ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
پشاور کہانی: سرپرائز ایلیمنٹ
محرم الحرام کے دوران امن و امان برقرار رکھنے کی کوششیں اِس قدر اچانک اُور اِس قدر وسیع پیمانے پر کی جا رہی ہیں کہ اندرون شہر کے کئی علاقوں میں کاروباری مراکز 2 محرم الحرام ہی سے بند اُور بالخصوص شرپسندوں یا دہشت گردوں پر بند کروا دیئے ہیں جبکہ شہر میں داخلے کے راستے بھی کم کر دیئے گئے ہیں اُور اگر کسی شخص کو گاڑی یا موٹرسائیکل پر اندرون شہر سے بیرون شہر کسی ضرورت کے لئے جانا پڑے تو اُسے مختلف راستوں کی خاک چھاننا پڑتی ہے۔ ماضی میں اِس قسم کے اقدامات و انتظامات 6 محرم الحرام سے کئے جاتے تھے اُور انہی اقدامات و انتظامات کے تحت مذہبی اجتماعات سے ملحقہ مساجد میں ایک ایک پولیس اہلکار کی ’مستقل تعیناتی‘ بھی چھ محرم الحرام ہی سے ہوتی تھی لیکن اِس کا عرصہ بھی بڑھا دیا گیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی قسم کی کوتاہی نہیں کرنا چاہتے اُور اُن کی کوشش ہے کہ محرم الحرام کا پہلا عشرہ (یکم سے دس محرم الحرام) بنا کسی بدمزگی گزر جائے تاہم محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات اُور جلوسوں کا تعلق صرف ’یوم عاشور (دس محرم)‘ تک نہیں بلکہ یہ سلسلہ سوئم امام سے چہلم امام (اربعین) تک پھیلا ہوا ہے جو ’ایام عزا‘ کا حصہ ہے۔
ذہن نشین رہے کہ ’ایام عزا‘ کہلانے والا عرصہ 8 ربیع الاو¿ل تک جاری رہتا ہے‘ جس کے بعد مساجد و امام بارگاہوں اُور مزارات کی سیاہ پوشی ختم کر دی جاتی ہے اُور اِس دوران مجموعی طور پر ہزاروں کی تعداد میں اجتماعات منعقد ہوتے ہیں‘ جن کی حفاظت کے لئے پولیس کو خصوصی انتظامات کرنا پڑتے ہیں اُور یقینا پہلا عشرہ محرم سمیت 2 ماہ 8 دن کے ’ایام ِعزاداری‘ پولیس کے لئے کسی چیلنج سے کم نہیں ہوتے۔ گزشتہ تیس برس کے دوران کئے گئے جو مختلف ”حفاظتی تجربات“ کئے گئے ہیں‘ اُن کی ناکامی کا ثبوت یہ ہے کہ ہر سال ”محرم سیکورٹی پلان“ کے لئے پہلے سے زیادہ ’مالی و افرادی وسائل‘ درکار ہوتے ہیں۔ اضافی پولیس اہلکار دیگر اضلاع سے طلب کرنا پڑتے ہیں‘ جن کی میزبانی بھی پشاور ہی کو کرنا ہوتی ہے اُور یہ ایک مہنگا عمل ہے۔ خیبرپختونخوا کے سیاسی اُور قانون نافذ کرنے والے حفاظتی فیصلہ ساز اگر روائتی انداز میں ’امن و امان‘ سے متعلق ”وقتی حکمت ِعملیاں“ تشکیل نہ دیں تو صورتحال اِس حد تک معمول پر آ سکتی ہے اُور ہر ضلع کی پولیس ہی اُس کی حفاظتی ضروریات کے لئے کافی ہوگی اُور خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع کو حساس و انتہائی حساس اضلاع قرار دینے جیسے جھنجھٹ سے بھی نجات مل جائے گی۔ البتہ اِس ناممکن کو ممکن بنانے کے لئے قانون و قواعد کا بلاامتیاز و سخت ترین اطلاق کی ضرورت ہے جو ”زیادہ محنت طلب‘ مستقل توجہ اُور مصلحت آمیز طرزحکمرانی سے چھٹکارا حاصل کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔“
محرم الحرام کے ابتدائی 4 دنوں میں پشاور شہر سمیت بیرون و مضافاتی شہری و دیہی علاقوں میں بھی کاروباری سرگرمیوں متاثر ہیں۔ شہر میں اجناس کی منڈیاں بند ہیں یا اُن تک رسائی مشکل بنا دی گئی ہے۔ محرم سیکورٹی پلان کے تحت ٹریفک کا نظام بھی اچانک سختیوں کا مجموعہ ہے جبکہ ’غیر رجسٹرڈ گاڑیوں‘ فینسی نمبر پلیٹ‘ بنا نمبر پلیٹ گاڑیوں و موٹرسائیکلوں‘ گاڑیوں کے شیشے کالے کرنے یا ہیلمٹ کا استعمال نہ کرنے والوں کے خلاف اگر محرم الحرام سے ایک ماہ قبل اُور مستقل بنیادوں پر مہم چلائی جائے تو اِس کے زیادہ مفید نتائج برآمد ہوں گے۔ پشاور ٹریفک پولیس کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق محرم الحرام کے پہلے تین دنوں کے دوران بتیس سو پچاس سے زائد موٹرسائیکل سواروں کو ”ڈبل سواری“ کی خلاف ورزی کرنے پر جرمانہ جبکہ موٹرسائیکل کے ملکیتی کاغذات نہ رکھنے والے سینکڑوں موٹرسائیکل کو قبضے میں لے لیا گیا۔ ٹریفک قواعد کے خلاف اِس قسم کا ”کریک ڈاؤن“ اپنی جگہ اہم اُور ضروری ہے تاہم پشاور شہر اُور بیرون شہر کے علاقوں میں نہ تو ٹریفک سگنلز دیکھنے کو ملتے ہیں اُور نہ ہی ٹریفک سائن بورڈز کے ذریعے آمدورفت کے بہاؤ کو نظم و ضبط کا پابند بنایا گیا ہے۔ یہ صورتحال پشاور کے علاؤہ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں زیادہ گھمبیر (ناقابل بیان) ہے۔ محرم سیکورٹی پلان ”غیرضروری“ نہیں ہے لیکن ”غیر حساس“ ضرور ہے۔ جن راستوں کو بند کیا جاتا ہے اُس سے متعلق عوام کو آگاہ کرنے کو ضروری نہیں سمجھا جاتا اُور یہی بات ’محرم سیکورٹی پلان‘ کی سب سے بڑی خامی ہے کہ اِس کا اطلاق جن (ہم عوام) پر کیا جاتا ہے وہ اِس سے بے خبر‘ حیران و پریشان ہوتے ہیں لہٰذا مذکورہ حکمت عملی کا ”سرپرائز ایلیمنٹ“ ختم ہونا چاہئے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ تالی کبھی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی۔ اگر ”سٹی ٹریفک پولیس پشاور“ کے فیصلہ ساز یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کا کام صرف قواعد پر عمل درآمد ہے اُور اِن کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف ’کبھی کبھار‘ سخت کاروائی کرنی ہے تو اِس سے ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کا بنیادی مقصد (ہدف) حاصل نہیں ہوگا۔ صوبائی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ ٹریفک قواعد کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد سے جو جرمانہ وصول کیا جاتا ہے اُس کا ایک خاص حصہ متعلقہ ضلع میں ٹریفک کے نظام کو مرتب کرنے کے لئے مختص کیا جائے۔ موجودہ صورتحال میں ٹریفک پولیس کے اہلکار اُور دفتروں میں بیٹھے اِن کے آفیسرز جرمانوں کی صورت وصول ہونے والی رقم کا ایک خاص حصہ آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں جبکہ اُنہیں ٹریفک قواعد پر عمل درآمد کروانے کی الگ سے تنخواہ اُور دائمی مراعات بھی مل رہی ہوتی ہیں! یہ سراسر غیرمنطقی ہے کہ کسی سرکاری ملازم کو اِس بات کی الگ سے تنخواہ (شاباشی) دی جائے کہ اُس نے اپنی ملازمتی خدمات سرانجام دی ہیں!
پشاور کے ’محرم سیکورٹی پلان‘ کی خاص بات یہ ہے کہ اِس میں حکومت کے پاس فہرست (رجسٹرڈ) ہوئے مقامات ہی پر مذہبی اجتماعات یا مقررہ راستوں پر جلوسوں کے گزرنے کی اجازت دی جاتی ہے جبکہ نئی امام بارگاہوں کا قیام اُور اجتماعات کے نئے مقامات یا جلوسوں کی نئی گزرگاہیں مقرر کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی بلکہ ہر سال ایسا کرنے والوں کے خلاف مقدمات (ایف آئی آرز) درج کی جاتی ہیں اُور اِس سلسلے میں قواعد پر سختی سے عمل درآمد بالخصوص گزشتہ تیس برس سے جاری ہے‘ جس کے خلاف متاثرین نے عدالت عالیہ (پشاور ہائی کورٹ) سے رجوع کیا اُور عدالت نے اِس بات کی اجازت دیدی ہے کہ حکومت کے پاس رجسٹرڈ مقامات کے علاؤہ بھی اہل تشیع جہاں چاہیں محرم الحرام کی مناسبت سے اجتماعات یا ماتمی و منت کے دیگر جلوسوں کا انعقاد کر سکتے ہیں۔ یہ ایک انتہائی اہم پیشرفت ہے تاہم اِس کی وجہ سے پولیس کے موجودہ ’محرم سیکورٹی پلان‘ پر نظرثانی کی ضرورت شاید اِس سال نہ پڑے لیکن آئندہ برس محرم کے حفاظتی انتظامات کے لئے زیادہ مالی و افرادی وسائل مختص کرنا پڑیں گے۔ پشاور ہائی کورٹ کے جسٹس سیّد ارشاد علی اُور جسٹس ڈاکٹر خورشید اقبال پر مشتمل 2 رکنی بینج نے ’دو اگست‘ کے روز امامیہ جرگہ کی محرم کمیٹی کی طرف سے دائر درخواست پر سماعت کی گئی اُور ایسا حسب حال و ضرورت سیکورٹی پلان کی تشکیل سے اتفاق کیا گیا جس میں ہر کسی کو عبادات کرنے کی آزادی حاصل ہو کیونکہ وقت کے ساتھ پشاور کی آبادی بڑھ گئی ہے جس کے تناسب سے عبادت گاہوں اُور مراسم ِعزاداری کی ادائیگی کے مقامات میں اضافہ ضروری ہے۔ محرم الحرام کا تقدس‘ احترام اُور اِس ماہ پیش آنے والے واقعات کی یادآوری کے لئے اجتماعات پشاور میں پائی جانے والی مذہبی رواداری‘ اخوت و محبت کا آئینہ دار ہے اُور اِس گلدستے کا ہر پھول اہم اُور خوشبو کے لحاظ سے منفرد ہے‘ جس کی تب و تاب اُور تروتازگی برقرار رہنی چاہئے۔
....
![]() |
Clipping from Daily Aaj Peshawar 4th August 2022 Thursday |
No comments:
Post a Comment