francis Scanion) نے ہند سے نقل مکانی کرکے ایبٹ آباد کا انتخاب کیا۔ برن (Burn) اسکاٹش اُور انگریزی زبان کا لفظ ہے‘ جس کا مطلب کسی دریا کی چھوٹی شاخ جبکہ ہال Hall کا مطلب کسی وسیع و پرسکون احاطے میں بنے گھر کے ہیں۔ یوں برن ہال سے مراد ’فیض کا چشمہ‘ ہے جس کا مقصد و نصب العین بھی اِسی سوچ کا مظہر ہے اُور یہی انسان کو ’اشرف المخلوقات‘ کے مقصد سے قریب کرتا ہے جہاں اِنسان امتیازات و تعصبات سے بالاتر ہو کر انسانیت کو بلندیوں سے روشناس کرانے میں خدا کا فضل مقصود رہے۔ قیام پاکستان کے بعد برن ہال کے بانی جو پہلے ”سینٹ جوزف مشنری سوسائٹی مل ہل“ کے نام تعلیمی ادارے کی بنیاد رکھ چکے تھے اُنہوں نے ادارے کا نام ’سینئر کیمبرج سکول‘ اُور بعدازاں ’برن ہال‘ رکھا لیکن چونکہ پاکستان آنے کے بعد اُنہوں نے حکومت سے زمین اجارے (لیز) پر حاصل کی تھی جس کا اجارہ ختم ہونے کے بعد 1977ءمیں ’برن ہال‘ کا تعلیمی بندوبست اُور جملہ وسائل (ترقی یافتہ شکل میں) ایجوکیشن کور کے تحت ’آرمی برن ہال‘ کا حصہ (اثاثہ) بن گئے اُور یوں برن ہال کے ایک نئے سفر کا آغاز ہوا‘ جو کامیاب کاروباری حکمت ِعملی کے ساتھ جاری ہے اُور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب ایشیا میں اشرافیہ کے لئے مخصوص تعلیمی اداروں میں ’برن ہال‘ کا نام معروف ہے۔ حکومت ِپاکستان نے ’آرمی برن ہال‘ کی خدمات کے اعتراف میں یادگاری ٹکٹ بھی جاری کر رکھا ہے۔ ’مارچ 2018ئ‘ میں جاری ہونے والے اِس ڈاک ٹکٹ پر برن ہال کالجر برائے طلبہ شاخ کی عمارت اُور ادارے کا نصب العین (Moto) شائع کیا گیا جس پر لاطینی زبان کا جملہ ’Quo non ascendam‘ درج ہے جس کا مطلب ہے کہ ”وہ کونسی بلندی ہے جسے حاصل نہیں کیا جا سکتا؟“ یقینا جب انسان پرعزم ہو جائے اُور اُسے رہنما و رہنمائی میسر آئیں تو وہ کونسی بلندی ہے جسے یہ حاصل نہیں کر سکتا! بقول علامہ اقبالؒ ”زد بانگ کہ شاہینم و کارم بہ زمیں چیست .... صحرا است کہ دریاست تہ بال و پر ماست (ترجمہ: شاہین نے بلندی سے آواز دی کہ میرا زمیں پر کیا کام .... صحرا ہو یا دریا میں سب سے بلند ہوں۔)

قیام پاکستان سے قبل ’برن ہال‘ کا نصب العین لاطینی زبان و ادب سے لیا گیا اُور سکول کی نئی انتظامیہ کے چالیس سال بعد بھی یہی لاطینی نصب العین مقرر ہے حالانکہ برن ہال میں لاطینی زبان نہیں پڑھائی جاتی اُور نہ ہی یہاں وفاقی امتحانی بورڈ اُور برطانوی تعلیمی ادارے ’آکسفورڈ یونیورسٹی پریس‘ کی شائع کردہ نصابی کتب میں شامل زبانوں کے علاؤہ دیگر خارجی زبانوں کی تعلیم دی جاتی ہے۔ ایبٹ آباد میں خیبرپختونخوا کا تعلیمی امتحانی بورڈ موجود ہے لیکن برن ہال کا الحاق وفاقی امتحانی بورڈ سے ہے‘ جسے ایبٹ آباد اُور خیبرپختونخوا کے تعلیمی بندوبست کا پابند کرنے کے لئے صوبائی فیصلہ سازوں کو ’ایجوکیشن کور‘ سے بات کرنی چاہئے کیونکہ طلاب کی اکثریت کو وفاقی بورڈ سے اسناد کی تصدیق‘ حصول اُور ثانوی امتحانات یا دیگر معاملات میں رجوع کرنے کے لئے پریشانی کا سامنا رہتا ہے۔ جب مقامی طور پر امتحانی بورڈ موجود ہے تو اِس کی سہولت سے اُن عمومی طلاب کا فائدہ اُٹھانے کا موقع کیوں فراہم نہیں ہونا چاہئے جو آمدورفت کے اضافی اخراجات برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ تعلیم کو کم خرچ بالا نشیں بنانے کے لئے سوچ بچار اُور بات چیت کیوں نہیں ہونی چاہئے؟ 

برن ہال حال کے زیراہتمام حال ہی محدود سطح پر چینی زبان کی کلاسیز شروع کی گئیں لیکن اُن کے معمولات بھی اِس طرح رکھے گئے ہیں کہ یہ بوائز اُور گرلز الگ الگ شاخوں میں یکساں نہیں اُور جہاں چینی زبان سیکھنے کی سہولت ہے تو وہ بھی اِس قدر سطحی ہے کہ اِن پر بنیادی تدریسی سرگرمیاں (نصابی دورانیہ) حاوی ہے۔ فیصلہ ساز متوجہ ہوں کہ دنیا کے ’گلوبل ویلیج‘ بننے اُور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دور میں خارجی زبانوں کی اہمیت روائتی اسلوب سے بڑھ گئی ہے اُور اِس سلسلے میں مغربی یا افریقیائی ترقی یافتہ ممالک کے تصورات ِتعلیم کو دیکھنا چاہئے جہاں بچوں کو تعلیم کے ابتدائی برس میں قومی زبان کے علاؤہ کم سے کم تین دیگر زبانیں پڑھائی جاتی ہیں اُور تعلیمی اداروں (سکول‘ کالج یا جامعات) کو اِن کی چاردیواری تک محدود نہیں سمجھا جاتا بلکہ خارجی زبانیں سیکھنے والوں کو سالانہ تعطیلات کے دوران اُن ممالک کے سہ ماہی دورے کروائے جاتے ہیں جن زبانوں میں طلاب نے مہارت حاصل کی ہوتی ہے تاکہ وہ اُن زبانوں سے جڑی ثقافت‘ رہن سہن اُور معاشرتی بودوباش کو قریب سے مشاہدہ (محسوس) کر سکیں اُور اِس طرح حاصل ہونے والے شعوری علم سے نہ صرف عالمی دوستوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ طلاب اپنے تعلیمی اُور پیشہ ورانہ مستقبل کا تعین کرنے میں بھی سوچ کی محدودیت (خول) سے باہر جھانک کر دیکھنے کے صلاحیت حاصل کر لیتے ہیں۔

بنیادی بات یہ ہے کہ بچوں کو اُس کنویں سے باہر نکالا جائے جس کے باہر تعلیمی اداروں کے ناموں کے بورڈ نصب ہیں۔ تعلیم کے حقیقی مقاصد اُور درپیش عالمی چیلنجز سے نمٹنے کے لئے جس قسم کی سرمایہ کاری درکار ہے اُس کے بیشتر حصے کا تعلق سوچ بچار (فیصلہ سازی) سے ہے۔ توجہ طلب ہے کہ درس و تدریس کو روایت سے ایک درجہ بلند کرنے کے لئے تجربات صرف ترقی یافتہ یعنی مالی وسائل رکھنے والے ممالک ہی میں نہیں ہو رہے بلکہ سری لنکا جیسے ترقی پذیر اُور پاکستان سے زیادہ پسماندہ ملک میں بھی تعلیم اُور نوجوانوں میں سرمایہ کاری پاکستان کے مقابلے کہیں گنا بہتر بلکہ بہترین دکھائی دیتی ہے۔

برائے طالبات‘ آرمی برن ہال (سکول و) کالج میں ”یوم والدین“ کی پروقار تقریب کے موقع پر ’پاکستان ملٹری اکیڈمی (کاکول)‘ کے کمانڈنٹ میجر جنرل عمر بخاری مہمان خصوصی تھے جنہوں نے پرنسپل بریگیڈئر ڈاکٹر نوید کے ہمراہ اساتذہ اُور طلبہ کو حالیہ میٹرک اُور انٹرمیڈیٹ درجات کے بورڈ امتحانات میں ’سو فیصدی نتائج‘ پر مبارکباد دی۔ ذہن نشین رہے کہ برن ہال کی 57 طالبات نے ’اے پلس گریڈ‘ جبکہ 32 طالبات1000 سے زیادہ نمبر حاصل کئے ہیں۔ یوم والدین کے موقع پر سکول و کالج میں زیرتعلیم طلبہ کے تمام والدین کو مدعو نہیں کیا گیا جبکہ مساوی فیسیں اُور واجبات (تعلیمی اخراجات) ادا کرنے والے والدین بھی اِس عزت افزائی کے مستحق تھے۔ برن ہال انتظامیہ اگر تعلیم کے ذریعے‘ اب بھی‘ امتیازات اُور تعصبات ختم کرنے کا عزم رکھتی ہے تو ’یوم والدین‘ اُور ’یوم ستائش‘ کا الگ الگ اہتمام کرنا ہوگا۔

 ’یوم والدین‘ ایک ایسا حق ہے جس کے ذریعے سال میں صرف ایک مرتبہ والدین کی اساتذہ اُور سکول انتظامیہ سے براہ راست سال ملاقات ممکن ہوتی ہے اُور اِس موقع پر نہ صرف بچوں کی ایک سالہ کارکردگی پر تبادلہ خیال کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک ہی درجے میں زیرتعلیم بچوں کے والدین کو ایک دوسرے سے ملنے اُور بچوں کے سکول میں روئیوں و کارکردگی کے بارے میں جاننے کا موقع ملتا ہے اُور جن تقاریب کے اخراجات والدین سے وصول کئے جاتے ہیں لیکن اگر والدین اُن میں شریک نہیں تو یہ خوش ذائقہ پکوان نہیں۔ ”اے اہل نظر‘ ذوق ِنظر خوب ہے لیکن .... جو شے کی حقیقت کو نہ سمجھے وہ ہنر کیا (علامہ اقبالؒ)۔“

.... 

Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated Nov 16, 2021




No comments:

Post a Comment