ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
زہریلا شہر!
زہریلا شہر!
کیا اِس بات پر بھی تشویش اُور دُکھ کا اِظہار نہ کیا جائے کہ ’پھولوں کا
شہر‘ ہونے کا لطیف و رنگین تعارف (اِستعارہ) رکھنے والے خیبرپختونخوا کے
مرکزی شہر ’پشاور‘ کا شمار پاکستان کے اُن ’پرخطر‘ شہروں میں ہونے لگا ہے
جہاں ٹریفک کے دباؤ (دھواں اُگلتی گاڑیوں) کی وجہ سے ’فضائی آلودگی‘ اور
’شور شرابا‘ انسانی صحت کے لئے ’قابل قبول حد‘ سے تجاوز کر گئے ہیں! عالمی
ادارہ صحت (ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن) کی جانب سے انسانی سماعتوں کے لئے ’شور‘
کی محفوظ حد کا ایک معیار طے کیا گیا ہے جسے کسوٹی قرار دیتے ہوئے ماہرین
پشاور میں نجی گاڑیوں کی تعداد میں ہوئے اضافے‘ گاڑیوں کے خراب انجنوں سے
اگلتے ہوئے دھویں اور آٹو رکشاؤں سے ہونے والے شور جیسے تین بنیادی محرکات
کو پشاور میں پھیلتی ہوئی ’فضائی و صوتی آلودگیوں‘ کی بڑی وجہ قرار دیتے
ہیں لیکن کیا فیصلہ سازوں کے ہاں گرد و غبار اور دھویں (کاربن کے ذرات) سے
بھرپور (آلودہ) ’پشاور کی زہریلی ہوا‘ کی تطہیر سے متعلق تفکرات پائے جاتے
ہیں؟ کیا پشاور کو زہریلا بنتے دیکھنے والے تماش بینوں کو ماحولیاتی آلودگی
سے خوف یا وحشت آ رہی ہے؟ کیا فیصلہ سازوں کو اپنی دانستہ غلطی (تجاہل
عارفانہ) کا احساس بھی ہے‘ کہ جس کی اصلاح کے لئے وہ خود پر آئینی و ضمیر
پر اخلاقی بوجھ محسوس کررہے ہوں؟ ’’ایسی ویرانی میں کرتے بھی تو کیا۔۔۔ یہ
بھی کچھ کم ہے کہ وحشت کی ہے!‘‘
موٹرگاڑیوں سے متعلق ’تحفظ ماحول‘ کے ایک سے زیادہ قواعد ضوابط موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد یا اُن سے متعلق عوام میں شعور و آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ’پاکستان انوئرمینٹل پروٹیکشن موٹر وہیکل ریگولیشنز 2016ء‘ کی تیسری شق (کلاس تھری) کے مطابق کوئی بھی شخص ایسی گاڑی استعمال نہیں کرسکتا جو (ظاہری طور پر) دھواں اگلتی ہو یا اُس سے شور پیدا ہو رہا ہو۔‘‘ اِس سلسلے میں ’نیشنل انوئرمینٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز‘ کو معیار بنایا گیا ہے جس کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ آواز 85 (ڈیسیبلز) ہونی چاہئے لیکن پشاور کے مختلف حصوں میں شور کی حد 95 ڈیسیبلز ریکارڈ کی گئی ہے اور اگر نجی گاڑیوں کی تعداد میں کمی نہیں لائی جاتی تو صوتی آلودگی میں وقت کے ساتھ مزید اضافہ ہوگا۔ تصور کیجئے کہ پشاور میں گاڑیوں کی تعداد 126.4 فیصد سالانہ کے تناسب سے اضافہ جبکہ سڑکوں کی وسعت سالانہ 0.85 فیصد کے تناسب سے ہو رہی ہے! کم گنجائش والی سڑکوں پر گاڑیوں کی سست روی سے چلنے کی وجہ سے نہ صرف زیادہ ایندھن خرچ ہوتا ہے بلکہ اِس سے پیدا ہونے والا دھواں اور شور بھی ’رواں دواں‘ ٹریفک کے مقابلے زیادہ پھیلتا ہے! ماہرین صحت کے مطابق مسلسل فضائی آلودگی میں سانس لینے اور شور کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے ’بلندفشار خون (ہائی بلڈپریشر)‘ اور ’نفسیاتی عارضے‘ لاحق ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے جملہ محرکات بشمول سڑکوں پر دھواں و شور اگلتی ٹریفک کی بذریعہ حکمت و تدبر اصلاح ممکن ہے۔
رواں برس آغاز (جنوری دو ہزار سولہ) میں بھارت کے بڑے شہر دہلی میں بڑھتی ہوئی فضائی و صوتی آلودگی کا علاج تجویز کرتے ہوئے متعلقہ انتظامیہ نے 2 ہفتوں کے لئے صرف نجی گاڑیوں کو ’جفت و طاق‘ نمبروں کے مطابق (ایک ایک دن کے لئے) سڑک پر آنے (استعمال) کی اجازت دی گئی۔ اِس تجربے کا مقصد بڑھتی ہوئی نجی گاڑیوں کی تعداد کو کسی صورت ضبط میں لانا تھا یعنی ایک دن طاق نمبروں والی گاڑیوں کو سڑک پر آنے دیا جاتا اور دوسرے دن جفت نمبروں والی گاڑیاں سڑک پر آتیں۔ دہلی کے ٹریفک پولیس اہلکاروں نے بلاامتیاز ہر خاص و عام پر اِس انتظامی فیصلے کا اطلاق کیا جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے۔ دہلی کی فضاء میں نہ صرف دھواں (کاربن کے ذرات کی تعداد) کم ہوئی بلکہ گاڑیوں کی وجہ سے شور بھی محفوظ حد کو چھونے لگا لیکن ذاتی گاڑی رکھنے والوں کو معمولات زندگی جاری رکھنے میں اِس لئے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ حکومت کی جانب سے جفت و طاق نمبروں والی گاڑیوں کے تجربے سے پہلے ہی آمدورفت کے متبادل وسائل یعنی تیز رفتار (میٹرو) و حسب ضرورت تعداد میں بسیں (پبلک ٹرانسپورٹ)‘ اندرون شہر کے مختلف حصوں کو ملانے والی ریل گاڑی جیسے انتظامات کئے گئے تھے۔ عوام نے بھی مثالی تعاون کا مظاہرہ کیا اور ایک ہی دفتر یا تعلیمی اداروں میں آمدورفت کرنے والوں نے نجی طور پر اکیلے سفر کرنے کی بجائے دوستوں کو ہمراہ کرنا شروع کر دیا اور یوں نہ صرف ایندھن کی مد میں بچت ہونے لگی بلکہ سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی کم ہوا لیکن دہلی کی ٹریفک پولیس صرف ’جفت و طاق‘ کی حد تک تجرباتی حکمت عملی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اُس نے صورتحال کا فائدہ اُٹھانے والے اُن ناجائز منافع خوروں پر بھی ہاتھ ڈالا جنہوں نے ٹیکسی (کمرشل) گاڑیاں اور ٹَک ٹَک (آٹو رکشہ) کے کرائیوں میں اضافہ کر لیا تھا۔
پشاور کی ٹریفک پولیس ’آلودگی سے پاک دہلی‘ نامی تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے اور علم تو (درحقیقت) مومن کی گمشدہ میراث ہے جس کے بارے میں حکم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مفہوم ہے کہ ’علم جہاں کہیں اُور جس کسی سے بھی ملے (بصد شکریہ و کمال حتی الوسع و ظرف) حاصل کر لینا چاہئے۔‘
موٹرگاڑیوں سے متعلق ’تحفظ ماحول‘ کے ایک سے زیادہ قواعد ضوابط موجود ہیں لیکن اُن پر عمل درآمد یا اُن سے متعلق عوام میں شعور و آگاہی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ’پاکستان انوئرمینٹل پروٹیکشن موٹر وہیکل ریگولیشنز 2016ء‘ کی تیسری شق (کلاس تھری) کے مطابق کوئی بھی شخص ایسی گاڑی استعمال نہیں کرسکتا جو (ظاہری طور پر) دھواں اگلتی ہو یا اُس سے شور پیدا ہو رہا ہو۔‘‘ اِس سلسلے میں ’نیشنل انوئرمینٹل کوالٹی اسٹینڈرڈز‘ کو معیار بنایا گیا ہے جس کی روشنی میں زیادہ سے زیادہ آواز 85 (ڈیسیبلز) ہونی چاہئے لیکن پشاور کے مختلف حصوں میں شور کی حد 95 ڈیسیبلز ریکارڈ کی گئی ہے اور اگر نجی گاڑیوں کی تعداد میں کمی نہیں لائی جاتی تو صوتی آلودگی میں وقت کے ساتھ مزید اضافہ ہوگا۔ تصور کیجئے کہ پشاور میں گاڑیوں کی تعداد 126.4 فیصد سالانہ کے تناسب سے اضافہ جبکہ سڑکوں کی وسعت سالانہ 0.85 فیصد کے تناسب سے ہو رہی ہے! کم گنجائش والی سڑکوں پر گاڑیوں کی سست روی سے چلنے کی وجہ سے نہ صرف زیادہ ایندھن خرچ ہوتا ہے بلکہ اِس سے پیدا ہونے والا دھواں اور شور بھی ’رواں دواں‘ ٹریفک کے مقابلے زیادہ پھیلتا ہے! ماہرین صحت کے مطابق مسلسل فضائی آلودگی میں سانس لینے اور شور کے ماحول میں رہنے کی وجہ سے ’بلندفشار خون (ہائی بلڈپریشر)‘ اور ’نفسیاتی عارضے‘ لاحق ہوتے ہیں۔ ماحولیاتی آلودگی کا سبب بننے والے جملہ محرکات بشمول سڑکوں پر دھواں و شور اگلتی ٹریفک کی بذریعہ حکمت و تدبر اصلاح ممکن ہے۔
رواں برس آغاز (جنوری دو ہزار سولہ) میں بھارت کے بڑے شہر دہلی میں بڑھتی ہوئی فضائی و صوتی آلودگی کا علاج تجویز کرتے ہوئے متعلقہ انتظامیہ نے 2 ہفتوں کے لئے صرف نجی گاڑیوں کو ’جفت و طاق‘ نمبروں کے مطابق (ایک ایک دن کے لئے) سڑک پر آنے (استعمال) کی اجازت دی گئی۔ اِس تجربے کا مقصد بڑھتی ہوئی نجی گاڑیوں کی تعداد کو کسی صورت ضبط میں لانا تھا یعنی ایک دن طاق نمبروں والی گاڑیوں کو سڑک پر آنے دیا جاتا اور دوسرے دن جفت نمبروں والی گاڑیاں سڑک پر آتیں۔ دہلی کے ٹریفک پولیس اہلکاروں نے بلاامتیاز ہر خاص و عام پر اِس انتظامی فیصلے کا اطلاق کیا جس کے خاطرخواہ نتائج برآمد ہوئے۔ دہلی کی فضاء میں نہ صرف دھواں (کاربن کے ذرات کی تعداد) کم ہوئی بلکہ گاڑیوں کی وجہ سے شور بھی محفوظ حد کو چھونے لگا لیکن ذاتی گاڑی رکھنے والوں کو معمولات زندگی جاری رکھنے میں اِس لئے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا کیونکہ حکومت کی جانب سے جفت و طاق نمبروں والی گاڑیوں کے تجربے سے پہلے ہی آمدورفت کے متبادل وسائل یعنی تیز رفتار (میٹرو) و حسب ضرورت تعداد میں بسیں (پبلک ٹرانسپورٹ)‘ اندرون شہر کے مختلف حصوں کو ملانے والی ریل گاڑی جیسے انتظامات کئے گئے تھے۔ عوام نے بھی مثالی تعاون کا مظاہرہ کیا اور ایک ہی دفتر یا تعلیمی اداروں میں آمدورفت کرنے والوں نے نجی طور پر اکیلے سفر کرنے کی بجائے دوستوں کو ہمراہ کرنا شروع کر دیا اور یوں نہ صرف ایندھن کی مد میں بچت ہونے لگی بلکہ سڑکوں پر ٹریفک کا دباؤ بھی کم ہوا لیکن دہلی کی ٹریفک پولیس صرف ’جفت و طاق‘ کی حد تک تجرباتی حکمت عملی تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ اُس نے صورتحال کا فائدہ اُٹھانے والے اُن ناجائز منافع خوروں پر بھی ہاتھ ڈالا جنہوں نے ٹیکسی (کمرشل) گاڑیاں اور ٹَک ٹَک (آٹو رکشہ) کے کرائیوں میں اضافہ کر لیا تھا۔
پشاور کی ٹریفک پولیس ’آلودگی سے پاک دہلی‘ نامی تجربے سے بہت کچھ سیکھ سکتی ہے اور علم تو (درحقیقت) مومن کی گمشدہ میراث ہے جس کے بارے میں حکم حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مفہوم ہے کہ ’علم جہاں کہیں اُور جس کسی سے بھی ملے (بصد شکریہ و کمال حتی الوسع و ظرف) حاصل کر لینا چاہئے۔‘
![]() |
Noise and air pollution in Peshawar touching the dangerous limit |
You can't compare Dehli with Peshawar, as former being the capital, had got lots of money and resources at its disposal. Peshawar being a provincial capital and that too with the government made by a major opposition party of the fed govt, doesn't have that kind of money or resources. Just give the provincial government some time and I am sure they will tackle this problem as well bcz Imran Khan is very passionate about environmental issues.
ReplyDeleteAt the same time, public have to their but as well and shouldn't wait for the govt to spoon feed them all the time. Every member of the society has an equal responsibility to solve this issue and contribute by initiating public awareness campaigns and other similar endeavours.