ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
سیاسی اَخلاقیات
اخلاق کا نچوڑ یہ ہے کہ ’جھوٹ‘ غیبت یا تہمت‘ سے گریز کیا جائے۔ بقول آتش بہاولپوری ”یہ ساری باتیں درحقیقت ہمارے اخلاق کے منافی .... سُنیں بُرائی نہ ہم کسی کی‘ نہ خود کسی کو بُرا کہیں ہم۔“ اِس تمہید اُور نتیجہ¿ خیال کو ذہن میں رکھتے ہوئے خبر ملاحظہ کیجئے کہ ”تحریک ِانصاف نے کارکنوں کی ”اخلاقی تربیت“ کا فیصلہ کیا ہے“ جو پاکستان کی کسی بھی سیاسی جماعت کی جانب سے اپنی نوعیت کا منفرد (انوکھا اُور ناقابل یقین) اقدام ہے اُور یقینا اِس بات (کوشش) کی ایک عرصے سے ضرورت محسوس کی جا رہی تھی۔ اِس مرحلہ فکر پر 2 باتیں اہم ہیں۔ سیاست سماج کی عکاس ہے تو کیا صرف سیاسی کارکنوں ہی کو اخلاقی تربیت کی ضرورت ہے یا معاشرے کی ہر سطح پر رہنما و قائدین سمیت ہر سطح پر عوام الناس کو تربیتی مراحل و ماحول سے گزرنا چاہئے۔ اِس ضرورت کو ذہن میں رکھتے ہوئے پنجگانہ اُور ہفتہ وار نماز کے اجتماعات کی تاکید و اہمیت کی مقصدیت و جامعیت پر غور ضروری ہے اُور دوسری بات یہ ہے کہ سیاسی جماعتیں جو ایک دوسرے کی ٹوہ میں عموماً بھیڑ چال کا مظاہرہ کرتی ہیں کیا ’تحریک انصاف‘ کی دیکھا دیکھی کارکنوں کی اخلاقی تربیت کا اہتمام کریں گی یا اُنہیں بھی ایسا کرنا چاہئے؟
اہل الرائے سے الگ ’سیاسی اَخلاقیات‘ کے بارے میں عمومی تاثر یہی ہے کہ سیاست کی کوئی اخلاقیات نہیں ہوتی اُور اِس سلسلے میں بطور حوالہ اِس محاورے کا ذکر کیا جاتا ہے کہ ”محبت نفرت اُور سیاست میں سب جائز ہوتا ہے۔“ جہاں سیاست اَخلاق کے تابع ہو گئی وہاں اِس کا وجود ہی خطرے میں پڑ جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ سیاست میں ایک خاص قسم کی بودوباش رکھنے والے طبقات سرگرم دکھائی دیتے ہیں‘ جن کے مدمقابل وہی ہوتے ہیں جو اِن جیسی سوچ یا عمل پر یقین رکھنے کی ذہنیت اُور صلاحیت کے حامل ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ قومی سیاست سے قوم پرستی تک موروثیت حاوی دکھائی دیتی ہے جو درحقیقت سیاسی اخلاقیات کے بارے میں قومی سطح پر بحث و مباحثہ نہ ہونے کی وجہ سے در آئی اخلاقی انحطاط کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بہرحال سیاسی اخلاقیات کی ضرورت اُور تذکرہ کرتے ہوئے بالخصوص اُور عموماً صرف ’عام سیاسی کارکنوں‘ کا تذکرہ کیا جاتا ہے جبکہ سیاست و اخلاقیات الگ الگ موضوعات ہیں اُور اُنہیں سیاست بطور پیشہ اختیار کرنے والوں سے زیادہ عام آدمی کو سمجھنا چاہئے تاکہ وہ کسی سیاسی جماعت کی حمایت یا مخالفت اُور بالخصوص اپنا حق ِرائے دہی استعمال کرتے وقت ”درست“ فیصلہ کر سکے۔ ”ہم لوگ تو اَخلاق بھی رکھ آئے تھے ساحل .... ردی کے اُسی ڈھیر میں آداب پڑے تھے (خالد ملک ساحل)۔“
لفظ ’سیاست‘ کا لغوی مطلب فریقین کو ایک دوسرے کے قریب لانا یا قومی‘ صوبائی اُور علاقائی سطح پر پائے جانے والے اختلافات ختم یا اِنہیں کم کرنے یا ایسا ماحول پیدا کرنا ہے کہ جس میں اختلافات سرے سے پیدا ہی نہ ہوں۔ سیاست کے بعد دوسری اصطلاح ”اَخلاق“ کے تقاضے سمجھنے کی ہے جو زیادہ وسیع المعانی موضوع ہے۔ اَخلاق کا مادہ(خ‘ل‘ق) ہے اگر لفظ ”خ“ کے اُوپر زَبر پڑھیں یعنی خَلق تو اِس کے معنی ظاہری شکل وصورت ہوں گے اور اگر ”خ“ پر پیش پڑھیں یعنی ”خُلق“ تو اِس کا مطلب باطنی اور داخلی ونفسانی شکل وصورت کے ہوں گے مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہے کہ فلاں انسان خُلق و خَلق دونوں اعتبار سے نیک ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس کی ظاہری صورت اور باطنی حالت دونوں اچھے ہیں۔ خُلق ”نفسانی ملکہ“ ہے جو کسی انسان کے بغیر فکرو تامل اور غور و خوض کے اُس کے معمولات پر حاوی نظر آئے یعنی نفسانی کنٹرول کے ذریعہ سرانجام دیئے جانے والے اعمال کو خُلق کہا جاتا ہے۔ معلوم ہوا کہ ”خَلق“ اُور ”خُلق“ دراصل ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں لیکن خَلق مخصوص ہے ظاہری شکل وصورت سے اور خُلق باطنی اور معنوی شکل وصورت کے لئے مخصوص ہے۔ اِسی طرح ”اَخلاق“ علم کا درجہ بھی رکھتا ہے اُور یہ ایک پیمانہ بھی ہے جس کے ذریعے کسی اِنسان کی فضیلت اُور رذیلت کی پہچان ہوتی ہے یعنی یہ اخلاق رہنمائی کا فریضہ سرانجام دیتا ہے کہ کون سا کام اچھا اُور کون سا کام بُرا ہے اُور علم کی یہی شاخ ”علمُ اَلاخلاق“ کہلاتی ہے۔ عربی لغت کے اعتبار سے اخلاق ”افعال“ کے وزن پر ہے یعنی اخلاق صرف باتوں سے ظاہر یا باتوں کا مجموعہ نہیں ہوتا بلکہ لازماً عمل سے ظاہر ہونا چاہئے جبکہ ”خُلق“ اِس کی جمع ہے جو انسان کی نفسانی خصوصیات کا عکاس ہوتا ہے بالکل اسی طرح جیسے خَلق جو کسی انسان کی ”بدنی صفات“ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔
عام آدمی (ہم عوام) اُور ’ٹائیگرز فورس‘ کہلانے والے کارکنوں کی بھی انتہائی مختصر تعداد کو اِس بات کا علم ہوگا کہ تحریک انصاف میں ’تعلیم و تربیت‘ کا خصوصی شعبہ (اِیجوکیشن ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ) موجود ہے۔ اِس شعبے کے ڈپٹی جنرل سیکرٹری (سنٹرل) اعجاز بٹ نے پشاور کے ایوان ِصحافت میں ’پریس کانفرنس (دس دسمبر دوہزاراکیس)‘ کے دوران کہا کہ ”پارٹی کارکنوں کو اخلاقیات سکھانا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ خدمات کی فراہمی میں یہ ’ورکرز‘ بہتر اَنداز میں اپنا موقف پیش کر سکیں کیونکہ موجودہ دور میں بہتر کارکردگی اور گڈ گورننس (اچھے طرزحکمرانی) کے لئے اَخلاقیات کا ہونا بہت ضروری ہے۔“ اِس ضرورت و حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ صرف سیاست ہی نہیں بلکہ ہر شعبہ زندگی پر ’اَخلاقیات‘ حاوی ہونے چاہیئں اُور ’جامع اَخلاقیات‘ کا بہترین و عملی نمونہ پیغمبر اِسلام‘ ختمی مرتبت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہے جن کے اَخلاق بارے گواہی قرآن مجید کی 68ویں سورہ قلم کی چوتھی آیت مبارکہ میں اِن الفاظ کے ساتھ دی گئی ہے۔ ”وَ اِنَکَّ لَعَلیٰ خلقٍ عَظِیمٍ (ترجمہ) اُور بیشک آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عظیم الشان اَخلاق پر قائم ہیں۔“ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”اللہ تعالیٰ نے اَخلاق کے درجات مکمل کرنے اور اچھے اعمال کے کمالات پورے کرنے کے لئے مجھ کو بھیجا۔“ تو جس ملت کے پاس قرآن حکیم و مجید جیسی مستند کتاب موجود ہو اُور جسے ’خلق عظیم‘ کی اُمت ہونے کا شرف حاصل ہو‘ اُس کے لئے خَلق و خُلق کا کوئی دوسرا نمونہ باعث ِسرخروی نہیں ہو سکتا۔ اخلاقیات کی تربیت صرف سیاست ہی میں نہیں بلکہ زندگی کے ہر شعبے اُور بالخصوص ”باب الاخلاق“ ہر درجے کی نصاب ِتعلیم کا ’مستقل حصہ‘ ہونا چاہئے یعنی درجہ اوّل سے درجہ آخر تک اَخلاق کے مختلف پہلوؤں کے بارے اسباق ’اخلاقیات‘ کے مختلف پہلوؤں کو کھول کھول کر بیان کریں اُور صرف یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعے سماج کی گاڑی اخلاقیات کی پٹڑی پر رواں دواں ہو سکتی ہیں۔”اَخلاق کے عنصر ہوں اگر اصل مزاج .... جو قوم ہو کبھی نہ محتاج ِعلاج (عبدالغفور شہباز)۔“
Clipping from Daily Aaj Peshawar / Abbottabad dated 12 December 2021 |
No comments:
Post a Comment