ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: محرم سیکورٹی پلان
نئے اسلامی سال (محرم الحرام 1444ہجری)کے پرامن آغاز کے لئے مختلف حکومتی اداروں نے مربوط حفاظتی حکمت عملیاں (سیکورٹی پلانز) تشکیل دی ہیں‘ جن میں محکمۂ پولیس‘ محکمۂ صحت‘ پشاور کی ضلعی حکومت و انتظامیہ شریک ہیں جبکہ طبی و ہنگامی حالات یا کسی بھی قسم کی صورتحال سے نمٹنے کی بنیادی ذمہ داری 4 ہزار سے زائد ریسکیو اہلکاروں کو سونپی گئی ہے‘ جنہیں 95 ایمبولینسیز اُور 24 آگ بجھانے والی گاڑیوں بمعہ عملہ چاق و چوبند رکھنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔ اہلکاروں کی تعطیلات تاحکم ثانی ختم کر دی گئی ہیں جبکہ حالات پر نظر رکھنے کے لئے ریسکیو حکام نے الگ ’کنٹرول روم‘ بھی بنایا ہے جو ’پولیس کمانڈ اینڈ کنٹرول سنٹر‘ کے ساتھ رابطے میں رہے گا اُور ریسکیو اہلکار محرم الحرام کی مناسبت سے منعقد ہونے والے تمام اجتماعات کے آس پاس تعینات رہیں گے۔ قابل ذکر ہے کہ اِس مرتبہ محرم الحرام کے آغاز سے قبل خیبرپختونخوا حکومت نے پولیس کے لئے مراعات میں اضافہ کرتے ہوئے گریڈ سات سے سولہ کے اہلکاروں کے لئے ’رسک الاؤنس‘ کی شرح میں ’پندرہ فیصد‘ اضافے کا اعلان کیا ہے۔ یکم جولائی دوہزاربائیس سے کئے جانے والے اِس اضافے سے گریڈ سات کے پولیس اہلکار کو ’رسک الاؤنس‘ کی مد میں پہلے 5754 روپے ملتے تھے جنہیں بڑھا کر 7400 روپے کر دیا گیا ہے جبکہ ’گریڈ 9‘ کے ہیڈ کانسٹیبلز کے لئے ’رسک الاؤنس‘ 6227 روپے سے بڑھا کر 8 ہزار روپے کرنے سے پولیس اہلکاروں میں اطمینان پایا جاتا ہے۔ نئے حکمنامے سے ’گریڈ 11‘ کے پولیس اہلکار 8600 روپے‘ گریڈ 14 کے اہلکار 10 ہزار 300 روپے‘ گریڈ سولہ کے اہلکار ماہانہ 12 ہزار 700 روپے بطور الاؤنس وصول کریں گے جو بنیادی تنخواہ کے تناسب سے پندرہ فیصد بڑھایا گیا ہے لیکن یہ سبھی حفاظتی انتظامات اُور دوڑ دھوپ اُس وقت تک ناکافی رہے گی جب تک ’پشاور سیف سٹی پراجیکٹ‘ مکمل نہیں کیا جاتا۔ ذہن نشین رہے کہ گزشتہ 13 برس سے مذکورہ منصوبہ التواکا شکار ہے جبکہ اِس کی تکمیل کے لئے ہر سال صوبائی بجٹ میں خطیر رقم مختص کی جاتی ہے۔ رواں مالی سال دوہزار بائیس تیئس کے صوبائی بجٹ میں بھی ’پشاور سیف سٹی پراجیکٹ کے لئے 50 کروڑ (500ملین) روپے مختص کئے گئے ہیں لیکن ہر سال منصوبے پر لاگت میں اضافے کی وجہ سے یہ منصوبہ ’سفید ہاتھی‘ بن گیاہے جس کے لئے 2009-10ءکے مالی سال سے کوششیں جاری ہیں۔
پشاور سیف سٹی منصوبہ کیا ہے؟
خیبرپختونخوا اسمبلی کو فراہم کردہ دستاویزات اُور پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ سے حاصل کردہ معلومات کے مطابق پشاور کے 850 مقامات جن میں داخلی و خارجی راستے بھی شامل ہیں کی نشاندہی کر دی گئی ہے جہاں 6 ہزار سے زائد کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے نصب کئے جائیں گے۔ اِس منصوبے کو مرحلہ وار مکمل کرنے کی بھی کوشش کی گئی جس کے تحت قبائلی ضلع سے متصل حیات آباد (رہائشی و صنعتی بستی) میں کلوزسرکٹ کیمرے نصب کئے گئے ہیں تاہم یہ مرحلہ وار حکمت عملی سے بھی خاطرخواہ نتائج حاصل نہیں ہو سکے ہیں! قابل ذکر ہے کہ پشاور کے لئے ’سیف سٹی منصوبہ‘ اسلام آباد‘ لاہور کے ساتھ بیک وقت اعلان کیا گیا تھا جسے عملی جامہ پہناتے ہوئے سال 2015ءمیں پنجاب حکومت نے ’سیو سٹیز اتھارٹی‘ بھی بنائی تاکہ لاہور کے علاؤہ پنجاب کے دیگر شہروں کو بھی نگران ٹیکنالوجی کے استعمال سے محفوظ بنایا جا سکے۔ پشاور کے سیف سٹی منصوبے میں تاخیر کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اِس کی تکنیکی ضروریات پر ہر سال نظرثانی کی جاتی ہے اُور فیصلہ سازوں کی تازہ ترین خواہش یہ سامنے آئی ہے کہ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمرے شمسی (سولر) سسٹم سے توانائی حاصل کریں اُور اِنہیں بنا کسی تار (روائتی کنکشن) کسی دور دراز مقام پر‘ پرآسائش دفاتر میں بیٹھ کر کنٹرول کیا جا سکے جبکہ مؤثر پولیسنگ کے لئے نگرانی کا عمل ہزاروں کی تعداد میں ٹیلی ویژن کیمروں سے نہیں بلکہ حسب آبادی پولیس کے افرادی وسائل اُور تھانہ جات کی تعداد میں اضافے سے عملاً ممکن ہے۔ کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں کی مدد سے کسی جرم یا دہشت گردی کے رونما ہونے کے بعد تفتیش میں تو مدد مل سکتی ہے لیکن اِس سے جرائم یا دہشت گردی رونما ہونے سے روکی نہیں جا سکتی یا جرائم و دہشت گردی سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کم کرنا ممکن نہیں۔ اِس لئے پولیس تھانہ جات اُور چوکیوں کی تعداد میں اضافہ ناگزیر ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بارہ سو مربع کلومیٹر پر پھیلے پشاور کی نگرانی کا مرکزی نظام بنانے کی بجائے جس کی دیکھ بھال و دیگر ضروریات پر بھی زیادہ اخراجات آئیں گے‘ ہر تھانے کی حدود میں مقامی کلوزسرکٹ ٹیلی ویژن کیمروں سے نگرانی کا عمل متعارف کرایا جائے تاکہ کسی ایک مرکزی نظام میں خرابی کی صورت پورے پشاور کی سیکورٹی کا ’بلیک آؤٹ‘ نہ ہو۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پولیس کے لئے ’گشتی نگران اسکوڈ‘ تشکیل دینا چاہئے جو کم فاصلے پر کسی بھی علاقے میں فوری طور پر کیمروں کی تنصیب اُور جیو فینسنگ آلات سے لیس ہونا چاہئے۔ اِس نگران گشتی اسکوڈ کی خدمات سے استفادہ خصوصی و عمومی اجتماعات اُور عبادت گاہوں کی حفاظت کے لئے ہونا چاہئے‘ جن میں نصب موبائل فون جیمرز کی مدد سے کسی متعلقہ و ملحقہ علاقوں ہی میں موبائل سروسیز معطل کی جائیں۔ عموماً سات سے دس محرم الحرام (چار دن کے لئے) پشاور شہر میں موبائل فون سروسیز معطل کرنے کے علاؤہ کاروباری مراکز پانچ محرم الحرام ہی سے بند کر دیئے جاتے ہیں اُور یوں ایک غیراعلانیہ کرفیو کے سماں (ماحول) میں معمولات زندگی شدید متاثر ہوتے ہیں۔ ہر سال محرم الحرام سیکورٹی پلان پر تاریخیں اُور آفیسرز کے نام تبدیل کرنے کی بجائے اگر ٹیکنالوجی کے عقلمندی سے استعمال اُور اِس کی خامیوں یا کمزوریوں کو کماحقہ سمجھتے ہوئے حفاظتی حکمت عملی تشکیل دی جائے تو یہ زیادہ بامقصد (باہدف) اُور شہری زندگی کو معطل کرنے کی صورت خوف و ہراس پھیلائے بغیر بھی کارآمد و یادگار ہو سکتی ہے لیکن اِس کے لئے زیادہ محنت کی ضرورت ہوگی۔
پشاور کا محرم الحرام کیا ہے؟
صوبائی دارالحکومت پشاور میں یکم سے دس محرم الحرام کے دوران 126 (شرکا کی تعداد کے لحاظ سے چھوٹے بڑے) ماتمی جلوس برآمد ہوتے ہیں جبکہ مجموعی طور پر پشاور کی 62 امام بارگاہوں میں 306 مجالس کاانعقاد ہوتا ہے۔ اِن میں خواتین کی خصوصی مجالس بھی شامل ہیں جن کا آغاز یکم محرم الحرام سے قبل اُور زیادہ تر چاند رات سے ہوتا ہے۔ ماتمی جلوسوں‘ مجالس اُور سبیلوں کی حفاظت کے لئے 33 ہزار سے زائد پولیس اہلکار تعینات کئے جاتے ہیں‘ جن میں جلوس کی گزرگاہوں میں بلند مقامات اُور مساجد میں بھی پولیس اہلکاروں کو دس روز تک مستقل تعینات رکھا جاتا ہے‘ اِس کے علاؤہ ہر جلوس کے آگے‘ پیچھے اُور دونوں اطراف پولیس کا حصار بنایا جاتا ہے اُور مقررہ مقامات کے علاؤہ جلوس یا مجلس عزا میں شرکت کے لئے داخلے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ جلوسوں اُور اِس کے راستوں کی فضائی نگرانی کی جاتی ہے اُور اِس موقع پر بانیان ِمجلس کے تعاون سے جامہ تلاشی کا انتظام بھی کیا جاتا ہے جس کے لئے ہر امام بارگاہ اپنے افرادی وسائل فراہم کرتا ہے اُور اِس مقصد کے لئے حیدریہ سکاؤٹس‘ مختار فورس‘ امامیہ سٹوڈنٹس و دیگر مقامی تنظیمیں حفاظتی انتظامات و حکمت عملی کا حصہ ہوتی ہیں۔
 |
Clipping from Daily Aaj - 1st August 2022 Monday |
No comments:
Post a Comment