ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
سیاسی نقل مکانی
پشاور میں رونما ہونے والی سیاسی تبدیلیوں اُور متعلقہ رجحانات کا اثر خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع تک ’جنگل کی آگ‘ کی طرح پھیلتا چلا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ضلعی باجوڑ (قبائلی پٹی) سے تعلق رکھنے والے ملک کے سیاسی و مالی طور پر انتہائی بااثر ”بلور خاندان“ کے ایک اہم سپوت (ستون) کی ’تحریک انصاف‘ میں شمولیت کو غیرمعمولی سیاسی پیشرفت کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔ اِس سے زیادہ غیرمتوقع پیشرفت ’بلور خاندان‘ کی جانب سے فوری ردعمل میں افسوس کا اظہار ہے حالانکہ عموماً ایسے مواقعوں پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے اُور ’بلاتبصرہ‘ کہہ کر سوالات کو ہنسی مذاق میں اُڑا دیا جاتا ہے لیکن جس انداز میں انتہائی سنجیدہ اُور ذمہ دارانہ ردعمل کا اظہار سامنے آیا ہے اُس پر تحریک انصاف کے کچھ حلقوں میں تشویش بھی پائی جاتی ہے اُور وہ اِسے بلور خاندان کی سوچی سمجھی حکمت عملی کا حصہ قرار دے رہے ہیں کہ ایک نسبتاً کمزور مہرے کو آگے بڑھاتے ہوئے ”ولی باغ“ کو یہ پیغام دیا گیا ہے کہ .... ”اگر عوامی نیشنل پارٹی کے فیصلہ سازوں نے پشاور سے متعلق بلور خاندان کی رائے کو خاطرخواہ اہمیت نہ دینے سے رجوع نہ کیا تو آئندہ انتخابات میں یہ پورا خاندان ”سیاسی نقل مکانی“ کر سکتا ہے اُور اِس پر کم سے کم تحریک انصاف کے دروازے بند نہیں ہیں۔“ دس دسمبر سے جاری ہونے والا بلور خاندان کا ہر ردعمل ”تعجب کے اظہار سے شروع اُور صدمے کے اظہار پر ختم“ ہو رہا ہے جبکہ کسی بھی فریق کی جانب سے پوری بات بیان (حقیقت) نہیں کی جا رہی! بلور خاندان کے کسی ایک فرد کے ’عوامی نیشنل پارٹی‘ سے لاتعلقی کا اعلان درحقیقت اِس لئے بھی بڑی خبر ہے کیونکہ یہ عین اُس وقت وقوع پذیر ہوئی ہے جبکہ 19 دسمبر کے روز ہونے والی پولنگ میں عوامی نیشنل پارٹی کے نامزد بلدیاتی اُمیدواروں کا ’ٹاکرا‘ براہ راست تحریک انصاف سے پڑنے والا ہے جس کی تیاریوں میں پشاور کو رنگ برنگے پوسٹروں سے سجا دیا گیا ہے۔
اہل پشاور نے کبھی بھی بلدیاتی انتخابات کی اِس قدر تیاریاں نہیں دیکھیں جس میں پیسہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ گلی محلے‘ کوچہ و بازار اُور بڑی شاہراؤں پر ضلع کے کونے سے دوسرے کونے تک پارٹی پرچموں لہرا رہے ہیں جبکہ الیکشن کمیشن کی جانب سے بلدیاتی انتخابی اُمیدواروں کو جاری کردہ ضابطہ اخلاق کو بھی خاطر میں نہیں لایا جا رہا! صورتحال یہ ہے کہ پشاور کا اصل مقابلہ ’میئر شپ (ضلع ناظم)‘ کے لئے ہے اُور اِسی مقابلے کے لئے 17 اُمیدوار ایک دوسرے کی عوامی مقبولیت کو چیلنج کر رہے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ میئرشپ کی اِس دوڑ میں 9 اُمیدوار آزاد جبکہ 8 اُمیدوار مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے نامزد ہیں تاہم پولنگ کی تاریخ (اُنیس دسمبر) قریب آتے ہی مرکزی کردار پیپلزپارٹی پارلیمینٹرنز‘ جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام (ف)‘ تحریک انصاف‘ مسلم لیگ (نواز) اُور عوامی نیشنل پارٹی زیادہ سے زیادہ اُمیدواروں کی حمایت حاصل کرنے کے لئے کوشاں ہیں کیونکہ یہی بلدیاتی انتخابات (طبل جنگ) آئندہ عام انتخابات کی تیاری بھی ہیں اُور ہر سیاسی جماعت اپنے اپنے انتخابی تجربے کو نئے سیاسی حالات میں آزمانے جا رہی ہے۔
پشاور کی سیاست میں بلور خاندان کی رونمائی 1965ءکے صدراتی انتخابات کے موقع پر ہوئی۔ جس کے بعد اُنہوں نے اپنے نظریات سے قریب ترین یعنی قوم پرستی کی سیاست کا انتخاب کیا جو اُس وقت مشکل فیصلہ تھا کیونکہ قوم پرستی پشاور کے اطراف بالخصوص دیہی علاقوں میں تو مقبول تھی جبکہ پشاور شہر اُور اِس کے قریب اُور دور دراز علاقوں میں بھی مسلم لیگ اُور بعدازاں پیپلزپارٹی مقبول رہی ۔ 70ءکی دہائی میں بلور خاندان نے عوامی نیشنل پارٹی میں شمولیت اختیار کی۔ 1975ءمیں ایوان بالا کی رکنیت حاصل کی اُور پھر اِس کے بعد مڑ کر نہیں دیکھا۔ سیاست اُور انتخابات میں ہر کامیابی اِس خاندان کے حصے میں آتی رہی اُور جس انتخابی اُمیدوار کے نام کے ساتھ ”بلور“ لکھا ہوتا اُس کی انتخابی کامیابی یقینی ہوتی تھی لیکن سیاست کے ترازو کا جو پلڑہ چار دہائیوں تک بلور خاندان کے حق میں رہا‘ اُسے روائتی حریفوں نواز لیگ یا پیپلزپارٹی نے نہیں بلکہ تحریک انصاف نے اپنے حق میں کیا کیونکہ بلور خاندان کے ذاتی تعلقات اُور سیاست میں سرمایہ کاری پر یقین کے باعث قومی سیاسی جماعتیں پشاور سے متعلق اپنے فیصلوں کی منظوری بھی ’بلور ہاؤس‘ کی رضامندی سے مشروط رکھے رہیں اُور ایسا ہونے کی بنیادی وجہ پاکستان کا وہ ’سیاسی بندوبست‘ ہے جس میں تحریک انصاف سے قبل قومی وسائل اُور ووٹ بینک کی تقسیم سوچی سمجھی رہی ہے۔
اہل پشاور کو دیکھنا اُور سیاسی و انتخابی تاریخ پر نظر رکھنی چاہئے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے موقع پر جو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف اُمیدوار نامزد کئے ہوئے ہیں ماضی میں یہی ایک دوسرے کے اتحادی رہے اُور اب بھی قومی سطح پر اتحادی ہیں لیکن اہل پشاور کو کم علم سمجھتے ہوئے اِس مرتبہ الگ الگ چہرے‘ اپنی اپنی حیثیت میں ووٹ مانگ رہے ہیں! ”اِس سفر کا چہرہ چہرہ آئنہ والا لگا .... چل پڑا تو مجھ کو سارا راستہ دیکھا لگا (قوس صدیقی)۔“
پشاور کی سیاست میں موروثیت کا عمل دخل اُور خاندانوں کی اجارہ داری کے لئے کوئی ایک خاندان نہیں بلکہ قریب سبھی سیاسی جماعتیں یکساں ملوث ہیں۔ حتیٰ کہ تحریک انصاف کے کئی رہنما بھی ایسے ہیں کہ جنہیں قومی و صوبائی اسمبلیوں اُور سینیٹ کی نشستوں کے لئے سوائے اپنے عزیزواقارب کے علاؤہ کوئی دوسرا کارکن ”اہل“ دکھائی نہیں دیا۔ جاری انتخابی مہمات میں کئی حلقے ایسے ہیں جہاں تحریک انصاف کا مقابلہ خود اپنی ہی جماعت کے کارکنوں سے ہے جبکہ دیگر حلقوں میں بھی تحریک انصاف کے نامزد اُمیدواروں کے لئے درد سر اُن کے اپنے ہی رفقا بنے ہوئے ہیں۔ انتہائی ضروری تھا کہ بلدیاتی انتخابات سے قبل تحریک انصاف ضلعی اُور صوبائی تنظیم سازی پر توجہ دیتی اُور کسی حکمراں جماعت کے لئے یہ کام کرنا زیادہ آسان ہوتا ہے کہ وہ سرکاری وسائل کا استعمال کر سکتی ہے جیسا کہ اگر خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والے کارکنوں کا صوبائی اجتماع کروایا جائے یا طلبہ شاخوں (سٹوڈنٹس یونین) کا الگ سے صوبائی کنونشن منعقد ہو اُور اِسی طرح خواتین ونگ کا صوبائی کنونشن اُور آن لائن و دیگر روائتی ذرائع سے بروقت تنظیم سازی مہمات شروع کی جاتیں‘ جن کی جانب اِن سطور کی جانب بارہا توجہ دلائی جاتی رہی تو آج صورتحال قطعی مختلف ہوتی۔ حالیہ بلدیاتی انتخابات کے سلسلے میں سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ کسی ایک شخصیت کے آنے یا جانے سے متاثر نہیں ہوگا لیکن اصل مرحلہ آئندہ قومی انتخابات ہیں جس کا طبل جنگ بج چکا ہے اُور 2018ءکے انتخابات میں پشاور سے عوامی نیشنل پارٹی کے ٹکٹ پر الیکشن لڑنے والے غضنفر بلور جنہوں نے ساڑھے تین ہزار سے زیادہ ووٹ لئے تھے اُور جن کی شخصیت سیاست سے زیادہ کاروباری و صنعتکار حلقوں میں زیادہ فعال و مقبول ہے تحریک انصاف کے لئے انتہائی مفید (کارآمد) ثابت ہو سکتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ جماعتی سیاست کسی ایک رکن کے اخراج سے ختم نہیں ہوتی لیکن جماعتی سیاست میں کسی ایک رکن کی شمولیت معنی خیز اُور نتیجہ خیز ثابت ہوتی ہے کیونکہ نئے جذبے سے شمولیت کرنے والے دیگر کارکنوں کا حوصلے بلند کرنے کا باعث بھی بنتے ہیں اُور اپنے حلقہ ارباب یا اثرورسوخ بھی اُن کے شانہ بشانہ ایک نئے سفر پر چل نکلتا ہے۔ تحریک انصاف مبارکباد کی مستحق ہے کہ اُس کی قیادت اپنی ساری توجہ صرف اُور صرف بلدیاتی انتخابات ہی پر مرکوز کئے ہوئے نہیں بلکہ وہ بیک وقت مختلف محاذوں پر ڈٹ کر روائتی اُور موروثی سیاست کا مقابلہ کر رہی ہے‘ بس اِس تگ و دو میں‘ یہ بنیادی بات فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ پشاور سے تحریک ِانصاف کے کارکن پہلے سے زیادہ تقسیم اُور پارٹی کی صوبائی قیادت سے زیادہ ناراض ہیں۔ اُن کے گلے شکوے سننے کا اہتمام نہیں۔ اِی گورننس سے سیاست نظم و نسق کو بھی درست کیا جا سکتا ہے۔ ہر رکن کے کوائف (پروفائل) بمعہ تعلیمی قابلیت‘ تجربہ اُور اہلیت کے بارے اگر اعدادوشمار دستیاب ہوں گے تو آئندہ انتخابات کے لئے نامزدگیاں کرنے کا عمل شفاف و آسان ہوگا۔ تجویز ہے کہ ”سٹیزن پورٹل“ کی طرح کارکنوں کی شکایات درج کرانے کے لئے ”آواز موبائل ایپ“ کا اجرا کیا جائے‘ جہاں آئندہ پارٹی ٹکٹ اجرا¿ سے قبل رجسٹرڈ کارکنوں کی رائے (ووٹنگ) کی بنیاد پر نامزدگیوں سے متعلق فیصلہ ہو اُور اِسی ’اِی گورننس‘ کا ثمر یہ بھی ہوگا کہ پیراشوٹ سے اُترنے والے کردار (جو سازش بھی ہو سکتی ہے) پارٹی نامزدگیوں سے متعلق فیصلہ سازی کو ’ہائی جیک‘ نہیں کر سکیں گے۔ تحریک انصاف کو پہلے سے زیادہ ہوشیار رہتے ہوئے سیاسی مخالفین کو بیوقوف سمجھنے کی روش ترک کرنا ہوگی۔
....
No comments:
Post a Comment