ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
یاد آوری : مولوی جی رحمة اللہ علیہ
راہ سلوک اُور معرفت الٰہی کے سلسلے اَزل سے قائم اُور اَبد تک جاری رہیں گے۔ ہدایت کے اِن سلسلوں کو عرف عام میں ’تصوف‘ کہا جاتا ہے اُور اِسلام کی تبلیغ و اشاعت میں صوفیا کرام کا کردار و خدمات کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ قیام پاکستان کا خواب بھی ایک صوفی ہی کا الہام تھا جو حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ کو اپنا پیرو مرشد تسلیم کرتے تھے۔ ڈاکٹر علامہ اقبال رحمة اللہ علیہ نے لکھا ”پیر رومی خاک را اکسیر کرد .... اَز غبارم جلوہ ہا تعمیر کرد (ترجمہ) رومی کے نام سے مشہور پیر و مرشد نے مجھے مٹی (خاک) سے سونا (اکسیر) بنادیا۔ (میں قابل ذکر نہیں تھا لیکن اُن کی نظر عنایت کے سبب) میری ذات سے کئی جلوؤں کی تعمیر ہوئی (یعنی میرا کلام و پیغام لافانی ہو گیا۔)“ عرف عام میں ’پیری مریدی‘ کہلانے والے تصوف کا یہ تعلق حضوری بھی ہوتا ہے اُور غائبانہ بھی۔
علامہ اقبالؒ المعروف اقبال ِلاہوری کی پیدائش 9 نومبر 1877ءسیالکوٹ میں ہوئی جبکہ آپ کا وصال 21 اپریل 1938ءلاہور میں ہوا جبکہ مولانا جلال الدین رومی رحمة اللہ علیہ کی ولادت باسعادت 30 ستمبر 1207ءبلخ (افغانستان) میں ہوئی اُور وہ 17 دسمبر 1273ءکے روز دنیا سے پردہ فرمانے کے اگلے دن (اٹھارہ دسمبر) قونیہ (ترکیہ) میں آسودہخاک کئے گئے۔ مولانا رومیؒ کا ایک لقب ’مولوی‘ بھی تھا جو آپؒ کی حکیمانہ تعلیمات اُور فکر کی بے مثال گہرائی کے سبب عام ہوا۔ حوض کے کنارے بیٹھے تصنیف و تالیف میں مصروف تھے کہ ایک درویش پاس آیا اُور سوال کیا کہ کیا لکھ رہے ہو؟ مولانا رومیؒ نے جواب دیا .... ”یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے۔“ درویش نے آپؒ کے ہاتھ سے مسودہ لیا اُور اُسے تالاب میں پھینک دیا۔ مولانا رومیؒ پریشان ہوئے اُور کہا کہ یہ تو میری ساری زندگی کی محنت کا حاصل (کل سرمایہ) تھا۔ اِس پر درویش نے تالاب میں ہاتھ ڈالا اُور وہی مسودہ نکالا جو بالکل خشک حالت میں تھا۔ مولانا رومیؒ نے حیرت سے پوچھا ”یہ کیسے؟“ تو اُنہوں نے جواب دیا ”یہ وہ علم ہے جو تم نہیں جانتے۔“ اِس جواب سے مولانا رومیؒ سب کچھ چھوڑ کر درویش کے پیچھے ہو لئے۔ کہا مجھے تعلیم دیں۔ یہ درویش حضرت شمس تبریز رحمة اللہ علیہ (ولادت 1185 تبریز‘ ایران۔ وصال 1248ءکھوے‘ ایران) تھے جنہوں نے ایک دنیاوی طالب علم کو حقیقی علم یعنی معرفت ِالٰہی کا ’مولوی‘ بنا دیا۔ اپنے پیر و مرشد کے حکم پر بعدازاں مولانا رومیؒ نے ”مثنوی“ کے نام سے ایک کتاب لکھی جو آج ”مثنوی مولانا روم‘ کے نام مشہور ہے۔ چھ جلدوں میں شائع 26 ہزار 660 اشعار پر مشتمل اِس فارسی کلام کے کم سے کم 26 زبانوں بشمول اُردو میں تراجم ہو چکے ہیں۔ مثنوی کو جس قدر شہرت اور مقبولیت حاصل ہے فارسی کی کسی دوسری کتاب کو آج تک نہیں ہوئی۔ آج بھی ایران میں 4 کتابیں (شاہ نامہ‘ گلستان‘ مثنوی روم اُور دیوان حافظ) مشہور ہیں اُور اِن میں مثنوی ہی سب زیادہ مقبول ہے جو علمی ادبی حلقوں کے علاو¿ہ عوام الناس اُور دیگر خواص میں یکساں مقبول ہے۔
پشاور کی سرتاج علمی‘ ادبی اُور روحانی شخصیت‘ غوث زماں‘ سیّد الفقرا‘ شیخ الحدیث و التفسیر‘ سیادت پناہ‘ سیّدی و مرشدی‘ سندی و آقائی قبلہ سیّد محمد امیر شاہ قادری گیلانی علیہ رحمة الغفار بھی مولانا رومیؒ کے لقب ’مولوی‘ ہی سے مشہور ہوئے اُور آپ کا یہ اسم تعارفی ”مولوی جیؒ“ آج بھی اہل پشاور کی زبان پر ہے جو پشاور کا مستند حوالہ اُور تاریخ پشاور کا اہم باب ہے۔ مولوی جیؒ ایسی حکیمانہ شخصیت تھے جنہوں نے صرف تصوف اُور روحانیت ہی نہیں بلکہ قیادت و سیادت کے شعبوں میں بھی اہل پشاور کی ہاتھ پکڑ پکڑ کر رہنمائی کی اُور اُنہیں (بقول علامہ اقبالؒ) خاک سے اکسیر بنا دیا۔ آج (13 رمضان المبارک 1444 ہجری بمطابق 4 اپریل 2023ء) ”پشاور کے اِنہی ہردلعزیز مولوی جی علیہ الرحمہ“ کا ’19 واں عرس مبارک‘ عقیدت و احترام سے منایا جا رہا ہے اُور اِس سلسلے میں کوچہ آقا پیر جان‘ اندرون یکہ توت شریف ’آستانہ عالیہ قادریہ حسنیہ امیریہ‘ میں ختم قرآن پاک‘ محافل درود و سلام‘ ختم غوثیہ اُور دیگر اوراد کا آغاز حسب سابق یکم رمضان المبارک سے کر جاری ہے جو امیرالمومنین حضرت علی ابن ابیطالب کرم اللہ وجہہ الکریم کی شہادت (شب ضربت اُنیس رمضان المبارک سے روز شہادت اکیس رمضان المبارک اُور شب قدر تیئس رمضان المبارک) تک جاری رہے گا۔ عرس مبارک کی اِن تقریبات میں ملک بھر اُور بالخصوص پشاور کے کونے کونے سے مرید اُور عقیدت مند بصد احترام شریک ہیں اُور پیر و مرشد سے اپنی اپنی محبت و عقیدت (ذوق و بیداری قلب) کے مطابق روحانی فیوض و برکات حاصل کر رہے ہیں۔ سجادہ نشین نور السادات‘ سیّد نور الحسنین قادری گیلانی (سلطان آغا) حفظہ اللہ ”حنفی حسینی عقائد“ کے تحفظ کے لئے کوششیں بھی اپنی جگہ اہم ہیں جو اِن دنوں ایک روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے جسمانی طور پر علیل ہیں (بقول غالب: رگ بستر کو ملی شوخی مژگاں مجھ سے۔) دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ سلطان آغا کو صحت ِکاملہ عاجلہ عطا فرمائے۔
اہل پشاور ’مولوی جیؒ‘ کی کمی محسوس کر رہے ہیں۔ اِن میں اکثریت اُن کی ہے جنہوں نے راقم الحروف کی طرح آپؒ کے دست حق پرست پر بیعت ہونے کا شرف حاصل کیا اُور یہ مولوی جیؒ ہی کی نظر عنایت تھی کہ آج بھی سینکڑوں ہزاروں دلوں میں ’لا الہ الا اللہ‘ کا ورد جاری و پختہ ہے اُور مذکورہ ’آستانہ¿ عالیہ‘ سے ذکر و اذکار کی صدائیں پشاور کے بزرگان دین سے تاریخی روحانی تعلق کا اظہار بطور سند و ثبوت کر رہی ہیں۔ مسند ِغوثیت کے وراث‘ در علم (کرم اللہ وجہہ الکریم) اُور شہر علم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے وابستہ نور السادات ’سلطان آغا حفظہ اللہ‘ حضور غوث الثقلین‘ قطب ربانی غوث الصمدانی‘ محبوب ربانی سیّد محی الدین عبدالقادر جیلانی قدس سرہ العزیز سے حاصل رشد و ہدایت کو پھیلا رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اِس آستانے اُور اِس گھرانے سے پھیلنے اُور پھوٹنے والی انوار و تجلیات بصورت وعظ و ارشادات اُور عبادات کے سلسلے تاقیامت دراز (قائم و دائم) رکھے۔ تصوف کے بارے میں اکثر یہ بنیادی سوال پوچھا جاتا ہے کہ یہ کیوں ضروری ہے؟ مختصراً سمجھنے کے لئے تقدیر کی 2 اقسام ”تقدیر معلق“ اُور ”تقدیرمُبرم“ پر غور کرنا ہوگا‘ جن سے متعلق مشہور روایات بشمول نصِ قرآنی سے ثابت ہے کہ ”معلق تقدیر دعا اُور صدقات سے ٹل (بدل) جاتی ہے“ لیکن ”تقدیر مُبرم“ کا بدلنا امر ِمحال ہے کیونکہ یہ لوحِ محفوظ پر لکھی ہوتی ہے اُور اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہ خاص عنایت (خصوصیت و مقام) خاندان ِغوثیہ کو حاصل ہے کہ حضور ِغوثیت مآب کے اِس خانوادہ عالیشان کی دعاؤں سے ”تقدیر مُبرم“ بھی بدلتے ہوئے دیکھی گئی ہے۔ اُولیائے کرام کی یہ خصوصیت صرف اُور فقط سلسلہ قادریہ میں نسل در نسل منتقل ہونے والی ولایت کا طرہ امتیاز بھی ہے جو ایک الگ موضوع ہے اُور کسی دوسرے مرحلہ فکر پر بیان کیا جائے گا۔ خالق و مالک ِعظیم شان سبحانہ فرماتے ہیں کہ ”میں سزاُور جزا کامالک ہوں‘ ہر چیز پر کامل قدرت رکھتا ہوں‘ سب کچھ تبدیل کرنا اور قائم رکھنا میرے ارادہ کُن (اختیار) میں ہے۔“ ملاحظہ کریں قرآن کریم کی 13ویں سورہ مبارکہ (الرعد) کی 39ویں آیت کریمہ‘ جس کے تحت ارشاد باری تعالیٰ ”يَمْحُو اللَّهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ ۖ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ کا ظاہری لفظی ترجمہ اِس کے اَن گنت مفاہیم کا مجموعہ ہے کہ ”اللہ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اُور (جو چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے اُور اُسی کے پاس اصل کتاب (لوح ِمحفوظ) ہے۔“ نگاہ مرشد کامل سے عشق ِمصطفی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حاصل .... خدا کا قرب دیتی ہے محبت پیر خانے کی۔
....
No comments:
Post a Comment