ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی : مچھلی منڈی
شہری زندگی کے دکھ سکھ شمار کئے جائیں تو پشاور کے اندرون شہر گنجان آباد علاقوں کا المیہ یہ سامنے آئے گا کہ یہاں کے مسائل کا حل تلاش کرنے کی ہر کوشش ناکام ہوتی ہے۔ انسداد تجاوزات سے لیکر تعمیروترقی تک‘ ہر نیت‘ عزم اُور کوشش کا ایک جیسا مایوس کن نتیجہ سامنے آتا ہے اُور اگر اِس بات پر یقین نہ آئے تو سال 1900ءمیں تعمیر ہونے والے ’گھنٹہ گھر‘ کے اطراف میں دیکھتے ہی دیکھتے قائم ہونے والی ’مچھلی منڈی‘ سے پیدا ہونے والے مسائل و مشکلات کو دیکھا جا سکتا ہے جو بدبو‘ گندگی‘ کیچڑ اُور تجاوزات کا باعث ہے۔ ویسے تو یار لوگ پورے پشاور ہی کو ’مچھلی منڈی‘ قرار دیتے ہیں لیکن حقیقتاً گھنٹہ گھر بازار کی مچھلی منڈی شہر سے باہر منتقل ہونی چاہئے کیونکہ چند برس پہلے تک گھنٹہ گھر بازار کے مقام پر مچھلی فروشوں کی چند ایک دکانیں ہوا کرتی تھیں لیکن اب یہ تھوک (ہول سیل) منڈی کی شکل اختیار کر گیا ہے جس کا نصف کاروبار فٹ پاتھ پر اُور باقی ہتھ ریڑھیوں کی صورت گھنٹہ گھر سے چوک یادگار تک پھیلا ہوا ہے‘ ظاہر ہے کہ اِس قدر لاقانونیت کے درپردہ بدعنوانی چھپی ہوئی ہے‘ ورنہ کسی کی جرات نہیں ہو سکتی کہ کسی دور دراز ضلع سے پشاور وارد ہو کر یہاں کے بازاروں پر قبضہ کر لے!
کون نہیں جانتا کہ مچھلی فروشوں نے دکانوں کو گوداموں میں تبدیل کر رکھا ہے جہاں دن کے آغاز پر مچھلی کی نیلامی‘ دن کے وسط میں مچھلی کی فروخت اُور دن کے اختتام پر تلی (ڈیپ فرائی) مچھلی ملتی ہے۔ لائق توجہ نکتہ یہ ہے کہ صوبائی حکومت نے گھنٹہ گھر سے ملحقہ بازار (ثقافتی راہداری) کو سیاحوں کے لئے پرکشش بنانے کے جامع منصوبے پر ’60 کروڑ‘ جیسی خطیر رقم خرچ کی لیکن یہ ساری کی ساری کوشش رائیگاں ہو چکی ہے اُور مچھلی فروشوں سمیت گھنٹہ گھر سے بازار کلاں تک دکاندار فٹ پاتھ ہڑپ کر چکے ہیں جبکہ سڑک کے دونوں اطراف پر آٹو رکشاؤں کی اجارہ داری رہتی ہے اُور اِس درمیان ہتھ ریڑھیاں‘ کار پارکنگ اُور بھیک مانگنے والوں کے جھتے آمدورفت کو ناممکن حد تک دشوار بناتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ ٹریفک جام کی وجہ سے گھنٹہ گھر سے بازار کلاں تک دھویں کے بادل بھی یہاں کی نشانی بن چکے ہیں۔
پشاور کی ثقافتی راہداری کیا ہے؟
اِس منصوبے پر کل کتنی لاگت آئی؟ اُور اِسے کیوں بنایا گیا؟
اگر عام آدمی (ہم عوام) اِن سوالات کے جوابات جان لیں تو اُمید ہے کہ اہل پشاور ’ثقافتی راہداری‘ ہی نہیں بلکہ پشاور کی تاریخ و ثقافت سے جڑی ہر شے اُور ہر خوبی کی حفاظت کریں گے۔ گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر ثقافتی راہداری (ہیٹریج ٹرائل پراجیکٹ) منصوبے کا سنگ بنیاد سات دسمبر 2017ءکے روز رکھا گیا اُور اِس قریب نصف کلومیٹر رہداری میں گورگٹھڑی کے مغربی دروازے سے گھنٹہ گھر تک 40مکانات کو اصل حالت میں بحال کیا گیا جبکہ ایسی 87 عمارتیں جو جدید فن تعمیر کے مطابق بنائی گئیں تھیں اُنہیں تاریخی شکل و صورت دی گئی اُور یہ سارا کام ’اقوام متحدہ‘ کے وضع کردہ تاریخی عمارتوں کی مرمت‘ بحالی و تحفظ کے اصولوں کے مطابق کیا گیا اُور اِس بات پر خصوصی توجہ دی گئی کہ مذکورہ ثقافتی راہداری میں شامل ہر عمارت اُور ہر شے کم سے کم 100 سال پرانی دکھائی دے۔ اِسی ثقافتی راہداری منصوبے میں سیٹھی ہاؤس کی بحالی و مرمت بھی مکمل کی گئی جو محکمۂ آثار قدیمہ کی ملکیت میں سال 2006ءسے تھا اُور یہ مکان 1850ءسے 1884ءکے درمیان تعمیر ہوا تھا۔ اِس منصوبے پر لاگت کا ابتدائی تخمینہ 51 کروڑ (513ملین) روپے تھے جب کہ اِس کی تکمیل تک 70 کروڑ 70 لاکھ (707ملین) روپے خرچ ہو چکے تھے کیونکہ ثقافتی راہداری میں بعدازاں سیٹھی ہاو¿س کی بحالی کو بھی شامل کر لیا گیا اُور اِس ساری کوشش کا مقصد ’پشاور کے پرکشش سیاحتی مقامات میں اضافہ اُور ملکی و غیرملکی سیاحوں کو پشاور کی جانب متوجہ کرنا تھا تاکہ سیاحت کے فروغ سے ملکی و مقامی معیشت کو سہارا دیا جا سکے لیکن ثقافتی راہداری سے جڑا کوئی ایک بھی ہدف حاصل نہیں کیا جاسکا۔
چند بنیادی سوالات کا جواب کون دے گا؟
1: گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر تک تجاوزات ختم کرنے کی ذمہ داری کسے سونپی جانی چاہئے؟
2: گورگٹھڑی سے گھنٹہ گھر تک راہداری ہر قسم کی ٹریفک کے ممنوع قرار دی گئی تھی تاہم تاجروں کے دباؤپر اِسے پہلے یک طرفہ ٹریفک کے لئے کھولا گیا اُور بعدازاں ٹریفک یک طرفہ نہیں رہی بلکہ انتہائی بے ہنگم صورت اختیار کر چکی ہے۔ ٹریفک پولیس نے لاکھوں روپے خرچ کر کے ثقافتی راہداری کے داخلی و خارجی راستوں پر آہنی رکاوٹیں کھڑی کیں اُور نگرانی کے لئے کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے بھی نصب کر رکھے ہیں لیکن اِس کے باوجود یک طرفہ ٹریفک کے لئے نصب آلات تک چوری کر لئے گئے۔ ثقافتی راہداری بنانے پر قومی خزانے سے اخراجات کئے گئے اُور اِسے قدیم تعمیراتی شکل و صورت دینے کا مقصد بھی یہی تھا کہ یہاں کی سیر کے لئے آنے والے پشاور کی بودوباش اُور یہاں کے قیام و طعام سے متعلق اچھی یادیں اپنے ساتھ لیکر جائیں لیکن اِس مقصد کا حصول ’منظم ٹریفک‘ کی صورت ممکن ہے جس کے لئے پشاور ٹریفک پولیس کے ایک ایک اہلکار کو اِس کے داخلی‘ خارجی اُور وسطی مقام پر تعینات ہونا چاہئے۔ اگر ٹریفک پولیس کے فیصلہ ساز پورے پشاور کی ٹریفک کو درست نہیں کر سکتے تو کم سے کم ایک کلومیٹر کے علاقے ہی میں ٹریفک کو مثالی شکل و صورت دے سکتے ہیں اُور یہ پولیس کے بااختیار فیصلہ سازوں کی ذہانت و فرض شناسی امتحان (آزمائش) ہے۔
3: ”والڈ سٹی اتھارٹی“ کے نام سے ایک جامع منصوبہ سرد خانے کی نذر ہے‘ جس پر عملدرآمد وقت کی ضرورت ہے۔
4: ثقافتی راہداری کی تعمیر کا کام محکمۂ آثار قدیمہ کے ذریعے مکمل کروایا گیا جنہوں نے عالمی معیار کے مطابق اِس کی نوک پلک سنواری لیکن اِس کے بعد کوئی بھی حکومتی ادارہ اِس ذمہ داری کو تن تنہا اُٹھانے کے لئے تیار نہیں۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پشاور کی ضلعی حکومت کو ’ٹاؤن ون‘ کی حدود میں اِس ثقافتی راہداری کا نگران و منتظم مقرر کیا جائے تاکہ کروڑوں روپے کی اِس تعمیر کو نقصان پہنچانے اُور اِس کے اثاثے چوری کرنے والوں نمٹا جا سکے۔
5: ثقافتی راہداری سے متصل تجارتی مراکز اُور بازاروں کی الگ الگ تاجر و دکاندار تنظیمیں موجود ہیں‘ جنہیں اِس راہداری کی حفاظت و خوبصورتی کے عمل میں شریک بنایا جا سکتا ہے۔ دکاندار دن کے اختتام اُور دن کے آغاز پر گندگی پھیلاتے ہیں جسے رش کے باعث سارا دن نہیں اُٹھایا جا سکتا۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ دکاندار صفائی ستھرائی اُور پانی جیسی سہولیات سے استفادہ تو کرتے ہیں لیکن وہ اِن خدمات کے عوض معمولی (واجبی) ماہانہ فیس ادا نہیں کر رہے تو اِس سلسلے میں ٹاؤن ون کے منتخب بلدیاتی نمائندے ثقافتی راہداری اُور اِس کے اطراف میں فن تعمیر کی شاہکار عمارتوں کے لئے خطرہ بنے عوامل کا ۔
6: ثقافتی راہداری سے متصل رہائشی علاقوں کے مکینوں سے نمائندہ افراد کو نگران و انتظامی کمیٹی کا حصہ بنایا جائے‘ جن کی آمدروفت اُور معمولات ِزندگی شہری و رہائشی علاقوں کے درمیان ختم ہوتی تمیز و تفریق کے باعث شدید متاثر ہے لیکن اُن کی فریاد سننے کے لئے کوئی بھی تیار نہیں۔ وقت ہے کہ پشاور شہر کے وسائل پر اغیار کے تصرف کو قواعد پر بلاامتیاز و سخت ترین عمل درآمد سے کم کیا جائے۔
....
![]() |
Clipping from Daily Aaj Peshawar 03 July 2022 Sunday |
![]() |
Zarf e Nigha Logo |
No comments:
Post a Comment