ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
فلم و ڈرامہ : تفریح و ثقافت
اگست دوہزارتیرہ: محکمہ داخلہ خیبرپختونخوا نے پشتو میں بنائی گئی 5 فلموں کی صوبے کے کسی بھی حصے میں نمائش نہ کرنے سے متعلق ایک ناقابل فہم پابندی کا اعلان کیا‘جبکہ پشتو کی سبھی فلموں میں کم و بیش ایک جیسا مواد ہی دیکھنے کو ملتا ہے کہ فلم کی کہانی (روداد) جو بھی ہو لیکن اِس میں ایک خاص تناسب سے تشدد‘ اسلحے کا استعمال‘ موسیقی‘ رقص‘ ذو معنی مزاحیہ جملے (ڈائیلاگ) اُور کردار چست کپڑوں کا استعمال فلم شائقین کے ذوق و شوق کے مطابق کیا جاتا ہے۔ بہرحال پابندی کا شکار ہونے والی پانچ مجموعات میں زما اَرمان (میری خواہشات)‘ بھنگی لیلی (نشے کی لت)‘ لوفر (لااُبالی‘ کسول کردار)‘ شرط اُور قربانی نامی فلمیں شامل تھیں‘ جن میں ’زما ارمان‘ عیدالفطر کے موقع پر نمائش کے لئے پیش کی گئی تھی اُور اِس فلم نے آمدنی و مقبولیت کے لحاظ سے غیرمعمولی کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا۔ مذکورہ پابندی ’موشن پکچرز ایکٹ 1979ئ‘ کی چوتھی شق کے مطابق عائد کی گئی لیکن مضحکہ خیز امر یہ تھا کہ دو سینما ہالوں میں ’زما اَرمان‘ نامی فلم کی کئی ہفتوں سے جاری نمائش کے بعد عائد کی گئی پابندی کے بعد فلم سینما ہال کے علاؤہ دیگر تشہیری ذرائع سے نمائش ہو رہی ہے جس میں ’یو ٹیوب (YouTube)‘ بھی شامل ہے جہاں اِس فلم کو 10 لاکھ سے زائد مرتبہ دیکھا جا چکا ہے۔ یہاں دو نکات لائق توجہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ اگرچہ سینما ہالز ختم ہو رہے اُور صوبائی دارالحکومت پشاور کے کئی سینما ہالوں کا ذکر اب تاریخ کی کتب میں ملتا ہے جیسا کہ جون 2019ءمیں صدر بازار کے معروف ’کپیٹل سینما‘ کی بلڈنگ مسمار کر دی گئی کیونکہ بیس برس تک کاروبار نہیں تھا۔ ذہن نشین رہے کہ صدر (چھاؤنی) کی حدود میں 3 سینما گھر ہوا کرتے تھے اُور اِن تینوں (کپیٹل سینما‘ فلک سیر سینما اُور پی اے ایف سینما) کو مختلف وجوہات کی بنا پر ایک ایک کر کے ختم کر دیا گیا۔ فلک سیر سینما جون 2006ءمیں ختم کی گئی جہاں اب کثیرالمنزلہ شاپنگ پلازہ کھڑا ہے۔ اِس سینما ہال کو منہدم کرنے کے لئے عدالت سے رجوع بھی کیا گیا اُور عدالت نے فوری کاروائی کرتے ہوئے حکم امتناعی (سٹے آڈر) بھی جاری کیا تھا لیکن اُس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی۔
سینما ہالوں کے مالکان کا شمار مالی و سیاسی طور پر بااثر افراد میں ہوتا ہے جن کے خلاف حکومتی اہلکار خاطرخواہ شدت کے ساتھ قوانین و قواعد کے مطابق کاروائی نہیں کرتے۔ حسب قانون کسی سینما ہال کی عمارت کو منہدم نہیں کیا جا سکتا لیکن ایک ایک کر کے پشاور کے معروف سینما ہال ختم کئے گئے اُور جو سینما ہال موجود ہیں اُن میں فلموں کی نمائش پر پابندیاں عائد کی گئیں تو اندیشہ ہے کہ اُن کی بھی راتوں رات ’اینٹ اینٹ‘ الگ کر دی جائے گی۔ کپیٹل سینما کو منہدم کرنے سے پانچ چھ ماہ قبل فلموں کی نمائش کے لئے بند کر دیا گیا تھا اُور اِس عمارت کی تعمیرومرمت سالہا سال سے روک دی گئی تھی جس کی وجہ سے عمارت مخدوش ہوتی چلی گئی اُور بالآخر اِسے خطرناک قرار دیدیا گیا۔
پشاور میں کبھی پندرہ سینما ہالز ہوا کرتے تھے جن میں سے صرف سات (ناز‘ ارشد‘ آئینہ‘ تصویر محل‘ پکچر ہاؤس اُور شمع) باقی ہیں جبکہ فردوش (شبستان)‘ فلک سیر‘ پلوشہ‘ ناولٹی‘ میٹرو‘ عشرت‘ صابرینہ‘ پی اے ایف اُور کپیٹل سینما کی عمارتیں تک باقی نہیں رہیں۔ فلم کی صورت پشاور تفریح کے ایک اہم ذریعے سے محروم ہوا ہے تو اِس کی بنیادی وجوہات میں دہشت گردی‘ کاروباری مفادات‘ کورونا وبا اُور محکمہ ثقافت (حکومتی ادارے) کی عدم دلچسپی ہے۔ فلمیں کسی بھی زبان میں ہوں‘ اُن میں سرمایہ کاری کون کرے گا جبکہ سینما ہال ختم ہو رہے ہوں اُور فلموں کی تیاری اُور سنسربورڈ سے منظوری جیسے مراحل پر نہیں بلکہ اُن کی نمائش پر پابندیاں عائد کی جاتی ہوں!؟
یکم فروری دوہزاربائیس: خیبرپختونخوا کابینہ کے 64ویں اجلاس میں ’موشن پکچرز رولز 2021ئ‘ نامی قانون کی منظوری دی گئی جس کا اطلاق صوبائی سطح پر سینما ہالز یا دیگر میڈیا (سی ڈی یا ڈی وی ڈیز) کے علاؤہ سٹیج ڈراموں اُور شوز پر بھی یکساں ہوگا۔ مذکورہ غیرمعمولی کابینہ اجلاس میں اراکین اسمبلی کے علاؤہ صوبائی چیف سیکرٹری‘ ایڈیشنل چیف سیکرٹری‘ سنیئر ممبر بورڈ آف ریونیو اُور مختلف محکموں کے انتظامی سیکرٹریز بھی شریک تھے اُور اجلاس میں اِس بات پر اتفاق پایا گیا کہ ”پختون ثقافت کے تحفظ کے لئے ضروری ہے کہ اِسے نقصان پہنچانے والی فلموں‘ سی ڈی ڈراموں اُور سٹیج شوز میں دکھائے جانے والے صرف زبان و ثقافت کے برخلاف ہی نہیں بلکہ اسلام اُور پاکستان کے دوست ممالک کے خلاف موضوعات یا اِس بارے مواد کی سختی سے جانچ پڑتال (سنسرشپ) کرنے کے بعد اِنہیں نمائش کی اجازت دی جائے۔ کابینہ اجلاس میں صرف یہی نہیں بلکہ درجن سے زائد دیگر فیصلے بھی کئے گئے جن میں حکومت کی مقرر کردہ کم سے کم ماہانہ تنخواہوں پر عمل درآمد یقینی بنانے کے احکامات بھی شامل تھے۔
فیصلہ ساز جن پہلوؤں کو نظرانداز کر رہے ہیں اُس کا تعلق تین نوعیت کے ’زمینی حقائق‘ سے ہے۔
پہلی حقیقت یہ ہے کہ پشتو فلمیں جس زبان و ثقافت کی ترجمانی یا عکاسی کرتی ہیں‘ وہ یقینا پختونوں کی اکثریت کی بودوباش (طرز زندگی) کا آئینہ دار (عکاس) نہیں لیکن نمائش سے قبل اِن فلموں کی سنسربورڈ سے منظوری لی جاتی ہے اُور چونکہ زیادہ تر فلمیں لاہور (صوبہ پنجاب) میں بنتی ہیں اِس لئے وہاں کے (غیرپختون) سنسر بورڈ سے اجازت نامہ لے لیا جاتا ہے۔ نئے قانون سے لازم ہوگا کہ خیبرپختونخوا میں نمائش کے لئے صوبائی مقامی سنسربورڈ سے منظوری لی جائے۔
دوسری حقیقت یہ ہے کہ پشتو فلموں کے تماش بین اُور اِن میں دکھائے جانے والے مناظر سے محظوظ ہونے والے بھی ایک خاص طبقے اُور سوچ سے تعلق رکھتے ہیں‘ جن کا پشتو زبان و ثقافت جیسے ثقیل و گہرے موضوع سے تعلق نہیں اُور اُن کے فلم صرف اُور صرف تفریح کا ذریعہ ہے جس کی گود میں وہ چند گھنٹے اپنی مشکلات و مسائل سے چھپ کر گزارتے ہیں اُور
یہ حقیقت اپنی جگہ لائق توجہ ہے‘ تفریح طبع کے لئے سینما ہال واحد ذریعہ نہیں رہے بلکہ کیبل ٹیلی ویژن نیٹ ورکس اُور موبائل فونز کے ذریعے ’ویڈیو مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹس‘ جن میں ’یوٹیوب‘ سرفہرست ہے سے استفادہ کیا جا رہا ہے۔
فلموں یا سی ڈی ڈراموں میں سرمایہ کاری کرنے والے سینما ہالز اُور کیبل نیٹ ورکس کے ذریعے آمدنی حاصل کرتے تھے لیکن اب آمدنی کا ذریعہ ’آن لائن‘ وسائل بھی ہیں‘ جن میں ’یو ٹیوب‘ کی مونیٹائزیشن کے ذریعے آمدنی حاصل کرنا نہایت ہی سادہ و آسان اُور منافع بخش عمل ہے۔
ضرورت اِس امر کی ہے کہ
1: فلموں اُور ڈراموں کو زبان و ثقافت کی ترجمانی کرنے کی بجائے ”تفریحی مواد“ کی نظر سے دیکھا جائے۔
2: فلموں ڈراموں سے متعلق سنسرشپ کے قوانین و قواعد ہر صوبے کے لئے الگ الگ بنانے کی بجائے قومی سطح پر وضع اُور لاگو کئے جائیں اُور
3: فلموں ڈراموں کے ذریعے اصلاحی کوششوں کے فروغ کے لئے اِس صنعت میں حکومتی مداخلت بصورت منصوبہ بندی اُور سرمایہ کاری ہونی چاہئے۔
ذہن نشین رہے کہ جمہوری اسلامی ایران کی فلمی صنعت کی مثال برائے مطالعہ و دلیل موجود ہے‘ جسے 1990ءکی دہائی (انقلاب اسلامی ایران کے بعد) چین کی مدد سے جدید تکنیکی وسائل سے لیس کیا گیا اُور آج ایران میں بنائی گئی فلمیں‘ ہر سال معروف عالمی اعزازات کے لئے منتخب کی جاتی ہیں اُور ایرانی سینما کئی ایسے اعزازات حاصل بھی کر چکا ہے۔سال 2012ءمیں اصغر فرہادی نامی پروڈیوسر کی عالمی فلم کا معتبر ’آسکر ایوارڈ‘ جیتا تھا جو کسی بھی ’میڈ اِن ایران‘ فلم کا یہ پہلا ’آسکر اعزاز‘ تھا۔
....
Clipping from Daily Aaj Peshawar Dated 7 Feb 2022 Monday |
No comments:
Post a Comment