ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: پری چہرہ
صبر کا میٹھا پھل ہاتھ میں ہے۔ طویل انتظار کے بعد صرف اچھی نہیں بلکہ بہت ہی اچھی خبر سننے کو ملی ہے گویا دعائیں قبول ہوئی ہیں‘ جس پر ’پشاور سے غیرمشروط محبت رکھنے والے اُور اِس شہر کے بے لوث پرستار‘ جشن منا رہے ہیں۔ مبارکبادوں کے تبادلوں کا سلسلہ چوبیس جنوری کی شام سے جاری ہے جو صرف ’قومی جیت‘ جیسا محدود حاصل نہیں بلکہ یہ ’پشاور کی جیت‘ ہے اُور پشاور کو بھی مبارک دی جانی چاہئے۔
خبر یہ ہے کہ تاریخ پشاور کا ایک باب جو یہاں ’پری چہرہ کے مزار اُور اِس سے ملحقہ قبرستان‘ کی اراضی ہتھیانے سے متعلق تھا عرصہ ستائیس سال مختلف عدالتوں بشمول سیشنز جج کی عدالت میں زیرسماعت رہا اُور اِس مقدمے میں مخالف فریق کو سال 1995ءمیں ڈگری جاری کی گئی تھی‘ جس کے بعد ’چوبیس جنوری دوہزار بائیس‘ کے روز اِس مقدمے کا فیصلہ ’پشاور کے حق‘ میں آیا اُور یوں قریب تین دہائیوں تک مختلف محاذوں بشمول عدالتی جنگ کرتے ہوئے دامے‘درہم‘ سخنے یعنی آپ کو وقف کرنے والے اخونزادہ مظفر علی کی آنکھوں سے آنسو اُور لہجے میں انکساری کے ساتھ محبت بھرے جذبات کی گہرائی و صداقت کو سمجھا جا سکتا ہے‘ جس کی کوئی قیمت نہیں‘ جس کا کوئی مول نہیں اُور جس کی پشاور کی تاریخ میں کوئی مثال بھی نہیں ملتی۔ اخونزادہ مظفر نے صرف آئینی اُور قانونی طور پر ہی نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ کو مستند (ناقابل تردید) تاریخی حوالوں اُور نایاب نقشہ جات (گواہیوں) سے بھی ثابت کیا ہے اُور شاید ہی پشاور کی تاریخ میں ایسا کوئی ایک بھی اجتماعی و عوامی مفاد کا مقدمہ یوں فیصلہ ہوا کہ طویل اعصاب شکن عدالتی کاروائیوں میں ایک طرف سرمایہ مافیا تھا جنہوں نے پانی کی طرح پیسہ بہایا اُور جن کا اثرورسوخ بھی نمایاں تھا۔ جنہوں نے ہر عدالتی مرحلے میں دھونس‘ رعب اُور بدمعاشی کے ذریعے ’پشاور‘ کا مقدمہ لڑنے والے اپنے فریق کو مرعوب (مختلف قسم کے دباؤڈال کر خوفزدہ) کرنے کی بھی کوشش کی اُور اب جبکہ عدالت نے ڈگری خارج کر دی ہے تو ’پشاور دوست فریق‘ کے مقابلے ذاتی مفادات کے اسیروں نے کروڑوں روپے کی پیشکش کرنے جیسی جرا¿ت و جسارت بھی کی ہے لیکن شاید وہ بھول گئے ہیں کہ اُن کا سامنا ایک ایسے کردار سے ہے جو پشاور کو اپنی دھرتی ماں سمجھتا ہے اُور پشاوری کتنے ہی مادہ پرست اُور اپنے شہر سے لاتعلق ہو جائیں وہ کم سے کم اپنی ماؤں کا سودا نہیں کرتے۔
قابل ذکر ہے کہ مذکورہ مقدمہ بظاہر 24 مرحلے اراضی کا ہے‘ جس میں ایک فریق کا دعویٰ ہے اُور جسے عدالت نے قانونی آئینی اُور تاریخی طور پر درست بھی قرار دے دیا ہے کہ ”اندرون کوہاٹی مذکورہ قطعہ ”قبرستان کی اراضی“ ہے جو فارس (موجودہ افغانستان) کے بادشاہ نادر شاہ افشار نے وقف کی تھی اُور یہاں اپنی محبوب و مکرم اہلیہ (ملکہ¿ وقت) پری چہرہ کا مزار بنایا۔ 1739ءمیں جب بادشاہ نادر شاہ پشاور سے اپنے لشکر کے ہمراہ گزر رہا تھا تو اُن کی محبوب بیوی پری چہرہ بیمار پڑ گئیں اُور یہیں مختصر قیام کے دوران اُن کا انتقال بھی ہوا جس کے بعد اُنہیں شاہی باغ کے حصے میں (ملکہ کے شایان شان جگہ) پر سپرد خاک کیا گیا۔ آج پری چہرہ کے مزار پر پلاسٹک کے شاپنگ بیگ اُور گندگی کے ڈھیر لگے نظر آتے ہیں جو کوچی بازار سے شروع ہونے والے تجارتی مرکز کی پٹی ہے اُور کوہاٹی گیٹ یعنی پری چہرہ کے مزار پر آ کر ختم ہوتی ہے۔
ایک عرصے سے دبی آواز میں دوست احباب نجی محافل میں یہ مطالبہ بصورت تذکرہ کرتے تھے کہ اِس قطعہ¿ اراضی کی اصل حالت و حیثیت میں حفاظت اُور بحالی ہونی چاہئے لیکن کسی میں ہمت یا کسی کو فرصت نہیں تھی کہ قانونی و تاریخی جنگ کے لئے خود کو پیش کرتا۔ یہی وجہ تھی کہ وقت کے ساتھ تاریخ پشاور کے اِس اثاثے پر گمنامی کی گرد پڑتی رہی اُور ایک وقت وہ آیا جب پشاور کی ہر خوبی اُور ہر اثاثے پر قبضہ کرنے کی کوشش کرنے والوں کی نظریں ’ملکہ پری چہرہ کے مزار پر جا ٹھہریں‘ جس پر قبضہ اُور کثیر المنزلہ کاروباری (کمرشل) عمارت تعمیر کرنے کی تیاریاں شروع کر دی گئیں۔ تعمیراتی نقشہ جات تک منظور کروا لئے گئے۔ ایک ایسے شہر میں جہاں قبرستانوں کی سینکڑوں کنال اراضی ہڑپ کر لی گئی ہو وہاں چند مرلے رقبے کی وقعت یا اِس کی اہمیت بارے توجہ دلانے کی اہمیت ہونے کے باوجود بھی یہ بظاہر غیراہم دکھائی دینے لگتا ہے لیکن اصل حقیقت یہ ہے کہ دنیاوی عدالتوں اُور انصاف کے نظام کے مقابلے انصاف کا ایک نظام قدرت کی جانب سے بھی جاری و ساری ہے جس میں فیصلے جاری کئے جاتے ہیں اُور اِن فیصلوں کو دنیاوی عدالتوں میں ثابت کرنے کے لئے غیب سے اسباب اُور مدد فراہم ہوتے رہتے ہیں۔ مشکل مشکل نہیں رہتی۔ پریشانی پریشانی نہیں رہتی۔ مقدمے کے لئے درکار مالی وسائل کی کمی بھی آڑے نہیں آتی کیونکہ جب محبت غالب آ جائے تو پھر کوئی دوسرا مخالف جذبہ اپنے پاؤں جما نہیں سکتا۔
بہرحال پشاور کے اندرون کوہاٹی گیٹ ’پری چہرہ مزار‘ اُور اِس سے ملحقہ قطعہ اراضی (قبرستان) ہتھیانے کی نہایت ہی منظم اُور سوچی سمجھی سازش ناکام ہوئی ہے جس کے بعد کم سے کم یہ بات بھی ممکن ہو گئی ہے کہ آئندہ کوئی بھی ایسی کوشش کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ تمام تر متعلقہ قانونی اُور تاریخی دستاویزات نہ صرف عدالت کے زیرغور آ چکی ہیں بلکہ یہ مقدمے کی کاروائی کا حصہ بھی ہیں جسے درحقیقت ’تاریخ پشاور کا گمشدہ باب‘ قرار دینا چاہئے یعنی اخونزادہ مظفر علی کی پُرخلوص کوششوں اُور رقیق (delicate) محنت سے ”تاریخ ِپشاور“ کی خاموش سطریں بول پڑی ہیں اُور اِن کے بیانات کو جھٹلانے والوں کو منہ کی کھانی پڑی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ قیام پاکستان سے قبل پشاور صرف فصیل شہر کے اندرونی آباد علاقوں پر مشتمل ہوتا تھا جنہیں مختلف ٹکڑوں میں تقسیم کیا گیا اُور اراضی کے اِس قدیمی بندوبست میں فصیل شہر کے اندر اُور باہر کے علاقے جو کہ الگ الگ ٹکڑوں میں تقسیم تھے اِن میں شامل ”ٹکڑا نمبر 3“ اندرون کوہاٹی گیٹ سے سرکی تک اُور اندرون کوہاٹی و بیرون کوہاٹی (سٹی سرکلر روڈ) کے علاقے شامل تھے جو وسیع عریض رقبے پر پھیلا (تاحد ِنظر) قبرستان ہوا کرتا تھا۔ بعدازاں کوہاٹی گیٹ کے ساتھ اِس سے جڑی پولیس چوکی ختم ہوئی اُور اِس چوکی کی جگہ عارضی عبادت اُور چند دکانیں تعمیر ہوئیں‘ جن پر ’میونسپل کارپوریشن (پشاور کے فیصلہ ساز و خود مختار ادارے)‘ نے تجاہل عارفانہ اختیار کیا اُور وقت کے ساتھ یہ عارضی تعمیرات پختہ و مستقل ہو گئیں جنہیں 3 دہائیوں کے بعد مزید وسعت دینے کے لئے ’پری چہرہ مزار و ملحقہ قبرستان‘ کی اراضی کا بھی قبضہ کرنے کی کوشش کی گئی۔
لمحہ فکریہ ہے کہ قیام پاکستان کے بعد سے ’چائنا کٹنگ‘ کا سلسلہ جاری ہے اُور اِس سلسلے کی تازہ ترین کوشش ’پری چہرہ کے مزار‘ اُور یہاں کے باقی ماندہ قبرستان کو صفحہ¿ ہستی سے مٹانے کی ایک ناکام ہوئی کوشش کی صورت سامنے آیا ہے۔ بنیادی وجہ اہل پشاور کا مجرمانہ سکوت ہے‘ اُور اِس روش کو تبدیل ہونا چاہئے۔
اغیار جانتے ہیں کہ پشاور اُور اہل پشاور کی قیادت نہیں رہی۔ پشاور کا کوئی ’والی وارث‘ نہیں اُور یہاں کے سفید پوش ورثا یا تو ہجرت کر چکے ہیں یا پھر معاشی مسائل یا اپنی عزت بچانے کے لئے خاموش ہیں لیکن اِن تماشائیوں کے دل خون کے آنسو روتے ہیں اُور موجودہ مقدمے سے عیاں ہے پشاور کے لئے حرف ِدعا رکھنے والوں کی دعائیں مستجاب ہوئی ہیں۔
یہ نکتہ بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ اہل پشاور نے نئی نسل کو تاریخ ِپشاور بطور ورثہ اُور اثاثہ منتقل نہیں کی۔ نصاب ِتعلیم میں کوئی ایک بھی سبق ایسا نہیں ملتا جو پشاور کی تاریخ سے متعلق ہو تو پھر کس طرح توقع کی جا سکتی ہے کہ پشاور کی محبت کے چراغ دلوں میں روشن رہیں گے اُور پشاور کی تاریخ سینہ بہ سینہ‘ نسل در نسل ازخود منتقل ہوتی رہے گی‘ یہ کوئی خواب نہیں حقیقت ہے۔ محبت و تعلق دلی ہوتا ہے مشروط نہیں۔ اِسی محبت کے اظہار کے لئے شعوری کوشش اُور مزید محنت کی ضرورت ہے۔
”عکس کا ہونا ہے مشروط ترے ہونے سے .... خود کو پہچان مگر عکس کو حیرت نہ بنا (یونس تحسین)۔“
....
No comments:
Post a Comment