Corruption and terrorism
بدعنوانی اور دہشت گردی
بدعنوانی اور دہشت گردی
پہلی قابل ذکر بات یہ ہے کہ پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے بدعنوانی
کے خلاف روایت شکن طرز عمل اختیار کیا اور اس سلسلے میں اُنہوں نے 21اپریل
کو واضح انداز میں جو بیان دیا اُس سے اُمید ہو چلی ہے کہ پاکستان کو دہشت
گردی کی طرح بدعنوانی سے بھی پاک کرنے کا وہ پختہ عزم کئے ہوئے ہیں۔ یادش
بخیر یہ وہی جنرل راحیل شریف ہیں جنہوں نے 11 مارچ 2015ء کو کراچی میں امن
و امان کے حالات معمول پر لانے کے لئے غیرمعمولی عزم و ارادے سے کاروائی
کا آغاز کیا۔ 15 جون 2014ء کا دن بھی آپ ہی سے منسوب ہے جب شمالی وزیرستان
کے قبائلی علاقے میں فوجی کاروائی کا آغاز کرتے ہوئے ایک روائتی طرزعمل اور
سوچ کو سب سے پہلے شکست دی گئی۔ تصور کیجئے ایک ایسے فوجی سربراہ کا جو
بناء کسی لالچ و طمع اور بہترین ساکھ کے ساتھ ہر محاذ پر ڈٹ کر لڑنے کا عزم
رکھتا ہو!
بائیس اپریل کے دن دیا گیا وزیراعظم کا یہ بیان سبھی کو یاد ہوگا جس میں انہوں نے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی بجائے قدرے خوداعتمادی کے ساتھ یہ پہلی بات تو یہ کہی کہ ’’کوئی بھی اخلاقیات کا درس نہ دے۔‘‘ دوسری بات یہ کہی کہ احتساب کا عمل 1947ء (قیام پاکستان) سے شروع ہونا چاہئے۔ تیسرا یہ کہ عوام عمران خان کو بھی ذمہ دار ٹھہرائیں۔ چوتھا اشارہ فوج کی جانب تھا کہ اِس ادارے کے اعلیٰ عہدیداروں کا بھی احتساب ہونا چاہئے اور پانچواں وزیراعظم نے ذرائع ابلاغ کے احتساب کی ضرورت بھی یکساں قوم کو یاد دلائی۔
پاکستان میں یہ بحث ہر سطح پر دکھائی دیتی ہے کہ دہشت گردی اور مالی بدعنوانی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں صدر دفتر رکھنے والی ایک اقتصادی تنظیم ’’اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ کے سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ ’’مالی بدعنوانی سے دہشت گردوں کی مدد بھی ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ نتیجۂ خیال بھی دیا تھا کہ بدعنوانی کو برداشت کرنے جیسے بوجھ کی وجہ سے ممالک کی کشتیاں ڈوب جاتیں ہیں!‘‘
چودہ اپریل کے روز امریکہ ترجمان برائے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ ایڈمرل (ریٹائرڈ) جان کربائی (John Kirby) سے ایک سوال پوچھا گیا کہ پاناما پیپرز کی صورت بدعنوانی کے شواہد منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان میں سیاسی جماعتیں وزیراعظم (نواز شریف) کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں کیا ہمیں (امریکہ) کو ملک کے منتخب وزیراعظم کا ساتھ دینا چاہئے یا پھر بدعنوان رہنما کو رخصت ہوتے دیکھنا چاہئے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ’’سیکرٹری اس معاملے میں بہت واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ بدعنوانی سے خطرات جڑے ہیں اور اسی کی وجہ سے انتہاء پسندی کو فروغ ملتا ہے اور یہی محرک اقتصادی عدم استحکام کا سبب بھی بنتا ہے۔ لہٰذا بدعنوانی ایک ایسا ناسور ہے جس سے پوشیدہ نہیں بلکہ ظاہراً ہمیں اظہار بیزاری بھی کرنی ہے اور اس کے بارے میں سنجیدہ ردعمل کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے۔‘‘
19 اپریل کے روز جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’اُس وقت امن و استحکام نہیں آ سکتا جب تک ہم بدعنوانی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں نیچے سے اوپر تک احتساب کرنا ہوگاجو کہ پاکستان کی یک جہتی‘ ساکھ اور خوشحالی کے ضروری ہے۔‘‘
لبنان کے وزیربرائے انصاف اشرف رفیع جو کہ ’عرب نیٹ ورک برائے اسٹریتھنگ دی انٹیگریٹی اینڈ دی فائٹ ایگنسٹ کرپشن‘ نامی تنظیم کے صدر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ ’’دہشت گرد کسی ملک میں پائی جانے والی بدعنوانی سے پیدا ہونے والے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہی بدعنوانی کا پیسہ (درحقیقت) دہشت گردی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ دہشت گردی اور بدعنوانی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم اور ایک دوسرے کی حیات کے ضامن ہیں۔‘‘
اُو ای سی ڈی (OECD) کے جنرل سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ’’بدعنوانی اور دہشت گردی کے درمیان تعاون کے امور کی نشاندہی اور اُن کے تعاون کو ختم کرنا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے ایک نہایت ہی کلیدی اہمیت کی حامل حکمت عملی ہے۔‘‘ سیکرٹری جنرل کے بقول بدعنوانی اور دہشت گردی میں چار قسم کے تعلق (مماثلتیں) پائی جاتی ہیں۔ پہلا یہ کہ بدعنوانی سے دہشت گردوں کو مالی وسائل ملتے ہیں۔ دوسرا بدعنوانی سے دہشت گردوں کو اپنی کاروائیاں کرنے کا مواقع (سہولیات) ملتے ہیں۔ تیسرا بدعنوانی اور دہشت گردی میں قدر مشترک یہ پائی جاتی ہے کہ یہ دونوں ہی اپنی آمدن کے ذرائع پوشیدہ رکھتے ہیں اور چوتھا بدعنوانی و انتظامی معاملات میں کمزوریوں کی وجہ سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔
اُو ای سی ڈی (OECD) کا بیرون ملک (آف شور) کمپنیوں کے بارے تجزیہ ہے کہ ’’مختلف جرائم بشمول بدعنوان سیاست دان‘ اِنسانی اِسمگلنگ کرنے والے اُور دہشت گردوں کو اَیسے ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ اپنے مالی وسائل پوشیدہ رکھ سکیں۔ اُن میں اضافہ کرسکیں اور خفیہ ذرائع ہی سے خرچ بھی کرسکیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں ایسے اداروں (کمپنیوں) کی ضرورت ہوتی ہے جو معاون ثابت ہوں۔ سیکورٹی امور کے ماہرین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ آمدنی پوشیدہ رکھنے کے لئے ایسے اداروں کا قیام‘ وجود اور استعمال قومی سلامتی کے لئے ایک مستقل خطرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی دہشت گردی و انتہاء پسندی کو شکست دینے کے لئے کوششیں ہورہی ہیں اُن میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ دہشت گردی کو مالی وسائل فراہم کرنے والوں کی آمدنی کا ذریعہ موجود رہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کس طرح بدعنوانی سے حاصل کیا گیا سرمایہ دہشت گردی کے لئے استعمال ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں ’اُو ای سی ڈی‘کا کہنا ہے کہ اگرچہ بدعنوانی‘ منظم جرائم اور دہشت گردوں کی مالی سرپرستی جیسے موضوعات ماضی کے مقابلے زیادہ زیربحث آنے لگے ہیں اور اِس سلسلے عوامی شعور و آگہی میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا ہے لیکن مالی بدعنوانوں اور دہشت گردوں کے درمیان تعلق کا کوئی ایک ذریعہ‘ راستہ یا وسیلہ نہیں جسے کلی طور پر پیش کرکے اس پر حد لگائی جا سکے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بدعنوانی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہوتی ہے۔ دوسرا جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد اپنی کاروائیوں کے لئے ایک جیسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ تیسرا جرائم پیشہ عناصر کی طرح دہشت گرد بھی ایسی کئی ایک سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جنہیں بدعنوانی سے تقویت یا زندگی ملتی ہے۔ چوتھا لائق توجہ عنصر یہ ہے کہ بدعنوانی ایک ایسے سازگار ماحول کو جنم دیتی ہے جس میں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد پروان چڑھتے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
بائیس اپریل کے دن دیا گیا وزیراعظم کا یہ بیان سبھی کو یاد ہوگا جس میں انہوں نے پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی بجائے قدرے خوداعتمادی کے ساتھ یہ پہلی بات تو یہ کہی کہ ’’کوئی بھی اخلاقیات کا درس نہ دے۔‘‘ دوسری بات یہ کہی کہ احتساب کا عمل 1947ء (قیام پاکستان) سے شروع ہونا چاہئے۔ تیسرا یہ کہ عوام عمران خان کو بھی ذمہ دار ٹھہرائیں۔ چوتھا اشارہ فوج کی جانب تھا کہ اِس ادارے کے اعلیٰ عہدیداروں کا بھی احتساب ہونا چاہئے اور پانچواں وزیراعظم نے ذرائع ابلاغ کے احتساب کی ضرورت بھی یکساں قوم کو یاد دلائی۔
پاکستان میں یہ بحث ہر سطح پر دکھائی دیتی ہے کہ دہشت گردی اور مالی بدعنوانی کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ دونوں ایک دوسرے سے لازم و ملزوم ہیں۔ فرانس کے دارالحکومت پیرس میں صدر دفتر رکھنے والی ایک اقتصادی تنظیم ’’اکنامک کوآپریشن اینڈ ڈویلپمنٹ‘‘ کے سیکرٹری جنرل نے کہا تھا کہ ’’مالی بدعنوانی سے دہشت گردوں کی مدد بھی ہوتی ہے۔‘‘ انہوں نے یہ نتیجۂ خیال بھی دیا تھا کہ بدعنوانی کو برداشت کرنے جیسے بوجھ کی وجہ سے ممالک کی کشتیاں ڈوب جاتیں ہیں!‘‘
چودہ اپریل کے روز امریکہ ترجمان برائے اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ‘ ایڈمرل (ریٹائرڈ) جان کربائی (John Kirby) سے ایک سوال پوچھا گیا کہ پاناما پیپرز کی صورت بدعنوانی کے شواہد منظرعام پر آنے کے بعد پاکستان میں سیاسی جماعتیں وزیراعظم (نواز شریف) کے استعفے کا مطالبہ کر رہی ہیں کیا ہمیں (امریکہ) کو ملک کے منتخب وزیراعظم کا ساتھ دینا چاہئے یا پھر بدعنوان رہنما کو رخصت ہوتے دیکھنا چاہئے؟‘‘ انہوں نے جواب دیا کہ ’’سیکرٹری اس معاملے میں بہت واضح مؤقف رکھتے ہیں کہ بدعنوانی سے خطرات جڑے ہیں اور اسی کی وجہ سے انتہاء پسندی کو فروغ ملتا ہے اور یہی محرک اقتصادی عدم استحکام کا سبب بھی بنتا ہے۔ لہٰذا بدعنوانی ایک ایسا ناسور ہے جس سے پوشیدہ نہیں بلکہ ظاہراً ہمیں اظہار بیزاری بھی کرنی ہے اور اس کے بارے میں سنجیدہ ردعمل کا مظاہرہ بھی کرنا چاہئے۔‘‘
19 اپریل کے روز جنرل راحیل شریف نے کہا کہ ’’اُس وقت امن و استحکام نہیں آ سکتا جب تک ہم بدعنوانی سے چھٹکارہ حاصل نہیں کر لیتے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمیں نیچے سے اوپر تک احتساب کرنا ہوگاجو کہ پاکستان کی یک جہتی‘ ساکھ اور خوشحالی کے ضروری ہے۔‘‘
لبنان کے وزیربرائے انصاف اشرف رفیع جو کہ ’عرب نیٹ ورک برائے اسٹریتھنگ دی انٹیگریٹی اینڈ دی فائٹ ایگنسٹ کرپشن‘ نامی تنظیم کے صدر بھی ہیں کا کہنا ہے کہ ’’دہشت گرد کسی ملک میں پائی جانے والی بدعنوانی سے پیدا ہونے والے ماحول سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور یہی بدعنوانی کا پیسہ (درحقیقت) دہشت گردی کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔ دہشت گردی اور بدعنوانی ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم اور ایک دوسرے کی حیات کے ضامن ہیں۔‘‘
اُو ای سی ڈی (OECD) کے جنرل سیکرٹری کا کہنا ہے کہ ’’بدعنوانی اور دہشت گردی کے درمیان تعاون کے امور کی نشاندہی اور اُن کے تعاون کو ختم کرنا دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی کے لئے ایک نہایت ہی کلیدی اہمیت کی حامل حکمت عملی ہے۔‘‘ سیکرٹری جنرل کے بقول بدعنوانی اور دہشت گردی میں چار قسم کے تعلق (مماثلتیں) پائی جاتی ہیں۔ پہلا یہ کہ بدعنوانی سے دہشت گردوں کو مالی وسائل ملتے ہیں۔ دوسرا بدعنوانی سے دہشت گردوں کو اپنی کاروائیاں کرنے کا مواقع (سہولیات) ملتے ہیں۔ تیسرا بدعنوانی اور دہشت گردی میں قدر مشترک یہ پائی جاتی ہے کہ یہ دونوں ہی اپنی آمدن کے ذرائع پوشیدہ رکھتے ہیں اور چوتھا بدعنوانی و انتظامی معاملات میں کمزوریوں کی وجہ سے دہشت گردی کا قلع قمع کرنے کی کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتیں۔
اُو ای سی ڈی (OECD) کا بیرون ملک (آف شور) کمپنیوں کے بارے تجزیہ ہے کہ ’’مختلف جرائم بشمول بدعنوان سیاست دان‘ اِنسانی اِسمگلنگ کرنے والے اُور دہشت گردوں کو اَیسے ذرائع کی ضرورت ہوتی ہے جہاں وہ اپنے مالی وسائل پوشیدہ رکھ سکیں۔ اُن میں اضافہ کرسکیں اور خفیہ ذرائع ہی سے خرچ بھی کرسکیں۔ اس مقصد کے لئے انہیں ایسے اداروں (کمپنیوں) کی ضرورت ہوتی ہے جو معاون ثابت ہوں۔ سیکورٹی امور کے ماہرین کا اِس بات پر اتفاق ہے کہ آمدنی پوشیدہ رکھنے کے لئے ایسے اداروں کا قیام‘ وجود اور استعمال قومی سلامتی کے لئے ایک مستقل خطرہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں بھی دہشت گردی و انتہاء پسندی کو شکست دینے کے لئے کوششیں ہورہی ہیں اُن میں مکمل کامیابی حاصل نہیں ہوتی کیونکہ دہشت گردی کو مالی وسائل فراہم کرنے والوں کی آمدنی کا ذریعہ موجود رہتا ہے۔
سوال یہ ہے کہ کس طرح بدعنوانی سے حاصل کیا گیا سرمایہ دہشت گردی کے لئے استعمال ہوتا ہے؟ اس سلسلے میں ’اُو ای سی ڈی‘کا کہنا ہے کہ اگرچہ بدعنوانی‘ منظم جرائم اور دہشت گردوں کی مالی سرپرستی جیسے موضوعات ماضی کے مقابلے زیادہ زیربحث آنے لگے ہیں اور اِس سلسلے عوامی شعور و آگہی میں بھی کافی حد تک اضافہ ہوا ہے لیکن مالی بدعنوانوں اور دہشت گردوں کے درمیان تعلق کا کوئی ایک ذریعہ‘ راستہ یا وسیلہ نہیں جسے کلی طور پر پیش کرکے اس پر حد لگائی جا سکے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ بدعنوانی قومی سلامتی کے لئے خطرہ ہوتی ہے۔ دوسرا جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد اپنی کاروائیوں کے لئے ایک جیسی حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔ تیسرا جرائم پیشہ عناصر کی طرح دہشت گرد بھی ایسی کئی ایک سرگرمیوں میں ملوث ہوتے ہیں جنہیں بدعنوانی سے تقویت یا زندگی ملتی ہے۔ چوتھا لائق توجہ عنصر یہ ہے کہ بدعنوانی ایک ایسے سازگار ماحول کو جنم دیتی ہے جس میں جرائم پیشہ عناصر اور دہشت گرد پروان چڑھتے ہیں۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Corruption and terrorism
ReplyDeleteBy Farrukh Saleem
April 24, 2016
First things first. On April 21, General Raheel Sharif broke the status quo on corruption. On March 11 2015, General Raheel Sharif broke the status quo on Karachi. On June 15 2014, General Raheel Sharif broke the status quo on North Waziristan. Imagine, a victorious general with no lust for power and a squeaky clean reputation has now thrown down the gauntlet. On April 22, the PM, walking on thin ice, responded: One, no one can give me lessons on morality. Two, accountability should begin from 1947. Three, the masses should hold Imran Khan liable. Four, the army is also culpable. Five, the media is being nonchalant.
Now the topic of the day. Corruption and terrorism are interlinked. According to the secretary-general of the Paris-based Organization for Economic Co-operation and Development (OECD), “corruption….facilitates terrorism” and “corruption hampers countries’ ability to fight terrorism”.
On April 14, Admiral (r) John Kirby, spokesperson of the US Department of State, was asked: “Sir, the political parties in Pakistan have launched a campaign against PM Sharif to resign after the accusations of corruption in [the] Panama Papers....will the US support the democratic elected PM of Pakistan, or [do] you want to see the corrupt leader go home?” Reply: “The secretary has been very clear about the dangers of corruption...and what that does to fuel extremism and to increase economic instability…. So corruption is something we obviously take very seriously……”
On April 19, General Raheel Sharif said, there “cannot be…enduring peace and stability unless the menace of corruption is not uprooted. Therefore, across-the-board accountability is necessary for the solidarity, integrity and prosperity of Pakistan.”
According to Ashraf Rifi, minister of justice of Lebanon and president of the Arab network for strengthening the integrity and the fight against corruption, “Terrorists benefit from corruption and promote it in order to finance their activities….. Terrorism and corruption are feeding each other.”
ReplyDeleteAccording to the secretary-general of the OECD, “Identifying connections between corruption and terrorism and the means to break them is crucial to fighting terrorism.” The secretary-general continues that there are four connections between corruption and terrorism. One, corruption helps terrorist funding. Two, corruption facilitates terrorist attacks. Three, corruption and terrorism financing share methods to hide money. Four, corruption and poor governance undermine the fight against terrorism.
The OECD, in its analysis on offshore companies, says: “Traffickers, corrupt politicians, and terrorists need ways to raise, move, conceal and spend money. One of their main means is the use of anonymous ‘shell companies’. Security experts and law enforcement officials all agree that shell companies, or other forms of legal entities like trusts, pose a threat to national security... and can be ideal vehicles for terrorist financing.”
How does corruption hamper a country’s ability to fight terrorism? According to the OECD, “State institutions weakened by engrained and deep-seated corruption are not only less effective in fighting terrorism but are also vulnerable to exploitation by terrorist groups. Corruption in institutions such as the army, the police and the judiciary and in the defense sector is of great concern...”
How does corruption facilitate terrorism? According to the OECD, “Terrorist groups may seek funding through crimes out of financial necessity or because the potential profits associated with the criminal activity are too attractive to ignore. Terrorist may also be involved in some forms of criminal activities not only as a source of financing but also for logistics purposes in the context of terrorist attacks.”
How does corruption contribute to terrorist financing? According to the OECD, “Although awareness of corruption, organized crime and terrorist financing has been growing in recent years, the linkages and resonances between these three forms of behaviour may not be sufficiently acknowledged.”
The secretary-general concludes: One, corruption is a national security threat. Two, criminals and terrorists use similar tactics to reach their separate operational objectives. Three, the fact is that like criminal organisations, terrorists also engage in a range of activities that are greatly facilitated by corruption. Four, corruption is the ‘enabling technology’ that makes many terrorist crimes possible.