ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
.... پھر پشاور کی یاد آئی ہے
محبت غیرمشروط نہ ہو تو بے معنی ہوتی ہے۔ مقصد محبت کا انجام بن جاتا ہے اُور یہی وہ مرحلہ فکر ہے جہاں اہل پشاور کو جذبات‘ وابستگیوں اُور ذاتی‘ لسانی یا گروہی مفادات سے بالاتر ہو کر وہ فیصلے کرنا ہوں گے‘ جن کا تعلق مستقبل سے ہے۔ مرحلہ ’میئر پشاور‘ یعنی نظامت کے لئے ’درست شخصیت‘ کے انتخاب کا ہے‘ جس کے لئے حسب سابق و توفیق سیاسی جماعتیں ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی ہے۔ اِس سلسلے میں کچھ روایات دہرائی جا رہی ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کی جانب سے جاری کردہ ’اِنتخابی منشورات‘ کی صورت سامنے آئی ہیں۔ خاص بات یہ ہے کہ اِس مرتبہ مذکورہ انتخابی منشورات تحریر کرتے ہوئے زیادہ ہوشیاری سے کام لیا گیا ہے اُور تقریباً سبھی شقوں (وعدوں) کے ساتھ ’کوشش‘ کا سابقہ یا لاحقہ کسی نہ کسی صورت جوڑ دیا گیا ہے تاکہ مستقبل میں یہی منشور طعنہ نہ بن جائیں اُور چونکہ یہ دور سوشل میڈیا کا ہے اِس لئے سیاسی جماعتوں نے انتخابی منشور کا ہر لفظ سوچ سمجھ کر تحریر کیا ہے۔ یہاں ایک علمی ادبی (لطیف) نکتہ بھی پیش نظر رہے کہ عربی زبان کے لفظ ’منشور‘ کا استعمال اگر بطور اسم کیا جائے تو اِس سے مراد کتاب یا کتابچہ جبکہ بطور فعل منشور کا مطلب ’مردوں کو زندہ کر کے اٹھانے‘ یا ’(لکڑی کاٹنے کے لئے) آرا چلانے‘ کے عمل کو بیان کرے گا۔ معلوم نہیں کہ انتخابات کے موقع پر کئے جانے والے وعدوں کے لئے ’منشور‘ کا لفظ کب سے استعمال ہونے لگا جبکہ انگریزی زبان کے لفظ manifesto کے لئے اُردو ترجمہ ’محضَر‘ یا ’منادیِ عام‘ زیادہ موزوں (قریب المعانی) اصطلاحات ہیں کیونکہ قومی ہوں یا ضمنی اُور بلدیاتی انتخابات ہر سیاسی و غیرسیاسی اُمیدوار کی جانب سے جو وعدے کئے جاتے ہیں اُن کی تکمیل انتخابی کامیابی سے مشروط ہوتی ہے یعنی جب تک کوئی انتخابی اُمیدوار کامیاب نہیں ہوگا‘ اُس وقت تک وہ اپنے وعدوں کی تکمیل کے لئے ذمہ دار بھی نہیں ہوتا۔ مطلب یہ ہوا کہ جس کسی سیاسی یا غیرسیاسی انتخابی اُمیدوار نے اگر سماجی خدمت کرنی ہے تو اُس کے لئے شرط یہ رکھی گئی ہے کہ اُسے انتخابی کامیابی دلائی جائے۔ سوچئے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ سماجی خدمت بنا کسی شرط نہیں ہو سکتی یا نہیں ہونی چاہئے؟
حسن ظن یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے عام انتخابات کے موقع پر جو وعدے کئے جاتے ہیں اُنہیں کتابی (دستاویزی) صورت میں ’منشور‘ کہہ کر ایک لائحہ عمل مرتب کیا جاتا ہے‘ جس پر عمل درآمد کرنا ضروری نہیں سمجھا جاتا اُور نہ ہی آج تک کسی ایک بھی سیاسی جماعت کا احتساب اِس کے انتخابی منشور پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے کیا گیا ہے۔ جن معاشروں میں جمہوریت پروان چڑھی اُور جن اقوام نے جمہوریت کے ثمرات حاصل کئے وہاں رہنماو¿ں کے ہر ایک لفظ اُور بالخصوص انتخابی منشور کی خاص اہمیت ہوتی ہے اُور سیاسی جماعتوں کے منشور ایک دوسرے کی نقل سے نہیں بلکہ اپنی سوچ اُور ماضی‘ حال و مستقبل کی ترجیحات مدنظر رکھتے سے بنائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں یہ انتخابی منشور ایک رسم سے زیادہ نہیں رہے اُور یہی وجہ ہے کہ عام آدمی کے لئے منشور سے زیادہ انتخابی نشان اہم ہو چکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 19 دسمبر کے روز بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں 17 اضلاع میں پولنگ ہوگی جس کے لئے 37ہزار752 اُمیدوار سٹی‘ تحصیل‘ ویلیج اُور نیبرہڈ کونسلوں کے لئے میدان میں ہیں جبکہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں دوسرے مرحلے کے انتخابات اگلے ماہ (جنوری دوہزاربائیس) میں ہوں گے۔
بلدیاتی انتخابات کے پہلے مرحلے میں ’ضلع پشاور‘ کی نظامت (میئرشپ) کے لئے اگر مختلف انتخابی منشورات کو جمع کیا جائے تو سترہ مختلف سیاسی و غیرسیاسی میئر شپ کے اُمیدواروں نے پشاور کے جن مسائل کی فہرست عوامی عدالت میں پیش کی ہے اُس کے مطابق 1: پشاور کے دیہی علاقوں میں رہنے والوں کو پینے کے پانی کی کمی کا سامنا ہے۔ 2: پھیلتے ہوئے پشاور کے لئے قبرستانوں کی ضرورت ہے۔ 3: قبرستانوں کے لئے جنازہ مساجد کی ضرورت ہے بلکہ اِیک سیاسی جماعت نے قبرستان مساجد واگزار کرانے کا وعدہ کیا ہے‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ قبرستانوں کی اراضی پر جنازہ مساجد تعمیر کی جائیں گی اُور یہی وہ طرزعمل ہے جس سے قبرستان کی اراضی پر قبضے کا آغاز ہوتا ہے اُور ایک جنازہ مسجد بنانے کے بعد اُس کے ساتھ تعمیرات کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اِس بات کو سمجھنے کے لئے وزیرباغ سے متصل سبزہ زار کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جہاں سب سے پہلے وزیرباغ کی چاردیواری کو پیچھے دھکیلا گیا۔ اِس کے بعد سبز راہداری بنائی گئی اُور پھر کچھ عرصہ بعد اُس کی دیکھ بھال سے ہاتھ کھینچ لیا گیا۔ جب پودے اُور درخت دیکھ بھال اُور پانی نہ ملنے کے نتیجے میں مرجھا گئے اُور گرد نے پتوں کا سبز رنگ سفیدی سے بدل دیا تو چونکہ یہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی تھی جس کے تحت علاقے کی گندگی وہاں پھینکنا شروع کر دی گئی اُور یوں کوڑا کرکٹ (ٹھوس گندگی) کے ڈھیر لگتے چلے گئے اُور اِس کے بعد سرکاری ’آٹو ورکشاپ‘ بنائی گئی۔ ایک سرکاری گودام بنایا گیا جس کے ساتھ جنازہ مسجد‘ پرائمری سکول اُور وزیرباغ کے چوکیداروں کے کمرے اُور بعد میں رہائشگاہیں بن گئیں جبکہ وزیرباغ کی چاردیواری سے متصل قبروں کا نام و نشان نہیں رہا۔ اِس منظرنامے کا سب سے تاریک پہلو یہ ہے کہ پشاور کے ساتھ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ سب کا سب سیاست کی وجہ سے ہے اُور یہ سیاست ہی ہے کہ جس کی طرف دیکھتے ہوئے اہل پشاور ماضی میں ہوئی غلطیوں کی اصلاح ہوتا دیکھ رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے لئے سیاسی جماعتوں کے منشور کم و بیش ایک جیسے ہی ہیں‘ جن میں پشاور کا تذکرہ اُور پشاور کے چرچوں کی دھوم ہے۔ درحقیقت ہر کوئی پشاور کے مسائل کا حل چاہتا ہے۔ ایسے مسائل جو دیرینہ صورت اختیار کر گئے ہیں اُور یہ اُس وقت تک حل نہیں ہوں گے جب تک انتخابی اُمیدواروں کی پسند و ناپسند میں اہل پشاور ”ایک ووٹ ’صرف پشاور“ کے نام پر نہ دیں۔ یقینی امر ہے کہ جب پشاور‘ اہل پشاور کی ترجیح نہیں بنے گا اُس وقت کوئی ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ پشاور کی محبت عملی اِظہار کی متقاضی ہے اُور بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ اِس سلسلے میں اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ پشاور کی یاد مسلسل رہنے اُور اِس یاد کے اِحترام میں ”ایک ووٹ‘ صرف پشاور“ سے ہمہ جہت تبدیلی کا آغاز کیا جاسکتا ہے ورنہ انتخابات کے موسم آنے جانے کا سلسلہ جاری رہے گا۔ ”یہی تقاضا ہے اِس بار بھی محبت کا .... بدن پہ گرد سفر کو جو مل سکو‘ تو چلو (نبیل احمد نبیل)۔“
....
Editorial Page of Daily Aaj Peshawar Abbottabad dated December 07, 2021 |
No comments:
Post a Comment