Friday, April 14, 2023

Quds Day 2023

 تحریک …… آل یاسین

یوم القدس: جو ہو ذوقِ یقین پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں 

اسرائیل کی جانب سے فلسطینی مسلمانوں کے خلاف یک طرفہ کاروائیاں جیسی جرأت درحقیقت اُس ’اجتماعی بے حسی‘ کا نتیجہ ہے جو مسلم اُمہ پر طاری ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو اسرائیل کے ناجائز وجود اُور انسانی جرائم پر مسلم ممالک کا تجاہل عارفانہ دیکھنے میں نہ آتا اُور اسرائیل کے ہاتھ نہتے مسلمان عورتوں اُور بچوں کے خون سے رنگین نہ ہوتے۔ توجہ طلب ہے کہ اسرائیل نے اُنیس اکتوبر دوہزاراکیس کے روز ’انسداد دہشت گردی کے قانون 2016ء‘ کے تحت چھ سرکردہ فلسطینی سول سوسائٹی تنظیموں کو دہشت گرد تنظیموں کے طور پر نامزد کیا۔ جس کے بعد اِن تنظیموں کا پیچھا کرنے کی منظوری دی گئی اُور ایک فوجی حکم نامے کے ذریعے ’مغربی کنارے‘ میں اسرائیلی فوج نے کاروائیاں کا آغاز کیا۔ سال دوہزاراکیس سے جاری اسرائیل کی فوجی کاروائیوں میں رمضان المبارک کے دوران تیزی دیکھنے میں آتی ہے اُور شاید اِس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اسرائیل مسلم اُمہ کی غیرت‘ مصلحت اُور صبر کو اُس حد تک پہنچانا چاہتا ہے جہاں اِنہیں فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے ظلم و زیادتی پر دکھ یا غم و غصہ محسوس نہ ہو۔ اسرائیل کے کھلے عام ظلم و بربریت کی دوسری وجہ جمہوری اسلامی ایران کی جانب سے ہر سال رمضان المبارک کا آخری جمعۃ المبارک ’یوم القدس‘ کے طور پر پوری دنیا میں منایا جاتا ہے اُور اِس مرتبہ جمعۃ الوداع کل (چودہ اپریل دوہزارتیئس) کے دن نماز جمعہ کے اجتماعات کے بعد اسرائیل اُور اسرائیل کی پشت پناہی کرنے والی عالمی طاقتوں کرنے والوں کے خلاف دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی احتجاج کئے جائیں گے اُور اِن میں شمولیت جذبہئ ایمانی اُور فلسطین سے اظہار یک جہتی کے طور پر ہونا چاہئے کیونکہ فلسطینی مسلمان صرف اپنے حقوق ہی کا نہیں بلکہ امت مسلمہ اُور بالخصوص پاکستان کے دفاع کی جنگ بھی تن تنہا لڑ رہے ہیں اُور اگر اہل پاکستان اُن کے حق میں ایک احتجاجی مظاہرے میں بھی شریک نہ ہو سکیں تو اِس سے زیادہ بے حسی کی بات کوئی دوسری نہیں ہوگی۔

سرزمین فسلطین نے ظہور اسلام سے قبل اور ظہور اسلام کے بعد نشیب و فراز دیکھے لیکن یہ بات حقیقت رہی کہ فلسطین ہمیشہ ہی سے دعوت الٰہی کا مرکز رہا اُور آسمانی کتب میں بھی ’ارض قدس (فلسطین)‘ کی مرتبت ومنزلت بیان ہوئی ہے۔ قرآن پاک کے مطابق خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سفر ِمعراج کے دوران اِسی مقام (مسجد) میں رکے اُور اِس واقعہ کی تفصیل سورہئ مبارکہ اسرأ میں محفوظ ہے (ترجمہ) ”پاک ہے وہ ذات جس نے اپنے بندے (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو راتوں رات مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک کی سیر کرائی“ اُور یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے صرف مسجد اقصیٰ کی سیر ہی نہیں کی بلکہ تبدیلی قبلہ کا حکم آنے سے قبل آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم مسجد الاقصیٰ شریف ہی کی جانب رخ کرکے نماز ادا کیا کرتے تھے۔ تحویل قبلہ کے بعد مسلمانوں کا قبلہ موجودہ ’کعبہ شریف‘ بنا اِس لحاظ سے مسلمانوں کی دلی وابستگی مسجد اقصیٰ سے قائم ہونا ایک فطری ردعمل ہے۔

پہلی جنگ عظیم سے قبل مٹھی بھریہودی یہاں آ کر آباد ہوئے جبکہ اِن سے قبل موجود یہودی آباد کار اپنے ازلی حریف عیسائیوں کے شر سے محفوظ رہنے کے لئے سینکڑوں سال سے مسلمانوں کے زیر سایہ بنا کسی خوف و خطر زندگی بسر کر رہے تھے اُور اُنہیں ہر قسم کے مذہبی امور ادا کرنے کی اجازت حاصل تھی۔ سن 1800ء سے قبل فلسطین میں یہودیوں کی آبادی ’چھ ہزار سات سو‘ تھی لیکن برطانیہ اُور امریکہ کی ایک سوچی سمجھی حکمت عملی (سازش) کے تحت دنیا بھر سے یہودیوں کو فلسطین میں اکٹھا کیا گیا جس کے بعد 1915ء میں فلسطین میں آباد یہودیوں کا تعداد ستاسی ہزار پانچ سو تک پہنچ گئی اُور یہ تعداد بتدریج بڑھتی گئی یہاں تک کہ 1947ء تک فلسطین میں چھ لاکھ تیس ہزار یہودی آباد کر دیئے گئے تھے۔ اِس قدر بڑی آبادی کو ایک جگہ اکٹھا کرنے کے بعد 1948ء میں برطانیہ اُور امریکہ کی اِس ناجائز و غاصب اولاد نے صیہونی ریاست ”اسرائیل“ کے قیام کا اعلان کیا۔ ذہن نشین رہے کہ پہلی جنگ عظیم ہی تاریخ کا وہ منحوس ترین دور تھا جب اسلام دشمن قوتوں نے ارض مقدس فلسطین پر یہودی ریاست کی تشکیل کا منصوبہ بنایا۔ اِس منصوبہ کا ماسٹر مائنڈ برطانیہ اور امریکہ تھا‘ جنہیں انقلاب اسلامی ایران کے بانی آیت اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے ’شیطان بزرگ‘ کا نام دے رکھا ہے۔ اِس شیطان بزرگ کی سازشوں سے 14 مئی 1948ء کے روز ’صیہونی ریاست‘ کے قیام کو عملی جامہ پہنایا گیا اور مسلمانوں کے قلب میں اسرائیل نام کی غاصب اور غیر قانونی ریاست کے وجود کا اعلان کر دیا گیا اُور امریکہ وہ پہلا ملک تھا جس نے 14 مئی 1948ء ہی کے روز اسرائیل کی حکومت کو تسلیم کیا جسے بعدازاں اقوام متحدہ نے بھی تسلیم کیا اُور یوں فلسطین کو تقسیم کرنے کا منصوبہ منظور کرکے مسلمانان عالم کو اقوام متحدہ نے اپنا حقیقی چہرہ دکھایا۔ تاریخ گواہ ہے کہ اپنے قیام سے آج تک‘ اسرائیل کا وجود حقوق بشر کے تابوت میں آخری کیل اور انسانیت کے چہرے پر بدنما داغ ثابت ہوا۔

انقلاب اسلامی ایران (الفجر) کی کامیابی کے چند ماہ بعد‘ اگست 1979ء میں امام خمینیؒ نے فتویٰ دیتے ہوئے ”ملکی و عالمی سطح پر یوم القدس“ منانے کا اعلان کیا اُور اِس پرامن دن کے منانے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ فلسطینی عوام کی حمایت اُور مسلمانوں کے مقدس مقامات میں قبلہ کا درجہ رکھنے والی مسجد اقصیٰ کی بازیابی ممکن بنائی جا سکے۔ یوم القدس کے اِس تاریخ ساز فتوے کی پاداش میں جمہوری اسلامی ایران کے خلاف مختلف حیلوں بہانوں سے عالمی اقتصادی پابندیاں عائد کر دی گئیں جو آج بھی جاری ہیں اُور اِن اقتصادی پابندیوں کا دائرہ وسیع کیا جا رہا ہے لیکن اِمام خمینیؒ اُور انقلاب اسلامی کے بعد امام راحل کی مدبرانہ اور ولولہ انگیز قیادت نے فلسطینی آزادی کے مشن کو جاری رکھا۔ یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امام راحل نے حسینی کردار نبھاتے ہوئے اپنے وطن عزیز سے عالمی سامراج کو بے دخل اور مشرق وسطیٰ سے اس کے اثر و رسوخ کا خاتمہ کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اُور صرف یہی نہیں بلکہ ’اسلام ِنعب (خالص اسلام)‘ کا تصور بھی پیش کیا جو انقلاب اسلامی ایران کے نظریاتی محافظ ثابت ہوا اُور اِسی کی بدولت اِمام خمینیؒ کی تعلیمات کی روشنی میں لائحہ عمل مرتب کیا گیا۔ ذہن نشین رہے کہ اسلام ِنعب ہر قسم کے طاغوت‘ انتہا پسندی‘ تکفیریت اور ہر شکل و صورت میں دہشت گردی کے خلاف ایک منظم و فعال تحریک ہے جس میں دیگر مذاہب اُور تمام فرقوں کا احترام واجب ہے اُور اِسی کے تحت اہل تشیع کے ہاں مرجعیت کو بطور خاص مرکزی اہمیت دی گئی اُور یہی ’یوم القدس‘ کا محافظ و نگران تصور بھی ہے۔ یوم القدس مسلمانوں کو یاد دلاتا ہے کہ اُن کے لئے آزادی کا مفہوم اُور مطلب ”فلسطین کی آزادی اُور مسجد الاقصیٰ (قبلے) کی بازیابی اسلام کا مقدس مشن اُور اِس کے حصول کا عزم (نعرہ) ہے۔“ انقلاب اسلامی کے اِس پروردہ نعرے نے شرق و غرب کے مظلوم عوام کو ظلم و جور کے آگے سر اٹھا کے چلنے کا سلیقہ سکھایا ہے اُور اِسی نعرے کی بدولت مظلوم کو ظالم کے خلاف آواز اٹھانے کی ہمت اور حوصلہ عطا کیا ہے۔ اسی نعرے کے برکات سے قائدمقاومت و مزاحمت حسن نصر اللہ کی قیادت والے ’حزب اللہ‘ متحرک دکھائی دیتی ہے جبکہ حماس نامی تحریک کے جانباز وسائل کی قلت کے باوجود اسرائیل اُور اِس کی پشت پناہی کرنے والوں کو ذہنی تناؤ میں مبتلا کئے ہوئے ہیں۔

 امام خمینیؒ نے کہا تھا (ترجمہ) ”میری دنیا بھر کے مسلمانوں سے اپیل ہیں کہ وہ ماہئ رمضان المبارک کے آخری جمعۃ المبارک بطور ”یوم القدس“ منائیں اور اِس دن فلسطین کے مسلمانوں کے قانونی حقوق کی حمایت میں اتحاد و یک جہتی کا عملی مظاہرہ کریں۔“

……




No comments:

Post a Comment