ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: ترقیئ معکوس
نئے مالی سال (دوہزاربائیس تیئس) کے دوران پشاور کی مقامی حکومتوں (بلدیاتی اداروں) کو 19ارب روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ تفصیلات کے مطابق اِس خطیر رقم میں سے ترقیاتی (تعمیراتی) عمل کے جو کچھ باقی بچے گا‘ وہ اُونٹ کے منہ میں زیرے کے مترادف ہے! کیونکہ تنخواہوں کی ادائیگی کے بعد صرف 3.47 ارب روپے ترقیاتی عمل کے لئے باقی بچیں گے اُور تصور کیا جا سکتا ہے کہ سیاسی ہو یا بلدیاتی طرزحکمرانی کس قدر مہنگا ہو چکا ہے! رواں مالی سال کے دوران تحصیل میونسپل ایڈمنسٹریشنز (ٹی ایم ایز) کو 68ملین (6 کروڑ 80 لاکھ) روپے جاری کئے جائیں گے۔ اِس تقسیم میں پشاور شہر کو اکتیس کروڑ ساٹھ لاکھ (316 ملین) روپے‘ ٹی ایم اے پشتخرہ کو 80ملین (8 کروڑ) روپے‘ ٹی ایم اے شاہ عالم کو 72ملین (7 کروڑ 20لاکھ) روپے‘ ٹی ایم اے چمکنی کو 83ملین (8 کروڑ 30لاکھ) روپے‘ بڈھ بیر کو 71ملین (7 کروڑ 10لاکھ روپے) اور ٹی ایم اے متھرا کو 72 ملین (7کروڑ 20لاکھ) روپے جاری کئے جائیں گے۔ ترقیاتی فنڈز کی مد میں پشاور شہر کے لئے مجموعی طور پر 918ملین (91 کروڑ 80 لاکھ) روپے اور شہر کے گاؤں اور محلہ کونسلوں کے لئے 612ملین (61 کروڑ 20 لاکھ) روپے دیئے جائں گے۔ اِس پوری تمہید کا خلاصہ یہ ہے کہ 7 تحصیلوں (پشاور شہر‘ شاہ عالم‘ متھرا‘ چمکنی‘ بڈھ بیر‘ پشتخرہ اُور حسن خیل) پر مشتمل (مبنی) ضلع پشاور کے لئے مختص مالی وسائل کا بڑا حصہ سرکاری (بلدیاتی) ملازمین کی تنخواہوں کی نذر ہو جاتا ہے جبکہ باقی ماندہ مالی وسائل میں بیس سے تیس فیصد دفتری (روزمرہ) اخراجات اُور اجلاسوں کے لئے چائے پانی یا اراکین و ملازمین کی آمدورفت پر خرچ ہو جاتا ہے۔ باقی ماندہ ستر فیصد ترقیاتی فنڈز کا نصف تعمیراتی کاموں کے عمل میں پائی جانے والی مالی و انتظامی بدعنوانیوں کے باعث ذاتی اثاثوں میں گھل مل جاتا ہے اُور اِس پوری ترقیاتی حکمت ِعملی (بندوبست) کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ضلع پشاور کے طول و عرض میں ترقیاتی عمل ’ترقیئ معکوس‘ کا نمونہ بنا ہوا ہے۔
پشاور کی ترقیاتی ضروریات شہری و دیہی علاقوں کے لئے الگ الگ ہیں اُور اِنہیں ایک جیسی نظر سے دیکھنا بھی مسئلہ ہے۔ مثال کے طور پر اندرون شہر (تحصیل پشاور سٹی) کی حدود میں قریب نوے فیصد گلیاں کوچے‘ سڑکیں اُور نکاسیئ آب کی نالیاں نالے پختہ ہیں جنہیں ہر چند برس بعد اُکھاڑ کر دوبارہ تعمیر کیا جاتا ہے جبکہ پشاور شہر کی ضرورت نکاسیئ آب کے نظام کی توسیع اُور پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے ٹیوب ویلوں پر انحصار کم کرنا ہے۔ اِس سلسلے میں پشاور کے اطراف میں بنے پانی کے ذخائز (ڈیموں) سے کشش ثقل (گریوٹی فلو) پر پانی کی فراہمی ترجیح ہونی چاہئے جس کا ایک تجربہ جاپان حکومت کے مالی و تکنیکی تعاون سے ایبٹ آباد شہر میں کیا گیا اُور یہ کامیابی سے جاری ہے۔ پشاور کے ضلعی فیصلہ سازوں کو پہلی فرصت میں ایبٹ آباد کی ’گریوٹی فلو اسکیم‘ کا مطالعہ کرنا چاہئے جو اپنی مثال آپ ہے اُور اگرچہ اِس منصوبے کو چند یونین کونسلوں کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تخلیق کیا گیا تھا لیکن بعدازاں توسیع اُور وقفوں سے پانی فراہمی کے ذریعے اِسے نصف سے زیادہ ایبٹ آباد شہر کو پانی فراہم کیا جا رہا ہے تاہم گریوٹی فلو اسکیم میں چند تکنیکی خرابیاں بھی ہیں جو پانی کو ذخیرہ کرنے اُور اِس کی تطہیر کے عمل سے متعلق ہیں اُور جب بلدیاتی نمائندے اِس کا مطالعہ کرنے جائیں گے تو اُنہیں خود وہ سبھی غلطیاں (خامیاں) نظر آ جائیں گی جس کی وجہ سے پانی کا اخراج اُور معیار متاثر ہیں۔
پشاور شہر اُور پشاور کی دیگر 6 تحصیلوں کی ترقیاتی ضروریات میں زمین آسمان کا فرق ہے اُور یہ فرق آمدنی کا بھی ہے اُور اگر صوبائی حکومت بلدیاتی فیصلہ سازوں کے ساتھ مل کر ترقیاتی وسائل کی تقسیم کے لئے آمدنی کا پیمانہ وضع کرے یعنی جس تحصیل کی آمدنی زیادہ ہے وہاں ترقیاتی کام بھی اُسی تناسب سے زیادہ ہونے چاہیئں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ پشاور شہر کی تحصیل سے حاصل ہونے والی آمدنی زیادہ لیکن یہاں ترقیاتی کاموں کے لئے مختص وسائل نسبتاً کم شرح سے جاری کئے جاتے ہیں۔ اِسی طرح ہر تحصیل میں بلدیاتی ملازمین کی تعداد پر نظرثانی ہونی چاہئے اُور دیہی علاقوں پر مشتمل تحصیلیوں کی آمدنی زیادہ لیکن وہاں ترقیاتی ضروریات زیادہ ہیں تو دانشمندی اِسی میں ہے کہ دستیاب مالی وسائل کو غیرترقیاتی اخراجات (ملازمین کی تنخواہوں اُور مراعات) کی بجائے ترقیاتی عمل اُور بالخصوص ایسے ترقیاتی کاموں پر خرچ ہونا چاہئے جن سے آمدنی ممکن ہو۔ پائیدار ترقی کا تصور یہی ہے کہ اِس میں ترقیاتی عمل آمدنی کا ذریعہ ہوتا ہے۔ بلدیاتی فیصلہ سازوں ہر تحصیل کے لئے الگ الگ شرح سے پیشہ ور ٹیکس وضع کرنا چاہئے۔ اندرون شہر جہاں کاروباری سرگرمیاں زیادہ ہیں اُور تاجروں دکانداروں کی آمدنی زیادہ ہے تو اُن پر پیشہ ور ٹیکس کی شرح اُور صفائی و دیگر شہری سہولیات کے عوض ٹیکس کی شرح کا تعین دیہی علاقوں پر مشتمل تحصیل سے مختلف ہونا چاہئے۔ بلدیاتی نظام اپنی ذات میں خیر و برکات کا مجموعہ ہے لیکن یہ نظام صرف نمائندوں کے انتخاب سے مکمل نہیں ہوتا بلکہ اِس کی تکمیل و جامعیت کے لئے دستیاب مالی وسائل کا زیادہ سمجھ بوجھ‘ زیادہ ہوشیاری و ہمدردی اُور زیادہ امانت و دیانت (شفافیت) سے استعمال ہونا چاہئے۔
![]() |
Clipping from Daily Aaj Peshawar Dated 12 August 2022 Friday |
No comments:
Post a Comment