Friday, August 5, 2022

Muharram ul Harram, as Collective & Practical Responsibility

 ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام

اِجتماعی ذمہ داری

محرم الحرام کے مہینے کی نسبت جس عظیم قربانی سے ہے‘ اُس کو خراج تحسین و عقیدت پہنچانے کا عملی تقاضا یہ ہے کہ نہ صرف (جاری) ماۂ محرم الحرام کی حرمت بلکہ اِن خصوصی ایام میں اِنسانی جان کی عزت و حرمت سے جڑی ”اجتماعی اُور ایک انتہائی بنیادی ذمہ داری“ کا ادراک کیا جائے اُور محرم الحرام کو صرف تذکرے کی حد تک محدود نہ سمجھا جائے۔

 ”کربلا شناسی“ کا عنوان جن سنجیدہ حلقوں میں سارا سال زیربحث رہتا ہے اُن کے ہاں شہدائے کربلا کی استقامت (قیام و مزاحمت)کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی جاتی ہے کیونکہ کربلا میں 2 طرح کے واقعات بیک وقت رونما ہوئے۔ پہلی قسم کے واقعات وہ ہیں جن کا سامنا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اُور آپؓ کے جانثاروں کو پانی کی بندش سے لیکر منصب ِشہادت پر فائز ہونے تک مصائب و بے حرمتی کی صورت برداشت کرنے پڑے جبکہ آپؓ آخری وقت تک دین کے دفاع پر ڈٹے رہے۔ خون خرابے سے گریز کی کوشش کرتے رہے لیکن جب یہ کوششیں رنگ نہ لائیں تو پھر اپنے خون سے ”نقش الا اللہ بر صحرا نوشت“ کرتے ہوئے ”دین است حسینؓ‘ دیں پناہ است حسینؓ .... حقا کہ بنائے لا الہ است حسینؓ“ کی بلند منزل پر فائز ہوئے۔

سن 61 ہجری (بمطابق 680 عیسوی) کربلا میں دوسری قسم کے واقعات وہ پیش آئے‘ جن کا حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ اُور آپؓ کے جانثاروں نے صبرواستقامت کی ایک نئی تاریخ رقم کرتے ہوئے سامنا کیا۔

اصولاً جو کچھ حضرت اِمام حسین رضی اللہ عنہ کی طرف سے عمل کی صورت سامنے آیا وہ زیادہ اہم ہے اُور اُسی کی پیروی ہونی چاہئے جیسا کہ مشکل سے مشکل ترین حالات میں بھی دین کی سربلندی و حفاظت کے لئے شریعت پر عمل‘ جیسا کہ نماز کی بروقت اُور بہرصورت ادائیگی‘ نماز کا قیام‘ قرآن مجید کی تلاوت‘ ذکر و اذکار اُور اللہ تعالیٰ کا شکر چند ایسے اعمال ہیں‘ جنہیں لازماً اختیار کرنے کا درس دیا گیا ہے اُور ”حی علی الفلاح و حی علی خیر العمل“ کی انہی مثالوں پر عمل پیرا ہو کر ہر مسلمان دائمی کامیابی و کامرانی پا سکتا ہے۔

محرم الحرام کے لئے حفاظتی انتظامات ”حساس معاملہ“ ہے جس کا تعلق ’قومی سلامتی‘ سے جڑا ہوا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ ملک بھر میں محرم الحرام کے آغاز سے قبل اِس کے پرامن انعقاد کے لئے ”تازہ دم کوششوں“ کا ”ازسرنو آغاز“ کیا جاتا ہے۔ جملہ حکومتی اداروں کی کوشش یہی ہوتی ہے پہلے عشرے (یکم سے دس) محرم الحرام کے ایام پرامن طریقے سے گزریں یقینا اِس عرصے میں درپیش ’سیکیورٹی چیلنجز‘ اُور مذہبی آزادی جیسے بنیادی انسانی حق کی حفاظت نہیں۔

محرم کے دوران ملک بھر میں منعقد ہونے والے ہزاروں اجتماعات‘ مجالس اور ماتمی جلوسوں کا خوف و دہشت سے محفوظ انعقاد اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ یہ مذہبی اجتماعات خاص نشانے پر رہتے ہیں اُور پاکستان کو کمزور کرنے کی سازش کے لئے محرم کی آڑ میں وار کیا جاتا رہا ہے۔ 1980ءکی دہائی میں فرقہ وارانہ تشدد میں اضافہ ہوا جو ہنوز جاری ہے اُور اِس سے نمٹنے کے لئے ’شعلہ بیاں مقررین‘ کی نقل و حرکت محدود کی جاتی ہے اُور محرم سے قبل اُور محرم کے دوران انتظامیہ علمائے کرام کے ساتھ رابطے میں رہتی ہے تاکہ کسی ایک مسلک کی جانب سے دوسرے مسلک کی دل آزاری نہ ہو لیکن اِس پوری کوشش کی کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ امن دشمن عناصر کی طرح ’سوشل میڈیا‘ پر بھی نظر رکھی جائے کیونکہ ’سائبر اسپیس‘ کا استعمال کر کے بھی خوف و دہشت پھیلائی جا سکتی ہے۔

محرم الحرام ہو یا کوئی بھی دوسرا مہینہ اُور خصوصی ہوں یا عمومی ایام‘ شرپسندی پر مبنی اشتعال انگیز مواد کی تشہیر (اپ لوڈ) کرنے پر عائد پابندی کا اطلاق زیادہ سختی سے ہونا چاہئے کیونکہ شرانگیزی کی کوئی ایک شکل و صورت نہیں بلکہ یہ روپ بدل بدل کر وار کرتی ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں اُور خصوصی جرائم کی تحقیقات کرنے والے خفیہ اداروں میں کسی نہ کسی نام سے خصوصی شعبے (سائبر کرائمز ونگ) موجود ہیں‘ جنہیں ریاستی قوانین اُور اِن کی روشنی میں بنائے گئے قواعد کا سہارا بھی حاصل ہے لیکن انٹرنیٹ اُور موبائل فونز کے ذریعے جعل سازی (فراڈ) عام ہے۔ موبائل فون پر مختصر پیغامات (شارٹ میسیجنگ سروس المعروف ایس ایم ایس) کے ذریعے انعامات جیتنے کے بہانے سادہ لوح لوگوں کو آج بھی شکار کیا جاتا ہے۔ اِس جعل سازی کو روکنے کے لئے حکومتی ادارے تو متحرک ہیں لیکن موبائل فون کی خدمات فراہم کرنے والی کمپنیاں خود کو بری الذمہ بنائے ہوئے ہیں حالانکہ جعل سازی (فراڈ) روکنا صرف حکومتی اداروں ہی کا فرض نہیں بلکہ ایک ”اجتماعی ذمہ داری“ کی صورت یہ کام ہر صارف اُور خدمات فراہم کرنے والے ادارے پر یکساں واجب ہے۔

اجتماعی ذمہ داری کی ذیل میں ”قیامِ امن“ کے لئے کوششیں بھی صرف حکومت اُور حکومتی اداروں کا ’درد ِسر‘ نہیں ہونا چاہئے بلکہ معاشرے کے ہر فرد اُور بالخصوص مذہبی اجتماعات کے منتظمین پر لازم ہے کہ وہ فرقہ واریت کے انسداد کی کوششوں میں صرف وقتی اُور حسب ضرورت شامل نہ ہوں بلکہ اِس کوشش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اُور اِس کوشش کو مسلسل جاری رکھیں۔ خوش آئند ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت اُور ٹارگٹ کلنگز کے واقعات میں نمایاں کمی کمی آئی ہے تاہم اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ صورتحال مثالی ہے۔ رواں برس مارچ میں مرکزی شیعہ مسجد‘ کوچہ رسالدار پشاور پر حملہ امن دشمنوں کے عزائم‘ منصوبہ بندی اُور حملہ کرنے کے استعداد کو بھی ظاہر کرتا ہے اُور یہ حقیقت انتہائی تشویشناک و خطرناک ہے کہ ہر دہشت گردی کے بعد اِس کے تانے بانے بیرون ملک تیار کی گئی سازش اُور مقامی سہولت کاروں سے جا ملتے ہیں۔

سرحدی علاقوں کی نگرانی ریاست کی ذمہ داری جبکہ دہشت گردی کے لئے سہولت کاری کرنے والوں پر نظر رکھنا ”اجتماعی ذمہ داری“ میں آتا ہے۔ خفیہ اداروں کو فرقہ وارانہ عناصر اور ان کے ہمدردوں اُور سہولت کاروں کی تلاش دہشت گردی رونما ہونے میں قبل کرنی چاہئے۔

سوشل میڈیا کی نگرانی ہونی چاہئے تاکہ نفرت انگیز اور اشتعال انگیز مواد کی تشہیر نہ ہو اُور یہاں بھی ذمہ داری اجتماعی ہے کہ ریاست اور سوشل میڈیا خدمات فراہم کرنے والے ادارے اُور بطور صارفین ہر خاص و عام کو چاہئے کہ ’نفرت انگیزی‘ پھیلانے والوں سے اظہار لاتعلقی کریں۔  اِس موقع پر ہر مسلک کے علمائے کرام‘ وعظین و مبلغین کو بھی چاہئے کہ قومی فریضہ سمجھتے ہوئے ”قیام ِامن“ جیسی اجتماعی ذمہ داری کے حصول کے لئے اپنا اپنا کردار ادا کریں۔

....

Clipping from Editorial Page of Daily Aaj Peshawar, 05 August 2022 Friday


No comments:

Post a Comment