ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام
ضمنی انتخاب یا ریفرنڈم؟
بیس ستمبر 2020ء: پاکستان پیپلزپارٹی کی میزبانی میں ’کل جماعتی کانفرنس‘ میں 26 نکاتی قرارداد منظور کرتے ہوئے حزب اختلاف اتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM)‘ کا قیام عمل میں آیا اُور اِس ’موومنٹ‘ کے زیراہتمام ’سولہ اکتوبر 2020ء‘ کے روز گوجرانوالہ میں پہلے جلسۂ عام کا انعقاد کیا گیا۔ اِبتدا میں ’پی ڈی ایم‘ گیارہ سیاسی جماعتوں (عوامی نیشنل پارٹی‘ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل‘ جمعیت اہل حدیث‘ جمعیت علمائے اسلام (فضل)‘ جمعیت علمائے پاکستان (نورانی)‘ نیشنل پارٹی (بزنجو)‘ مسلم لیگ (نواز)‘ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (محمود اچکزئی)‘ قومی وطن پارٹی اُور جمہوری وطن پارٹی) پر مشتمل تھی جبکہ بعدازاں 3 دیگر سیاسی جماعتوں (بلوچستان عوامی پارٹی‘ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان اُور نیشنل ڈیموکریٹک موومنٹ) نے ’پی ڈیم ایم‘ میں شمولیت کر لی۔
دس اپریل 2022ء: تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان کے خلاف ’پی ڈی ایم‘ کی تحریک ِعدم اعتماد کامیاب ہونے کے بعد اُور شہباز شریف کے بطور وزیراعظم حلف اُٹھانے (گیارہ اپریل) سے قبل تحریک انصاف سے قومی اسمبلی سے کنارہ کشی کر لی اُور تحریک سے تعلق رکھنے والے 123 قومی اسمبلی اراکین نے اپنی اپنی بنیادی رکنیت سے مستعفی ہونے سے اسپیکر قومی اسمبلی کو مطلع کر دیا۔ ’گیارہ اپریل‘ کے روز قومی اسمبلی کی جانب سے مستعفی ہونے والے اراکین کے ارسال کردہ خطوط میں کہا گیا کہ وہ اجتماعی استعفوں کی فرداً فرداً تصدیق کے لئے اسپیکر سے رابطہ کریں لیکن مقررہ تاریخوں (6 سے 10جون) کے درمیان تحریک انصاف کے کسی بھی رکن قومی اسمبلی نے اسپیکر کے سامنے پیش ہو کر مستعفی ہونے کی تصدیق یا انکار کو ضروری نہیں سمجھا۔
اٹھائیس جولائی 2022ء: تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے اجتماعی استعفوں کے 109 دن بعد‘ تحریک کے 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور کرنے کا اعلان قومی اسمبلی کے ٹوئیٹر اکاونٹ (@NAofPakistan) سے کیا گیا۔ مذکورہ اعلان کے مطابق اسپیکر راجہ پرویز اشرف (@RPAPP) نے 2 خواتین سمیت 11 اراکین قومی اسمبلی کے استعفے آئین پاکستان کی شق 64(1) اُور قومی اسمبلی قواعد و ضوابط 2007ء کے تحت منظور کئے تاہم مذکورہ اعلان میں یہ نہیں کہا گیا کہ مرحلہ وار استعفے کیوں منظور ہوئے‘ سب استعفے اکٹھے منظور کیوں نہیں کئے گئے اُور جن گیارہ اراکین قومی اسمبلی کے استعفے منظور ہوئے ہیں اُس کے لئے کس ضابطے یا اصول کو پیش نظر (بنیاد) رکھا گیا ہے۔ یہ سُوال بھی اپنی جگہ جواب طلب اُور حیرت کا باعث رہا کہ تحریک انصاف کے باقی 120 اراکین قومی اسمبلی کی قسمت کا فیصلہ کیوں نہیں کیا گیا اُور اِن کے استعفے مستقبل قریب میں قبول کئے جائیں گے یا نہیں؟
پانچ اگست 2022ء: الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی 9 نشستوں پر ضمنی انتخابات کے لئے اُمیدواروں سے کاغذات نامزدگی طلب جبکہ پولنگ کے لئے اتوار (25 ستمبر 2022ء) کا دن مقرر کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے جنرل نشستوں پر 9 جبکہ خواتین کے لئے مختص نشستوں پر 2 اراکین کے استعفے قبول کرنے کے بعد اُن کے نام (30 جولائی 2022ء کے روز) قومی اسمبلی اراکین کی فہرست سے خارج (ڈی نوٹیفائی) کر دیئے گئے۔
چھ اگست 2022ء: تحریک انصاف نے ’اسلام آباد ہائی کورٹ‘ سے الیکشن کمیشن کی جانب سے ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری کرنے کے خلاف رجوع کیا اُور عدالت سے مداخلت کی درخواست کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ ”ضمنی انتخابات کا جاری کردہ شیڈول معطل کیا جائے کیونکہ عدالت پہلے ہی تحریک انصاف کے اراکین قومی اسمبلی کے مرحلہ وار استعفوں کی منظوری سے متعلق مقدمے کی سماعت کر رہی ہے اُور اِس سلسلے میں 4 اگست کی سماعت کے بعد فریقین کو نوٹسیز جاری ہو چکے ہیں‘ جن کے بارے میں باخبر ہونے کے باوجود الیکشن کمیشن نے انتخابات کا شیڈول جاری کیا ہے اِس لئے ’پانچ اگست‘ کا شیڈول معطل کیا جائے۔“ دوسری طرف ضمنی انتخابات کا شیڈول جاری ہونے کے چند گھنٹے بعد (پانچ اگست شام 7 بج کر 3 منٹ پر) ’عمران خان‘ نے اپنے ٹوئیٹر اکاؤنٹ (@ImranKhanPTI) سے اعلان کیا کہ تمام (9) نشستوں پر وہ بذات خود بطور اُمیدوار انتخابی مقابلے میں حصہ لیں گے یوں یہ ضمنی انتخابات بنیادی طور پر …… 1 (عمران خان) بمقابلہ 14 سیاسی جماعتیں (پی ڈی ایم) …… پاکستان کی سیاسی تاریخ کا انتہائی غیرمعمولی انتخابی معرکہ ثابت ہوگا جس میں حصہ لینے کے لئے دونوں فریقین نے آستینیں اُوپر کر لی ہیں اُور امر واقعہ یہ بھی ہے کہ پاکستان کی سیاست میں اِس سے قبل کبھی بھی ضمنی انتخابات اِس قدر اہم اُور قابل ذکر و زیربحث نہیں رہے۔
تحریک انصاف کے سربراہ (چیئرمین) عمران خان نے ضمنی انتخاب کی آخری تاریخ ختم ہونے سے قبل ’حسب ِاعلان‘ 9 انتخابی حلقوں (کراچی کے تین (این اے 246‘ این اے 237‘ این اے 239)‘ مردان (این اے 22)‘ چارسدہ (این اے 24)‘ پشاور (این اے 31)‘ کرم (این اے 45)‘ فیصل آباد (این اے 108) اُور ننکانہ (این اے 118) کے لئے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کروائے۔ خاص نکتہ یہ بھی ہے کہ تحریک ِانصاف کو انتخابی کامیابی اِس حد تک یقینی دکھائی دے رہی ہے کہ اِس نے خواتین کی مختص نشستوں پر 2 کی بجائے 3 خواتین (شندانہ گلزار‘ روہیلہ حامد اُور مہوش علی) کو نامزد کیا ہے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ تحریک ِانصاف کے سربراہ عمران خان کی جانب سے ضمنی انتخاب کی ہر نشست پر تن تنہا بطور اُمیدوار انتخاب لڑنے کے فیصلے نے ’ضمنی انتخاب‘ کو ’ریفرنڈم‘ میں تبدیل کر دیا ہے جس کا نتیجہ (پولنگ ڈے‘ پچیس ستمبر) اگر ’تحریک انصاف کے حق میں آیا تو اِس سے ملک میں ’صدراتی نظام‘ کے قیام کی راہ ہموار ہو جائے گی۔ صدراتی نظام حکومت میں قومی فیصلے فرد واحد (صدر مملکت) کے حکمنامے سے اُور فوری نافذ العمل ہوتے ہیں۔ تحریک انصاف کے ’3 سال 7ماہ 23 دن‘ پر محیط دور ِحکومت (18 اگست 2018ء سے 10 اپریل 2022ء) کے دوران ”صدارتی طرزحکمرانی“ کے حوالے سے قومی سطح پر بحث و مباحثہ متعارف کروایا گیا جس سے اتفاق کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کاروں‘ شریک ِاقتدار قوتوں اُور عوامی حلقوں کی اکثریت نے اِسے پاکستان کے مسائل کا واحد‘ صائب‘ دیرپا اُور قابل عمل حل قرار دیا تھا اُور اِس حوالے سے قومی اتفاق رائے پیدا کرنے کی خاصی سنجیدہ کوشش دیکھنے میں آئی تھی لیکن بعدازاں چند تکنیکی و آئینی پیچیدگیوں اُور معاشی و سیاسی حالات کی وجہ سے اِس تصور (آئیڈیا) پر عملاً پیشرفت نہ ہو سکی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ 25 ستمبر 2022ء کے روز صرف 9 انتخابی حلقوں کے رائے دہندگان ہی نہیں بلکہ اِن معرکوں پر نظر رکھنے والے کس قسم کے ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہیں اُور بالخصوص مذکورہ ضمنی انتخابات پاکستان میں طرزحکمرانی کے مستقبل کے بارے میں کس سمت کا تعین کرتے ہیں‘ جسے تحریک کے قائدین پہلے ہی ’یقینی کامیابی کی صورت حقیقی آزادی‘ سے تعبیر کر رہے ہیں۔ اِن ضمنی انتخابات سے تحریک انصاف کا مستقبل اُور لائحہ عمل بھی بڑی حد تک واضح ہو جائے گا جس کی ’نئے پاکستان‘ کی تخلیق و تعمیر اُور تعبیر کے لئے بائیس سالہ سیاسی جدوجہد نہ صرف نئی تصوراتی بلندی کو چھو لے گی بلکہ یہ پاکستان میں سیاست کا رخ بھی شاید ہمیشہ ہمیشہ کے لئے بدل کر کے رکھ دے۔ ”میں پیروی اہل سیاست نہیں کرتا …… اِک راستہ اِن سب سے جدا چاہئے مجھ کو (عرش صدیقی)۔“
No comments:
Post a Comment