Friday, December 10, 2021

Price tag & Medical Education in Khyber Pukhtunkhwa

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

طب کی تعلیم: پریشانیاں مقدر کیوں؟

خیبرپختونخوا کے سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی شرح فیس میں اضافے پر والدین اُور نئے تعلیمی سال (دوہزاربائیس میں) داخلوں کے خواہشمند طلبہ پریشان ہیں‘ جن کے لئے فیسوں میں اِس اچانک اضافے کا فیصلہ غیرمنطقی اُور ناقابل یقین ہے۔ ایک نکتہ نظر یہ بھی ہے کہ اگر طب (میڈیکل و ڈینٹل) کی تعلیم مہنگی کی جائے گی تو پاکستان کی آبادی کے تناسب سے درکار ڈاکٹروں کی کمی کیسے پوری ہوگی؟ یہ بالکل ویسی ہی صورتحال ہے کہ قومی فیصلہ ساز پاکستان کو ”ایک زرعی ملک“ تو قرار دیتے ہیں لیکن بنیادی ضروریات کی زرعی اجناس جیسا کہ ٹماٹر‘ پیاز‘ لہسن‘ ادرک‘ آلو‘ دالیں اُور خشک چائے کی پتی درآمد کی جاتی ہے تو کیا پاکستان کے فیصلہ سازوں نے بھی تیاری کر رکھی ہے کہ ملک میں ڈاکٹروں کی مقامی تیاری کے عمل کو مہنگا کر دیا جائے تاکہ ذہانت و اہلیت کے باوجود متوسط اُور غریب طبقات سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر نہ بن سکیں اُور دوسرا ڈاکٹروں کی کمی سرمایہ دار عرب خلیجی و یورپی ممالک کی طرح افرادی قوت کو درآمد کرنے سے پوری کی جائے؟ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں ہر ایک ہزار لوگوں کے لئے 0.473 ڈاکٹر دستیاب ہیں جبکہ عالمی معیار کے مطابق آبادی کے تناسب سے اگر ڈاکٹروں کی تعداد پوری نہ بھی کی جائے تب بھی پاکستان کو قریب ساٹھ ہزار ڈاکٹروں کی کمی کا سامنا ہے۔ ڈاکٹروں کی یہ کمی اِس لئے بھی ہے کہ طب کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹروں کے لئے سرکاری ملازمتیں اُور طب ہی کے شعبے میں مزید تربیت کے مواقع خاطرخواہ دستیاب نہیں ہیں‘ جن کی وجہ سے ذہین اُور تعلیم یافتہ نوجوان بہتر تعلیمی و معاشی مستقبل کے لئے بیرون ملک موجود مواقعوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ اصطلاحی طور پر اِسے ’برین ڈرین (ذہانت کی نقل مکانی)‘ قرار دیا جاتا ہے اُور ترقی پذیر ممالک اگر اپنے ہاں علاج معالجے کی خاطرخواہ سہولیات کی فراہمی نہیں کر پا رہیں تو اِس کی ایک وجہ یہی ’برین ڈرین‘ بھی ہے! دوسرا لائق توجہ پہلو یہ ہے کہ جب پاکستان میں طب کی تعلیم کو مہنگا اُور اِس تعلیم کی سرکاری سرپرستی میں کمی کی جائے گی تو طلبہ کی بڑی تعداد خطے بیرون ملک طب کی تعلیم حاصل کرنے جائیں گے‘ جہاں پاکستان کے مقابلے مالی لاگت کم اُور معیار تعلیم بہتر ہے اُور یوں پاکستان سے قیمتی زرمبادلہ بیرون ملک بالخصوص وسط ایشیائی ریاستوں‘ ترکی‘ یورپی ممالک اُور چین منتقل ہو جائے گا اُور یہ سلسلہ فی الوقت بھی جاری ہے۔

سرکاری تعلیمی اداروں میں داخلے کے خواہشمند اُور زیرتعلیم والدین کی جانب سے صحافیوں کو ارسال کئے جانے والے برقی مکتوبات (اِی میلز) میں اِس جانب توجہ دلائی گئی ہے کہ ”خیبرپختونخوا کے سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجوں کی شرح فیس نجی کالجوں کے قریب لانے سے طلبہ کی ایک تعداد اہلیت کے باوجود بھی تعلیم حاصل نہیں کر سکیں گے اُور ایک تعداد مالی سکت نہ ہونے کے باعث داخلوں سے محروم رہ جائے گی۔ پریشانی اُن ملازمت پیشہ یا ریٹائرڈ والدین کو بھی ہے جن کے بچے سرکاری اداروں سے استفادہ کر رہے ہیں لیکن فیسوں میں اچانک سو گنا سے زائد اضافے نے اُنہیں پریشان کر رکھا ہے کہ مہنگائی و معاشی سست روی کے سبب آمدنی کے محدود ہوتے وسائل میں اضافی فیس کی ادائیگی کا فوری بندوبست کہاں سے کریں گے!“ ذہن نشین رہے کہ طب کی سرکاری کالجوں کی فیسوں میں اضافے اُور داخلہ قواعد میں تبدیلی کی منظوری ”صوبائی داخلہ کمیٹی“ کے اجلاس (پانچ نومبر دوہزاراکیس) میں دیا گیا جس کی صدارت صوبائی وزیرصحت و خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے کی جبکہ دیگر شرکا میں سیکرٹری ہیلتھ طاہر اورکزئی‘ چیئرمین کمیٹی و وائس چانسلر خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر ضیا الحق‘ رجسٹرار سلیم گنڈاپور‘ کنونیئر خیبرمیڈیکل یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر جواد اُور کمیٹی کے سیکرٹری و ڈپٹی ڈائریکٹر ایڈمشنز ارشد خان شامل تھے۔ مذکورہ اجلاس کی تفصیلات (منٹس آف میٹنگ) کی نقول بھی والدین کی جانب سے صحافیوں کو ارسال کی گئی ہیں جن کے مطابق ”مذکورہ نشست میں وائس چانسلر خیبر میڈیکل یونیورسٹی نے قبل ازیں کمیٹی اجلاس (24 ستمبر 2021ئ) کے فیصلوں سے اجلاس کو آگاہ کرتے ہوئے نئی داخلہ حکمت ِعملی (ایڈمشن پالیسی 2021-22ء) پیش کی جس سے صوبائی وزیرصحت و خزانہ نے اتفاق کیا اُور یوں کئے گئے فیصلوں کی روشنی میں نئے تعلیمی سال کے ساتھ ہی نئی شرح فیسیں بھی لاگو کر دی جائیں گی۔ داخلہ حکمت ِعملی پر نظرثانی کے عمل میں چار بنیادی نوعیت کے فیصلے کئے گئے۔1: اوپن میرٹ (خالصتاً اہلیت) پر داخلہ حاصل کرنے والوں کے فیس کی شرح 23 ہزار 370 روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کر دی جائے۔ 2: جنرل سیلف فنانس اُور افغان شہریت رکھنے والے اُور غیرملکی مقیم پاکستانیوں کے لئے (کٹیگری بی ٹو) کی شرح فیس جو 4 لاکھ13 ہزار 209روپے مقرر ہے اِسے بڑھا کر 8 لاکھ روپے کر دی جائے۔ 3: اُوپن میرٹ اُور سیلف فنانس کی داخلہ فیس 1 لاکھ 47 ہزار 800 روپے سے بڑھا کر 3 لاکھ روپے اُور 5 لاکھ 54 ہزار روپے سے بڑھا کر 8 لاکھ روپے کر دی جائے۔ 4: ویٹھ ایج فارمولہ کے تحت دیئے جانے والے ’ایم بی بی ایس اُور بی ڈی ایس‘ ایڈمشنز کے لئے میٹرک یا اِس کے مساوی امتحانات میں حاصل کردہ نمبروں کا 10فیصد‘ ایف ایس سی یا اِس کے مساوی امتحان کے نمبروں کا 40فیصد اُور ایم ڈی کیٹ امتحان کے حاصل کردہ کل نمبروں کا 50فیصد شمار کرتے ہوئے داخلہ اہلیت (میرٹ) بنایا جائے۔

پاکستان میں طب کی تعلیم اگرچہ مرکزی انتظام (پاکستان میڈیکل کمیشن) کے تابع فرمان ہے لیکن اِس تعلیمی نظم و نسق کے خلاف ”پہلی بغاوت“ سندھ کی صوبائی کابینہ کی جانب سے اِس فیصلے کی صورت سامنے آئی کہ سندھ کے میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجز میں ’ایم ڈی کیٹ امتحان (2021ء)‘ میں 50فیصد نمبر حاصل کرنے والوں کو بھی داخلہ دیا جائے گا جبکہ پاکستان میڈیکل کمیشن بار بار اِس بات کی وضاحت کر چکا ہے کہ ”اگر کسی بھی میڈیکل کالج نے ’ایم ڈی کیٹ‘ میں 65 فیصد سے کم نمبر حاصل کرنے والوں کو اپنے ہاں داخلہ دیا تو مرکزی ادارہ (پاکستان میڈیکل کمیشن) ایسے داخلوں کی تصدیق نہ کرتے ہوئے طلبہ کو قومی رجسٹریشن نمبر جاری نہیں کرے گا۔“ اگر طب کی تعلیم کے بنیادی نظم و نسق جو اپنی جگہ تعلیمی قابلیت و اہلیت جانچنے کا معیار بھی ہے قابل بھروسہ نہ رہا اُور کوئی ایک صوبہ اِس کے احترام کو ضروری نہیں سمجھتا تو اِس سے پیدا ہونے والی صورتحال (تنازع) مستقبل میں دیگر صوبوں میں بھی پھیل سکتا ہے جو کسی بھی صورت طب کے شعبے میں درس و تدریس اُور اِس شعبے کے مستقبل و معیار کے حوالے سے خوش آئند (اچھی خبر) نہیں ہے۔ 

توجہ طلب ہے کہ بیچلرز آف میڈیسن اینڈ بیچلرز آف سرجری (MBBS) اُور بیچلرز آف ڈینٹل سرجری (BDS) کے لئے صرف داخلہ فیسیں ہی نہیں بڑھائی گئیں بلکہ دیگر ماہانہ اُور سالانہ وصولیوں کی شرح میں بھی اضافہ کیا گیا ہے اُور والدین کے لئے صورتحال کا یہی پہلو پریشانی کا باعث ہے کیونکہ جہاں ایک طرف مہنگائی اُور کورونا وبا کی وجہ سے کاروباری سرگرمیاں محدود ہیں‘ وہیں اگر سرکاری تعلیمی اِداروں کے اخراجات بھی بڑھا دیئے جاتے ہیں تو یہ پریشان کسی بھی طرح معمولی (جائز) نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ طب (میڈیکل اینڈ ڈینٹل) تعلیم کے مواقعوں (زیرتعلیم طلبہ کی تعداد) میں اضافہ کر کے ادارہ جاتی آمدنی بڑھائی جائے اُور سرکاری و نجی اداروں کے درمیان شرح فیس کے لحاظ سے واضح فرق برقرار رکھا جائے کیونکہ سرکاری میڈیکل و ڈینٹل کالجز میں اہلیت کا جو بلند معیار مقرر ہے اگر اِس کے باوجود بھی اعلیٰ تعلیم کے لئے لاکھوں روپے درکار ہوں گے تو اِس سے سرکاری و نجی اداروں کے درمیان فرق ختم ہو جائے گا اُور صرف اہلیت ہی نہیں بلکہ اُن طلبہ کے اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے جیسے خواب کا بھی خون ہوگا‘ جس کے لئے وہ اپنی زندگی کا بہترین وقت‘ صلاحیت اُور توانائی وقف رکھتے ہیں۔ 

....





No comments:

Post a Comment