Wednesday, July 13, 2022

White Collar Criminals, Accountability & the Judicial System!

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام (ناقابل اشاعت)

جرم کہانی: اِحتسابی ٹوٹکے

لوکل کونسل بورڈ صوبہ سرحد (حال خیبرپختونخوا) کے سیکرٹری (مالیاتی و انتظامی امور کے سربراہ) لائق خان نے (4 مئی 2002ءکے روز) اپنے آپ کو ’نیشنل اکاو¿نٹی بیلٹی بیورو (NAB)‘ حکام کے سامنے پیش کیا۔ اُن پر مالی بدعنوانی کے الزامات ہیں اُور وہ گرفتاری کے بچنے کے لئے جون سے 2000ءسے ’نیب‘ کو مطلوب تھے لیکن 2 سال روپوش رہے۔ اِس روپوشی کے دوران ’مارچ2002ء‘ میں لائق خان کے صاحبزادوں نے آخری مرتبہ ’پلئی بارگین (plea bargain)‘ کی درخواست کے ذریعے اپنے والد کو گرفتاری سے بچانے کی کوشش کی تاہم نیب حکام نے یہ کہتے ہوئے مذکورہ درخواست مسترد کر دی تھی کہ قانون و قواعد کے مطابق صرف اُسی شخص کو ’پلئی بارگین (نیب کے ساتھ سودے بازی)‘ کا حق (موقع) دیا جاتا ہے جو زیرحراست ہو یعنی جس کا مقدمہ زیرسماعت ہو لیکن چونکہ لائق خان (عرصہ 2 سال سے) روپوش ہے اِس لئے اُن کے دامن پر لگا بدعنوانی کا داغ صرف قانونی کاروائی (حراست و مقدمے) ہی کے ذریعے دُھل سکتا ہے! ذہن نشین رہے کہ ’نیب قانون 1999ئ‘ کی شق (سیکشن) 9 اُور شق 10 کے تحت ’لائق خان‘ پر آمدنی سے زائد یعنی 5 کروڑ 30 لاکھ (53.2ملین) روپے اثاثہ جات رکھنے کا الزام عائد کیا گیا۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ صوابی کے گاؤں کوٹھہ (Kotha) سے تعلق رکھنے والے لائق خان ایک پیش امام کے بیٹے تھے اُور اُنہیں موروثی طور پر صرف 3 کنال 3 مرلہ اراضی ملی تھی۔ آپ 1957ءمیں ’ایگری کلچر اسسٹنٹ‘ کے عہدے پر بھرتی ہوئے۔ 1967ءمیں ’لوکل کونسل سروس‘ اختیار کی اُور 1988ءسے 1997ء(ریٹائرمنٹ) تک بطور ”سیکرٹری لوکل کونسل سروس‘ تعینات رہے۔ تفتیش سے معلوم ہوا کہ ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھنے والے لائق خان نے مختلف شہروں میں جائیدادیں خریدیں اُور صرف حیات آباد پشاور میں آپ کے 38 پلاٹس (قطعات اراضی) ہیں‘ جن کی مالیت کروڑوں روپے ہے۔ لائق خان پر یہ بھی الزام ہے کہ اُنہوں نے اپنے نام کے علاؤہ اپنی بیوی‘ بیٹوں‘ داماد اُور دیگر عزیزوں کے نام پر جائیدادیں خریدیں‘ جن میں سے ایک حاضر سروس عزیز ’لوکل گورنمنٹ ڈیپارٹمنٹ‘ ہی میں ’سب انجنیئر‘ کے عہدے پر تعینات ہے۔ اِس تفتیش (حقائق) کی روشنی میں لائق خان کے خلاف ”17 جون 2000ئ“ کے روز ’گرفتاری کے وارنٹ‘ جاری کئے گئے لیکن ’پراسرار‘ طریقے سے اُنہیں اپنے خلاف نیب کی تفتیش اُور گرفتاری کے وارنٹ جاری ہونے کی خبر ہو گئی اُور وہ روپوش ہو گئے! گرفتاری کے لئے (مبینہ طور پر) کئی مرتبہ کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہوئی اُور بالآخر نیب عدالت نے 26جولائی 2000ءکے روز اُنہیں مفرور قرار دےدیا۔ 

نیب حکام نے لائق خان کے بیٹوں‘ داماد اُور رشتے دار کے خلاف بھی مقدمہ درج کیا لیکن کوئی بھی حربہ کارگر نہ ہوا۔

 واضح ہوا کہ

پہلی بات: لائق خان پر آمدن سے زائد اراضی (اثاثہ جات) رکھنے کے ناقابل تردید ثبوت (جائیداد کی صورت) موجود ہیں۔

 دوسری بات: لائق خان اُور اِس کے شریک ِجرم کی ملکیت میں جائیداد کے علاو¿ہ بھی ممکنہ اثاثہ جات (اندرون و بیرون ملک بینک اکاؤنٹس‘ بینک لاکرز‘ زیورات‘ گاڑیاں‘ فرنیچر‘ گھروں کی آرائش و زیبائش) جیسے اثاثوں کو شامل نہیں کیا گیا جس کی وجوہات جلدبازی‘ ناکافی تفتیش اُور بدعنوانی کے ملزمان کے ساتھ ہمدردی و نرمی کا رویہ ہے۔

تیسری بات: اگر لائق خان روپوش اُور بعدازاں مفرور ہوا تو اُس کے شریک مجرم پکڑے جا سکتے تھے اُور یہی ’وعدہ معاف‘ گواہ بن کر ’بدعنوانی کی غضب کہانی‘ کے وہ تفصیلات بھی بیان کر دیتے جو نیب حکام کے وہم و گمان میں نہ ہوتیں لیکن ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا جس سے ’لائق خان‘ اُور اُن کے شریک مجرموں کو ذہنی یا جسمانی اذیت پہنچتی۔

چوتھی بات: لائق خان کے کل اثاثہ جات (کی گئی بدعنوانی) کا تخمینہ پانچ سے ساڑھے پانچ کروڑ روپے لگایا گیا جبکہ صرف حیات آباد میں اُس کی ملکیت کے 38 پلاٹس کا ذکر کیا گیا اُور اگر اِن قطعات اراضی ہی کی مارکیٹ ویلیو دیکھی جائے تو یہ اربوں روپے بنتی ہے!

لائق خان کی جرم کہانی‘ اُن کی روپوشی‘ مفروری اُور مئی 2002ءمیں رضاکارانہ گرفتاری کے بعد سے آج تک (جولائی 2022ئ) تک کہانی (مقدمہ) جاری ہے لیکن ایک پیسے کی بھی بدعنوانی ثابت نہیں کی جا سکی کیونکہ لائق خان نے وہ سبھی ’ٹوٹکے‘ استعمال کئے ہیں‘ جن سے صرف نیب قانون ہی نہیں بلکہ عدالت بھی اُن کے سامنے ڈھیر ہے۔ آمدنی سے زائد اثاثہ جات کی صورت بدعنوانی کے ناقابل تردید شواہد موجود ہونے کے باوجود بھی قانون و ریاست ’لائق خان‘ اُور اِس شریک جرم ساتھیوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ اِس پوری ’جرم کہانی‘ کا ایک ”دلچسپ پہلو“ یہ بھی ہے کہ لائق خان کی جانب سے گرفتاری اُور عدالتی سماعتوں (زحمت) سے بچنے کے لئے ’پلئی بارگین‘ کی جو درخواستیں دی گئیں اُن پر بعدازاں نیب حکام نے فیصلہ کرتے ہوئے لوٹ مار سے جمع کردہ وسائل کی ایک خاص تناسب سے رضاکارانہ واپسی (جس کی قانون میں گنجائش (سقم) موجود ہے) پر تصفیہ کیا اُور ’لائق خان‘ کو کہا گیا کہ وہ مجموعی طورپر 68 لاکھ (6.815ملین) روپے جمع کروا دے اُور لائق خان نے یہ رقم قسط وار جمع کروانے کی حامی بھری اُور پہلی قسط کے طور پر23 لاکھ (2.317 ملین) روپے ادا کر کے ایک بڑے بوجھ سے رہائی پائی لیکن بعدازاں مکر گیا۔ اربوں کی بدعنوانی قریب ستر لاکھ روپے کے عوض ”معاف (جائز)“ کرنا کسی بھی صورت انصاف نہیں تھا لیکن یہی طرز ِانصاف پاکستان میں بدعنوانی کی جڑ (بنیادی مسئلہ) ہے۔ 

نیب سے سودے بازی ’تکنیکی ٹوٹکا‘ تھا اُور پہلی قسط (23لاکھ روپے) ادا کرنے کے بعد ’لائق خان‘ نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کیا اُور جسٹس مسرت ہلالی اُور جسٹس اعجاز انور پر مشتمل بینچ کو بتایا کہ

 1: وہ بدعنوان نہیں۔

2: نیب حکام نے زبردستی اُسے ’پلئی بارگین‘ پر مجبور کیا لہٰذا 

3: پلئی بارگین کی صورت نیب کی جانب سے اُس سے وصول کردہ 23 لاکھ (2.317ملین) روپے واپس دلائے جائیں اُور عدالت نے عیدالاضحی کی تعطیلات سے قبل (جولائی 2022ء) ’نیب حکام‘ کو حکم دیا کہ سات سال قبل (16 جنوری2015ءکے روز) ’لائق خان‘ سے جو رقم (23 لاکھ روپے) رضاکارانہ واپسی کے تحت وصول کئے گئے تھے وہ اُسے واپس کر دیئے جائیں! 

تصور کیا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں احتساب کا عمل‘ قانون کی عمل داری‘ قوانین کا اطلاق اُور خوف کس قدر کمزور ترین سطح پر ہیں اُور مذکورہ عرصے (دو دہائیوں) کے دوران بدعنوانی کے اِس ایک (مذکورہ) قضیے میں کس قدر حقائق و شواہد تبدیل کر دیئے گئے ہوں گے!

 لائق خان پاکستان میں ’کرپشن‘ کی واحد مثال یا اِس جاری سلسلے کی پوری کہانی نہیں بلکہ صرف ایک کردار ہے جبکہ اِس کی مثل کئی ایک کردار (ریٹائرڈ یا حاضر سروس سرکاری ملازمین) ہمارے اردگرد موجود ہیں جن کے لئے لائق خان کا مقدمہ اُور اِس مقدمے میں اب تک ہوئی پیشرفت ”حوصلہ اَفزا¿“ ہے کہ اگر کبھی اُن کے خلاف بھی اِحتساب کا قانون حرکت میں آیا‘ تب بھی یہی ’ٹوٹکے (کارگر مجرب نسخے)‘ پہلے سے موجود ملیں گے! ذہن نشین رہے کہ ’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘ نامی عالمی تنظیم کی جانب سے سال 2022ءکے لئے جاری کردہ جدول کے مطابق ”بدعنوان ترین 180 ممالک میں پاکستان 140ویں منصب پر فائز ہے جبکہ سال 2021ءمیں پاکستان 124ویں نمبر پر تھا یعنی ایک سال (12ماہ) کے دوران پاکستان میں بدعنوانی 16درجے بڑھی ہے!

....


No comments:

Post a Comment