Monday, January 24, 2022

Think before you speak

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

کفریہ کلمات

پیپل منڈی پشاور کے معروف تاجر اُور اندرون شہر کے محلہ شیخ الاسلام (گنج) کی سیاسی‘ سماجی اُور مذہبی شخصیت ایاز خان نے بظاہر معمولی لیکن درحقیقت ایک نہایت ہی اہم بات کی جانب توجہ دلائی ہے جو روزمرہ بول چال میں پائی جانے والی ’عمومی بے احتیاطی‘ سے متعلق ہے۔ مشاہدہ ہے کہ اکثر لوگ ہنسی مذاق یا بے توجہی (لاعلمی) کے باعث ایسی باتیں کر جاتے ہیں جو بسا اُوقات کفر کی حد تک جا پہنچتی ہیں اُور یقینا عمومی معاشرت سے متعلق یہ صرف اہم نہیں بلکہ سنگین مسئلہ بھی ہے‘ جس پر خاطرخواہ گہرائی سے غور و فکر اُور اِن کفریہ کلمات کی ادائیگی سے محفوظ رہتے ہوئے دوسروں کو بھی اِس سے کنارہ کشی کی تلقین عام ہونی چاہئے۔ سوشل میڈیا (انٹرنیٹ) کے زمانے میں جب شہروں اُور دیہات میں رہنے والوں کے درمیان صرف مواصلاتی رابطے ہی پہلے سے زیادہ فعال اُور کم قیمت نہیں ہوئے بلکہ اِس کے ساتھ ہر قسم کی تصدیق شدہ (درست) اُور غیرتصدیق شدہ (اغلاط کا مجموعہ) معلومات کی گردش بھی باآسانی ہو رہی ہے تو ضرورت اِس اَمر ہے کہ نیت کرتے ہوئے اِسی ’سوشل میڈیا‘ جیسے ”خیر ِمحض“ وسیلے‘ ذریعے اُور طریقے کا استعمال کرتے ہوئے اپنی اُور دوسروں کی عمومی و خصوصی غلطیوں کی اصلاح کرنے کی کوشش کی جائے (اِن شا اللہ عزوجل)۔

دعوت اِسلامی‘ نامی غیرسیاسی مذہبی تحریک کے بانی اُور سربراہ مولانا الیاس عطار قادری رضوی دامت برکاتہم العالیہ نے ”کفریہ کلمات“ سے متعلق تین کتابیں لکھی ہیں۔ پہلی کتاب ’19 صفحات‘ پر مشتمل اگرچہ مختصر لیکن اِس موضوع پر انتہائی جامع تعارف ہے اُور اگر مجموعی طور پر دیکھا جائے تو دعوت اسلامی کے عمومی اشاعتی سلسلے اُور بالخصوص کفریہ کلمات کے حوالے سے اِس پوری کاوش (کار ِخیر) کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ سوچ سمجھ کر بولنے کی تعلیم دی جائے اُور کردار کے ساتھ گفتار میں بھی حد درجہ احتیاط اختیار کرنے کی جانب توجہ دلائی جائے کیونکہ اپنی اُور دوسروں کی بول چال کی اصلاح بھی نیکی کی ترغیب (دعوت) دینے ہی کے زمرے میں شمار ہوتا ہے۔

 مذکورہ تینوں کتابیں (اٹھائیس کلمات کفریہ (19صفحات)‘ گانوں کے پینتیس کفریہ اشعار (35صفحات) اُور کفریہ کلمات کے بارے میں سوال و جواب (710 صفحات) اُردو کے علاؤہ اَنگریزی‘ بنگلہ‘ گجراتی‘ کناڈا‘ رومن اُردو‘ ہندی اُور ڈینش زبانوں میں آن لائن دستیاب ہیں اُور دعوت اسلامی کی ویب سائٹ (DawatIslami.net) سے کسی بھی وقت بلاقیمت (مفت) حاصل کی جا سکتی ہیں۔ دعوت ِاسلامی کی جانب سے کفریہ کلمات کی جانب توجہ اگرچہ شروع دن سے ہو رہا ہے لیکن اِس اصلاح احوال کے سلسلے میں باقاعدہ مہم کی صورت کوشش کا آغاز جولائی 2008ءمیں شائع ہونے والی کتاب ”گانوں کے 35 کفریہ اَشعار“ سے سامنے آئی اُور تب لوگوں نے سمجھا کہ جو ملکی و غیرملکی گانے یا شاعرانہ کلام وہ بنا سوچے سمجھے اُٹھتے بیٹھے دہرا رہے ہوتے ہیں درحقیقت وہ اُن کے ایمان کے لئے خطرہ ہیں! 

مذکورہ تینوں کتابیں ’اصلاح معاشرے‘ کے حوالے سے ایک اہم ضرورت پوری کر رہی ہیں تاہم وقت کے ساتھ اِن کتابوں میں اضافے کی بھی ضرورت ہے چونکہ مہنگائی کے زمانے کتابوں کی اشاعت اُور اِنہیں خریدنے کی سکت کم ہو رہی ہے اِس لئے اگر ’اِی بک (e-book)‘ کی صورت اگر اشاعتوں کا الگ سے سلسلہ شروع کیا جائے اُور دعوت اسلامی کے واٹس ایپ گروپوں کی مناسب تشہیر کی جائے تو چراغ سے چراغ جلتا چلا جائے گا اُور آن لائن قارئین کی بڑی تعداد مستفید ہو سکے گی۔

 توجہ طلب ہے کہ صرف عمومی بول چال اُور فلمی شاعری ہی نہیں بلکہ دیگر شاعرانہ اُور نثری مضامین میں بھی اکثر ایسے الفاظ‘ جملے‘ اشارے یا استعارے استعمال کئے جاتے ہیں یا ہو جاتے ہیں‘ جو بطور مسلمان اُور ادب و احترام کی تلقین پر مبنی اسلامی تعلیمات کے خلاف ہیں۔ بول چال میں جس درجہ احتیاط کا مظاہرہ ہونا چاہئے وہ دیکھنے میں نہیں آ رہا اُور یہی مرحلہ فکر اُن طبقات کے لئے پریشانی و تشویش کا باعث ہے جو اِس بڑھتے ہوئے سماجی مرض سے خود بھی محفوظ رہنے کی کوشش کرتے ہیں اُور دوسروں کی شفایابی کے بھی متمنی (خیرخواہ) ہیں۔ کفریہ کلمات اُور اِس جیسے دیگر سماجی مسائل کے بارے میں عوام الناس کی تعلیم و تربیت کی کوشش میں ”مسجد“ کلیدی کردار ادا کر سکتی ہے جہاں ہر عمر اُور ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ہفتہ وار نماز جمعہ کے اجتماع میں بااہتمام شریک ہوتے ہیں لیکن اکثریت ایک دوسرے کے دیکھا دیکھی نماز جمعہ کے لئے دی جانے والی دوسری آذان سے قبل مسجد کا رخ نہیں کرتی اُور یہی وجہ سے جمعة المبارک جیسے جلیل القدر دن کی مقصدیت و معنویت حاصل نہیں ہو رہی کیونکہ منبر سے واعظ و نصیحت سننے کا مختصر دورانیہ بھی اکثریت کے لئے قابل برداشت نہیں رہا!

فتاویٰ شامی کے مطابق ”حرام الفاظ اُور کفریہ کلمات کے متعلق علم سیکھنا فرض ہے۔‘ تو جہاں علم سیکھنا بھی فرض شمار ہو وہاں فرض عبادات کے بعد سب سے اچھا عمل یہ ہے کہ اپنے آپ کو خدا کے ذکر میں زیادہ سے زیادہ مشغول رکھا جائے اُور صرف یہی ایک راستہ‘ طریقہ‘ شعار‘ طرز فکروعمل ہے کہ جس کے ذریعے کوئی بھی شخص (عالم یا اچھی اخرت کا طلب گار) کفریہ کلمات کی ادائیگی جیسے گناہ سے بچ سکتا ہے۔ مختلف لوگوں اور اُن کی مصروفیات اور مشاغل الگ الگ ہوتے ہیں لیکن ”اللہ کا ذکر“ ہر حال میں‘ دل ہی دل یا زبان سے کرتے رہنے سے متعلق اتفاق رائے پائی جاتی ہے کہ عمل یعنی اللہ تعالیٰ کے ذکر کا التزام ہی درحقیقت بہترین مشغلہ ہے جس میں مصروف رہنے کا اجروثواب بھی ہے اُور آخرت میں انعام و اکرام بھی ملے گا۔ 

صحیح مسلم میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث ”اللہ کے ذکر“ کی اہمیت واضح کرتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک موقع پر ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”مفردون سبقت لے گئے۔“ عرض کیا گیا کہ یہ ”مفردون کون ہیں؟“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ”اللہ کا ذکر کرنے والے مرد اور اللہ کا ذکر کرنے والی عورتیں۔“ ایک اُور حدیث مبارکہ حضرت ابوالدردا¿ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا (ترجمہ) ”کیا میں تمہیں وہ عمل نہ بتاؤں جو تمہارے سارے اعمال میں بہتر اور تمہارے (حقیقی) مالک (اللہ تعالیٰ) کی نگاہ میں پاکیزہ تر ہے اور تمہارے (دنیاوی و اخروی) درجات کو تمام اعمال سے زیادہ بلند کرنے والا ہے اور راہ خدا میں سونا چاندی (فراخدلی سے) خرچ کرنے سے بھی زیادہ تمہارے حق میں خیر و برکت کا باعث ہے اور تمہارے لئے اس میں جہاد سے بھی زیادہ خیر پوشیدہ ہے‘ جس میں تم اپنے دشمنوں اور خدا کے دشمنوں کو موت کے گھاٹ اُتارو اور وہ تمہیں شہید کریں؟“ صحابہ کرام رضوان اللہ اجمعین نے عرض کیا ”ہاں‘ یارسول اللہ (ایسا قیمتی عمل ضرور بتایئے)۔“ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ عمل ”اللہ کا ذکر“ ہے (بحوالہ ابوداؤد‘ ترمذی‘ ابن ماجہ)۔“

....

Editorial Page Daily Aaj 24 January 2022 Monday

Clipping from Editorial Page of Daily Aaj 24 January 2022


No comments:

Post a Comment