ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی : اِرتقا کا شعور
شاعر سیاسچدیو نے کہا تھا ”پہلے ہوتا اگر شعور اِتنا .... شیشہ¿ دل نہ ہوتا چور اِتنا۔“ شعور کی منازل لاشعوری طور پر طے ہونا ممکن نہیں ہوتیں بلکہ اِس کے لئے دل و جان لگا کر بے لوث محنت کرنا پڑتی ہے اُور ہمارے ہاں سیاست اُور بالخصوص اِنتخابی سیاست کا مسئلہ یہ ہے کہ اِس میں ماضی کے واقعات یا اِداروں کی کارکردگی کا اِحتساب نہیں ہوتا اُور یوں ہر انتخاب کے بعد وہ تمام غلطیاں دہرائی جاتی ہیں‘ جن کی وجہ سے سیاست و انتخابات دونوں ’ناکام تجربات‘ ثابت ہو رہے ہیں اُور اِن سے مسائل کا حل نہیں بلکہ مسائل کی شدت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
پہلا منظرنامہ: بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں اُمیدواروں اُور سیاسی جماعتوں کی ’تشہیری مہمات‘ سے پشاور کے گلی کوچے اُور بازار سجے ہوئے ہیں۔ ’الیکشن کمیشن‘ کی جانب سے تشہیری مواد سے متعلق وضع کردہ قواعد کی کھلم کھلا خلاف ورزی کے علاو¿ہ اشتہارات آویزاں کرنے کے لئے جس بھیڑ چال کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے اُس سے عام انتخابات کی روح اُور پشاور کی خوبصورتی دونوں متاثر ہیں۔ لائق توجہ ہے کہ وہ بلدیاتی اُمیدوار جو اپنی تشہیر پر لاکھوں روپے خرچ کرنے کی مالی سکت رکھتے ہیں اُور وہ بلدیاتی اُمیدوار جو تشہیر کا جواب تشہیر سے نہیں دے سکتے دونوں کے درمیان ہونے والا انتخابی مقابلہ کس طرح برابری کی بنیاد پر ہو سکتا ہے اُور کس طرح بلدیاتی انتخابات کے جاری مراحل کو منصفانہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ ایک طرف سیاسی جماعتیں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں روپے خرچ کر رہی ہیں اُور پیسہ پانی کی طرح بے قدری سے بہایا جا رہا ہے لیکن دوسری طرف ایک عام انتخابی اُمیدوار جو اپنے حلقے کی خدمت کرنے کا جذبہ بھی رکھتا ہے اُور چاہتا ہے کہ متعلقہ شہر یا علاقے کی خدمت کا حق ادا کرے لیکن اُسے اپنا پیغام انفرادی حیثیت میں گھر گھر پہنچانے کی سہولت میسر نہیں۔ عام اِنتخابات کی ”شفافیت“ کے لئے ضروری تھا کہ الیکشن کمیشن ’بے لگام تشہیری مہمات‘ کا نوٹس لیتا۔
دوسرا منظرنامہ: پشاور میں بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں ہونے والے ”تشہیری بے قاعدگیوں“ کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ محکمہ¿ آثار قدیمہ کو بھی اِس بے قاعدگی کا نوٹس لینا چاہئے کہ انتخابی اُمیدوار اپنے پیغامات یا سیاسی جماعتیں اپنے انتخابی منشورات و اعلانات آویزاں کرنے کے لئے فصیل شہر اُور پشاور کے دروازوں کا استعمال کر رہی ہیں جبکہ آثار قدیمہ کے قوانین و قواعد کے مطابق کوئی بھی شخص یا اِدارہ اپنے اعلانات فصیل شہر یا پشاور کے دروازوں پر آویزاں نہیں کر سکتا۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ جنوب مشرق ایشیا کا قدیم ترین اُور زندہ تاریخی شہر ہے جہاں زندگی کے آثار 539 قبل مسیح سے ملتے ہیں اُور تاریخ دانوں کا بھی اِس بات پر اتفاق ہے کہ پشاور سے قبل قائم ہونے والے شہر اب کھنڈرات میں تبدیل ہو چکے ہیں لیکن یہ شہر ڈھائی ہزار سال سے زائد عرصے سے آباد ہے۔ مختلف ادوار میں پشاور کو حملہ آوروں اُور جرائم پیشہ عناصر سے محفوظ رکھنے کے لئے یہاں 16 دروازے قائم کئے گئے تھے جن کے نقوش وقت کے ساتھ مٹتے چلے گئے لیکن پشاور کی تاریخی حیثیت کا ادارک کرتے ہوئے اِن دروازوں کو عجلت میں دوبارہ تعمیر کیا گیا اُور اب یہ سبھی دروازے انتخابی اُمیدواروں کی تشہیر کے لئے استعمال ہو رہے ہیں۔ اگر متعلقہ بلدیاتی ادارہ اِس بات کا نوٹس نہیں لے رہا تو آثار قدیمہ کو اِس جانب توجہ دلانی چاہئے۔ جن انتخابی اُمیدواروں کو پشاور کی تاریخی و سیاحتی حیثیت کا علم یا ادراک نہیں اُور وہ اِس کے عملی تقاضوں کو نبھانے کا شعور نہیں رکھتے‘ اُن سے کس طرح اِس بات کی اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ وہ پشاور کو اُجاگر کرنے یا اِس دیرینہ مسائل کے حل میں کافی و کامیاب ثابت ہوں گے!؟
تیسرا منظرنامہ: بلدیاتی انتخابات کی تیاریوں پر اُٹھنے والے اخراجات یعنی صرف ’قیمت (price-tag)‘ ہی باعث تشویش نہیں بلکہ ضلع پشاور میں بلدیاتی انتخابات کی پولنگ کے لئے 2 روز کے لئے تعلیمی سرگرمیاں بھی معطل رہیں گی یعنی 2 روز (اٹھارہ اُور اُنیس دسمبر دوہزاراکیس) پشاور سمیت 9 اضلاع میں صرف اِس وجہ سے نجی و سرکاری تعلیمی ادارے بند رہیں گے کیونکہ بالخصوص سرکاری سکولوں کی عمارت اُور وسائل کو ’پولنگ مراکز‘ کے لئے استعمال کیا جائے گا اُور اِس سلسلے میں جاری ہونے والے اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ تعلیمی اداروں کو ”عوام کے (وسیع تر) مفاد میں بند کیا جا رہا ہے۔“ سمجھ سے بالاتر ہے کہ تعلیمی سرگرمیاں معطل کرنا ”عوام کا وسیع ترمفاد“ کس طرح ہو سکتا ہے! عوامی مفاد تو یہ ہے کہ تعلیم کا سلسلہ بلاتعطل جاری رہے۔ کورونا وبا کی وجہ سے ہونے والا تعلیمی حرج پورا کیا جائے اُور اِس مقصد کے لئے نہ صرف تعطیل کے روز بھی تعلیمی اِدارے کھلے رکھے جائیں بلکہ اِنفارمیشن ٹیکنالوجی پر انحصار کرتے ہوئے آن لائن تدریسی وسائل کا زیادہ سے زیادہ استفادہ عام ہونا چاہئے کیونکہ آج کے دور میں اگر کسی ایک چیز کی اہمیت ہے تو وہ علم اُور خواندگی (عوامی شعور میں اضافہ) ہے جبکہ یہ دونوں امور عوامی نمائندوں کی ترجیحات میں سرفہرست ہونے چاہیئں۔ قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کے لئے جاپان کی مثال پیش ِخدمت ہے جہاں ایک مرحلے پر جب کورونا وبا کو مدنظر رکھتے ہوئے تعلیمی اداروں کو دنیا کے دیگر ممالک کی طرح بند کرنے کی تجویز پیش کی گئی تو اگست دوہزار اکیس میں وفاقی وزیر تعلیم کوئچی ہاگودا (Koichi Hagiuda) نے تعلیمی ادارے کسی بھی صورت بند نہ کرنے اِعلان کیا اُور کہا کہ ”حکومت کسی بھی درجے کے تعلیمی اِدارے (ثانوی‘ بنیادی اُور ہائی سکولز) بند نہیں کرے گی بلکہ وبا کا مقابلہ حفاظتی انتظامات سے کیا جائے گا۔“ اِس سے قبل جب جاپان میں ایک جوہری بجلی گھر سے خارج ہونے والی تابکاری سے متاثرہ علاقوں سے لوگوں نے نقل مکانی کی تو حکومت نے کھیلوں کے میدان (فٹ بال گراؤنڈز) کو سکولوں میں تبدیل کر دیا تاکہ ہنگامی حالات کی وجہ سے تعلیمی سرگرمیوں کا حرج نہ ہو۔ دنیا نے دیکھا کہ جاپان نے عوامی شعور میں اضافے اُور قواعدوضوابط (SOPs) پر سختی سے عمل درآمد کے ذریعے کورونا وبا پر قابو پایا اُور اپنی اِس کوشش میں وہ کامیاب رہے۔ اگر عوام کی نمائندگی کے لئے خود کو ’اہل‘ سمجھنے اُور اپنے آپ کو سماجی خدمات کے لئے رضاکارانہ طور پر پیش کرنے والے صرف اِس ایک بات کا فیصلہ کر لیں کہ وہ آئندہ کسی بھی صورت تعلیمی سرگرمیوں کو متاثر ہونے نہیں دیں گے اُور مصمم ارادے کے ساتھ عہد کریں کہ اپنی سیاسی و انتخابی سرگرمیوں کو تعلیمی بندوبست اُور معمولات پر اثرانداز نہیں ہونے دیں گے تو اِس کے ثمرات معاشرے میں شعور اُور احساس ذمہ داری (civic-sense) کی صورت پھیلتے چلیں جائیں گے۔ اِس مرحلہ¿ فکر پر عام آدمی کو بھی مطالبہ کرنا چاہئے اُور اِس بات پر احتجاج ضروری ہے کہ سیاسی یا انتخابی سرگرمیوں کے لئے تعلیمی اداروں کی بندش نامنظور ہے تو سیاسی جماعتیں اُور آزاد اُمیدوار اِس ترمیم و اصلاح کو اپنے اپنے انتخابی منشور کا جز بنا لیں گے۔ ضروری نہیں ہوتا کہ ہر اصلاح و تبدیلی کے لئے مالی وسائل (ترقیاتی فنڈز) درکار ہوں بلکہ بہت سارے کام عوامی شعور میں اضافے سے بھی عملاً ممکن بنائے جا سکتے ہیں۔ ”اِسی میں ذات کا ادراک‘ اِرتقا کا شعور .... مری نظر میں محبت ہے‘ انتہاءکا شعور (شاہد فیروز)۔“
....
No comments:
Post a Comment