Friday, February 18, 2022

The Socio-Economic & Political Rights of Persons with Disabilities.

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

خصوصی افراد : حقوق اُور استحقاق

چوبیس مئی دوہزاراٹھارہ: سندھ کی صوبائی اسمبلی نے ”پرسنز ود ڈس ایبلٹیز بل 2018ئ“ نامی قانون منظور کیا جسے ’سات جون دوہزاراٹھارہ‘ سے سندھ بھر میں لاگو کر دیا گیا۔ مذکورہ قانون 13 دسمبر 2006ءکے روز اقوام متحدہ کے منظورکردہ ’افراد باہم معذور‘ کے حقوق سے متعلق خصوصی معاہدے‘ موتمر یا عہدوپیمان (کنوینشن) میں دیئے گئے اصولوں کی روشنی میں بنایا گیا اُور اِس کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ریاست کسی بھی شخص بالخصوص معذور افراد سے امتیازی سلوک نہیں کرے گی۔ معذور افراد کو مراعات دی جائیں گی تاکہ وہ دیگر معاشرے کے دیگر طبقات کے مساوی‘ ہم پلہ اُور شانہ بشانہ قومی تعمیروترقی میں اپنا کردار ادا سکیں۔ (یہ قانون سندھ حکومت کی ویب سائٹ sind.gov.pk سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ) کیا جا سکتا ہے۔

دس جنوری دوہزاربیس: وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شریں مزاری نے قومی اسمبلی میں مسودہ قانون بعنوان ”آئی سی ٹی رائٹس آف پرسنز ود ڈس ایبلٹی ایکٹ 2020ء“ جمع کروایا اُور فروری 2020ءمیں قومی اسمبلی نے 14 صفحات پر مشتمل اِس قانون کو منظور کر لیا جس کا بنیادی نکتہ پاکستان کے آئین میں مذکور معذور افراد کے انسانی حقوق کی ادائیگی اُور اِنہیں معاشرے میں باعزت مقام اُور یکساں تعلیم و تربیت اُور ترقی کے موقع فراہم کرنا ہے۔ مذکورہ قانون اگرچہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کی حدود (اسلام آباد کپیٹل ٹریٹی) سے متعلق ہے لیکن چونکہ یہ پاکستان کے آئین کی مختلف شقوں کو مدنظر رکھتے ہوئے معذور افراد کے حقوق کی نشاندہی اُور ادائیگی کی غرض سے بنایا گیا ہے اِس لئے وفاق کی اکائیاں (چاروں صوبے‘ آزاد کشمیر اُور گلگت بلتستان) اگر چاہیں تو اِس سے رہنمائی لے سکتی ہے کیونکہ یہ 220 مربع کلومیٹر پر پھیلے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد یا اِس کی قریب ’بارہ لاکھ‘ آبادی کے لئے مخصوص تو ہے لیکن اِس کی جامعیت و معنویت متقاضی ہے کہ اِس سے صوبائی حکومت بھی رہنمائی لیں اُور اِس آئینے میں اپنے ہاں معذور افراد کی صورتحال کا جائزہ لیں۔ مذکورہ قانونی دستاویز قومی اسمبلی کی ویب سائٹ (na.gov.pk) سے مفت حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ قومی اسمبلی 1981ءمیں خصوصی افراد کی بہبود‘ اِن کے ملازمتی حقوق اُور اِن کی بحالی کے لئے حکومتی امداد کا قانون منظور کر چکی ہے جس کے تحت معذور افراد کے ’آئینی حقوق‘ کو تسلیم کرتے ہوئے اِن حقوق کی ادائیگی کا عہد کیا گیا۔

اکتیس اکتوبر دوہزاراکیس: صوبہ پنجاب کے وزیر برائے سماجی بہبود (سوشل ویلفیئر) اُور بیت المال سیّد یاور عباس بخاری نے ’معذور افراد‘ سے متعلق مسودہ قانون صوبائی اسمبلی میں جمع کروانے کا اعلان کیا‘ جس کا بنیادی نکتہ خصوصی افراد کے ہر قسم کے حقوق کی ادائیگی کرتے ہوئے انہیں سماجی‘ سیاسی اقتصادی طور پر بااختیار بنانا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ایسا نہیں تھا کہ اِس سے قبل پنجاب میں خصوصی افراد سے متعلق قانون موجود نہیں تھا بلکہ 6 اپریل 2015ءکے روز پنجاب کی صوبائی اسمبلی نے خصوصی افراد کو بااختیار بنانے اُور اِن کی بحالی سے متعلق ایک ترمیمی بل منظور اُور بعدازاں اِسے پورے صوبے پر لاگو کر دیا تھا۔ مذکورہ قانون پنجاب حکومت کی ویب سائٹ (punjablaws.gov.pk) سے مفت حاصل (ڈاؤن لوڈ )کی جا سکتی ہے۔ الغرض یہ کہ پاکستان میں معذور افراد کے حقوق سے متعلق صوبائی اُور وفاقی سطح پر قانون سازی ہر جمہوری و غیرجمہوری دور ِحکومت میں ہوتی رہی ہے بلکہ غیرجمہوری اُور آمرانہ ادوار کی خاص بات یہ ہے کہ اِس دوران قانون سازی کم لیکن معذور افراد کے حقوق کی عملاً ادائیگی بہرحال زیادہ دیکھنے میں آئی۔ حالیہ دنوں میں پنجاب حکومت معذور افراد کے بارے میں نیا قانون لائی ہے تاہم 2021ءمیں پیش کردہ اِس قانون کو فوری لاگو کرنے کے لئے حکومت پر ’لاہور ہائی کورٹ‘ کا شدید دباؤ ہے۔ قابل ذکر ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس جواد حسن نے عوامی مفاد کی 2 درخواستوں کو یکجا کرتے ہوئے سماعت کے دوران صوبائی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ ”دی پنجاب ایمپاورمنٹ آف پرسنز ود ڈیفرنٹ ایبلی ٹیز ایکٹ 2021ئ“ کو اِس کی روح کے مطابق لاگو کر کے عدالت کو مطلع کرے۔ یہ مقدمہ معذور خاتون وکیل ثناءخورشید اُور ’جوڈیشل ایکٹوازم پینل‘ نامی وکلاکی تحریک کے سربراہ اظہر صدیقی نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کر رکھا ہے۔ سماعت کے دوران ایک مرحلے پر عدالت کی جانب سے یہ ریمارکس بھی سامنے آئے کہ ہر معاملے میں قانون سازی کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ صوبائی حکومت سماجی بہبود‘ بیت المال اُور دیگر فلاحی حکومتی اداروں کے قواعد (رولز آف بزنس) میں تبدیل کر کے بھی معذور افراد کے حقوق کی ادائیگی کر سکتی ہے لیکن اگر نیت اُور ارادہ موجود ہو۔ 

سیاسی جماعتوں میں قدر مشترک یہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپنے انتخابی منشور میں اَفراد باہم معذور کے حقوق تسلیم کرتی ہے اُور برسراقتدار آنے کے بعد اِن حقوق کی ادائیگی کا وعدہ کرتی ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ معذور افراد کے بارے اصلاحات قانون سازی اُور اِس قانون سازی کی روشنی میں قواعد سازی سے آگے نہیں بڑھ سکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے مرکزی رہنماؤں یا کلیدی فیصلہ سازوں پر مشتمل اسٹیئرنگ یا کور کمیٹی میں معذور افراد کی نمائندگی دکھائی نہیں دیتی اُور نہ ہی یہ سیاسی جماعتیں خصوصی افراد کو قومی یا بلدیاتی انتخابات میں حصہ لینے کے لئے نمائندگی اُور سہارا دیتے ہیں۔ یقینا معذور افراد سے متعلق قانون سازی بھی اہم ہے لیکن یہ خصوصی افراد تعلیم و تربیت کے شعبے میں خاطرخواہ حکومتی توجہ سے محروم ہیں۔ حال ہی میں وفاقی حکومت کی کوششوں سے یکساں نصاب ِتعلیم ملک بھر میں مرحلہ وار لاگو ہونے کے عمل کا آغاز ہوا ہے لیکن اِس مرحلے پر بھی ’افراد باہم معذور‘ کے لئے نصاب ِتعلیم و تربیت پر خاطرخواہ توجہ نہیں دی گئی۔ خصوصی افراد کے حقوق کی ادائیگی کا ”آسان طریقہ“ یہ ہے کہ اِنہیں مقامی حکومتوں (بلدیاتی نظام) میں شریک سفر کیا جائے اُور جس طرح مزدور کسان نوجوان خواتین اُور اقلیتوں کی سرپرستی کی گئی ہے اِسی طرح خصوصی افراد کے لئے کم سے کم ضلعی سطح پر ایک نشست مختص کی جائے کیونکہ یہ افراد دیگر لوگوں کی طرح ”رابطہ عوام مہم“ میں حصہ نہیں لے سکتے۔ اِن کی اکثریت مالی طور پر مستحکم بھی نہیں ہوتی اُور جس قدر بھی خودانحصار ہوں لیکن اِنہیں روزمرہ امور میں توجہ کی ضرورت رہتی ہے۔ پاکستان کے کل 160 اضلاع ہیں۔ اگر قومی سطح پر ایک سو ساٹھ اضلاع سے افراد باہم معذور بطور بلدیاتی نمائندے ضلعی فیصلہ سازی میں شامل کئے جائیں تو اِس سے صوبائی اُور وفاقی سطح پر سماجی بہبود اُور بیت المال کے اداروں کا کام کاج نہایت ہی آسان ہو جائے گا اُور قومی سطح پر ’خصوصی افراد‘ کے حقوق کی ادائیگی ایسی مثالی صورت میں عملاً ممکن بھی ہو جائے گی‘ جس کا پاکستان نے عالمی برادری سے وعدہ کر رکھا ہے اُور اگر معذور افراد سمیت معاشرے کے کمزور طبقات کے حقوق کی ادائیگی بطور ترجیح کی جائے تو اِس اقدام سے اقوام متحدہ کے ایک ذمہ دار رکن ملک ہونے کی حیثیت سے پاکستان کی عالمی ساکھ میں بھی بہتری آئے گی۔ 

....


No comments:

Post a Comment