Sunday, April 30, 2017

TRANSLATION: Loadshedding by Dr Farrukh Saleem

Loadshedding
لوڈشیڈنگ
تیئس اپریل: صوبہ پنجاب کے دیہی علاقوں میں 12 جبکہ شہری مراکز میں برقی رو (بجلی) کا تعطل (لوڈشیڈنگ) کم سے کم چھ گھنٹے رہا۔

پہلی حقیقت: حکومتی ادارے ’نیشنل ٹرانسمیشن اینڈ ڈسٹریبوشن کمپنی کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق) پاکستان میں بجلی کی کل پیداواری صلاحیت 24ہزار 906 میگاواٹ ہے۔

دوسری حقیقت: تیئس اپریل کے روز جبکہ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے مختلف حصوں میں کم سے کم بارہ اور چھ چھ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی تھی تو اُس وقت مجموعی طور پر 12ہزار 948 میگاواٹ بجلی کی پیداوار حاصل ہو رہی تھی۔

تیسری حقیقت: تیئس اپریل ہی کے روز بجلی کی چوری اور بوسیدہ ترسیلی نظام کی وجہ سے کم و بیش 2 ہزار 948 میگاواٹ بجلی ضائع ہو رہی تھی اور صارفین تک کم وبیش 10ہزار میگاواٹ بجلی پہنچ پا رہی تھی۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ تیئس اپریل کے روز پاکستان حکومت ملک میں بجلی کی مجموعی پیداواری صلاحیت کے صرف 50فیصد حصے ہی سے استفادہ کر پائی!

اعدادوشمار اور برسرزمین حقائق سے عیاں ہے کہ لوڈشیڈنگ کی پیداواری صلاحیت کم ہونے کی وجہ سے نہیں بلکہ پیداواری صلاحیت سے پوری طرح فائدہ نہ اٹھانے کے سبب مطلوبہ مقدار میں بجلی دستیاب نہیں! لوڈشیڈنگ ہونے کا ایک بنیادی سبب ’گردشی قرضہ‘ بھی ہے جس کا تعلق اُس بجلی کی مقدار سے ہے جو یا تو چوری ہو جاتی ہے یا پھر بوسیدہ ترسیلی نظام کی وجہ سے ضائع ہو رہی ہے اور یہ بجلی نجی پیداواری یونٹس سے خریدی تو جاتی ہے لیکن چونکہ صارفین اِس کی قیمت ادا نہیں کرتے اِس لئے یہ حکومت پر قرض کی صورت بوجھ بنتی جاتی ہے۔ آخر کیا وجہ ہے کہ بجلی کے اُس ترسیلی نظام کی خرابیاں دور نہیں کی جاتیں جس سے متعلق سب جانتے ہیں کہ وہ ایک قیمتی جنس کے ضیاع کا باعث بن رہا ہے؟ لوڈشیڈنگ کی دوسری وجہ بجلی کے صارفین سے واجبات کی وصولی ہے۔ اِس محاذ پر بھی انتظامی طور پر ناکامیوں کے سبب بجلی کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔

بجلی پیدا کرنے والے ادارے ایک انتظامی تسلسل سے کام کرتے ہیں۔ وہ بجلی کے عوض اُس کی قیمت وصول کر رہے ہوتے ہیں لیکن جب ادائیگیاں رک جاتی ہیں تو ’گردشی قرض‘ کا حجم بڑھتا چلا جاتا ہے۔ حکومتی اداروں کے انتظامی معاملات بھی ایک بڑی رکاوٹ ہیں اور جب واپڈا کا ادارہ مالی مشکلات سے دوچار ہوتا ہے تو وہ ایندھن فراہم کرنے والے ادارے ’پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس اُو)‘ کو بروقت اور معمول کے مطابق تیل کی قیمت ادا نہیں کرتا۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ’پی ایس اُو‘ جو کہ تیل درآمد کرتا ہے وہ بیرون ملک ادائیگیاں نہیں کرپاتا اور بیرون ملک ادائیگیوں کا عدم توازن روکنے اور اندرون ملک مالی بوجھ مزید بڑھنے سے روکنے کے لئے واپڈا کو تیل کی فراہمی روک دیتا ہے‘ جس سے بجلی کی پیداوار متاثر ہوتی ہے۔ اسی طرح بجلی کے پیداواری نجی اداروں کو بھی جب اپنی تیار کردہ جنس (بجلی) کی پوری قیمت نہیں ملتی تو فراہمی یا تو روک دیتے ہیں یا حسب وصولی تناسب سے کم کر دیتے ہیں اور ’پی ایس اُو‘ کے واجبات کی ادائیگی روک لیتے ہیں۔ یہ معاملہ ہزاروں اربوں روپے کا ہے اور اسی وجہ سے بحران کا سبب بنتا ہے۔ سال 2008ء کے دوران ’گردشی قرض‘ 228 ارب روپے تھا جو سال 2013ء کے دوران 480 ارب روپے ہو گیا۔ جولائی 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے 480 ارب روپے کا ’گردشی قرضہ‘ ادا کرتے ہوئے عہد کیا کہ وہ آئندہ کسی بھی صورت ’گردشی قرض‘ پیدا ہونے نہیں دیں گے۔ مارچ 2017ء میں بجلی پیدا کرنے والے نجلی اداروں (آئی پی پیز) کا گردشی قرض 414 ارب روپے تک پہنچ چکا تھا۔ اگر تاریخ سے سبق سیکھا جاتا تو کوئی وجہ نہیں تھی کہ گردشی قرض چارسو ارب روپے جیسی نفسیاتی حد عبور کرتا اور ایک ایسی بحرانی صورتحال پیدا ہوتی جس سے دیہی علاقوں میں سولہ اور شہری علاقوں میں چھ چھ گھنٹے بجلی کی لوڈشیڈنگ ہوتی۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ سے نمٹنے کے لئے ’نوازلیگ‘ حکومت نے پیداواری صلاحیت بڑھانے پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے۔ کسی مرض کی غلط تشخیص اور غلط علاج سے توقعات وابستہ نہیں کر لینی چاہئیں کہ اِس سے مریض کو افاقہ ہوگا۔ پاکستان میں بجلی کی پیداواری صلاحیت مسئلہ نہیں بلکہ بجلی کی ترسیل‘ بجلی کی چوری‘ ضیاع اور صارفین سے واجبات کی وصولی جیسے شعبوں میں بدانتظامی کے سبب یہ بحران پیدا ہوا ہے۔

مارچ دوہزار سترہ میں بجلی کے 13نجی پیداواری اداروں کو اربوں روپے کے واجبات ادا نہ کرنے کی وجہ سے اِن اداروں نے پیداوار کم کر دی۔ یہ امر بھی ذہن نشین رہے کہ اگر نجی ادارے بجلی کم بھی پیدا کریں یا نہ پیدا کریں تب بھی حکومت کو ایک خاص قیمت ’کیپسٹی چارجز‘ کی صورت ادا کرنا پڑتی ہے!

بجلی کے بحران سے نمٹنے کے لئے نواز لیگ کی حکومت پیداواری صلاحیت میں اضافہ کر رہی ہے جبکہ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کے واجبات ادا کرنے کے لئے پیسے نہیں تو نئے بجلی گھروں کے لئے توانائی کی قیمت کہاں سے ادا ہوگی۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ کسی شخص کے پاس دو گاڑیاں ہوں لیکن ایندھن خریدنے کے لئے مالی وسائل نہ ہوں جس کا حل وہ یہ نکالے کہ تیسری گاڑی خرید لے!

تاریخ سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ ایک وقت تک جب پاکستان میں بجلی کی پیداوار یومیہ 13ہزار میگاواٹ تک جا پہنچی تھی لیکن انتظامی خرابیوں کی وجہ سے صرف چار برس میں گردشی قرض 400ارب روپے سے تجاوز کر گیا۔ حکومت نے منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ 7 ہزار 680 میگاواٹ پیداواری صلاحیت بڑھائی جائے جس پر 12.5 ارب روپے لاگت آئے گی۔ صاف لگ رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں بجلی کا واجب الادأ ’گردشی قرضہ‘ مزید بڑھے گا اور صورتحال مزید خراب ہوگی۔ جی ہاں آنے والے دنوں میں مریض کی حالت تشویشناک ہونے جا رہی ہے۔ حکومت نے بہرحال اور بادلنخواستہ ہی سہی لیکن گردشی قرضوں کے 414 ارب روپے ادا کرنے ہیں لیکن بجلی کے پیداواری شعبے کو آئندہ عام انتخابات کے قریب آنے کے وقت کا انتظار کرنا پڑے گا۔ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

3 comments:

  1. April 23: At least 12 hours of loadshedding in Punjab’s rural areas and a minimum of six hours in Punjab’s urban areas. Fact 1: The installed power generation capacity stands at 24,906MW (as per the National Transmission and Distribution Company). Fact 2: Power generation on April 23 stood at 12,948MW. Fact 3: After line losses, around 10,000MW of electricity reached the consumers. Conclusion: On April 23, the government managed to utilise around 50 percent of the installed capacity.

    Clearly, loadshedding is not a generation-capacity issue (the government is utilising around 50 percent of the installed capacity). To be sure, the current loadshedding is because of circular debt. And circular debt is all about line losses and less than the full recovery of the cost of generating electricity. Line loss is a governance issue. Recovery is also a governance issue. In effect, loadshedding is a governance issue.

    ReplyDelete
  2. The power sector has a ‘payment chain’ and circular debt arises “when one entity in the chain facing problems in its cash inflows holds back payments to its suppliers and creditors. Thus, problems in the cash inflow of one entity cascade down to other segments of the payment chain”. For instance, Wapda, facing problems in its cash inflows, holds back payments to Pakistan State Oil (PSO). In return, PSO holds back payments to refineries-and the refineries are then unable to pay their overseas suppliers.

    Similarly, when the independent power producers (IPPs) don’t get paid for the electricity that they have sold, they hold back from paying PSO. Alarmingly, all of this runs into hundreds of billions of rupees. In 2008, the circular debt stood at Rs228 billion. By 2013, the same had reached Rs480 billion. In July 2013, the PML-N paid the entire Rs480 billion and pledged that circular debt will not be allowed to raise its ugly head ever again.

    In March 2017, the IPPs claimed that circular debt had reached Rs414 billion. If history is any guide, the ‘payment chain’ somehow manages to accommodate the spectre of circular debt until it hits the magical figure of Rs400 billion. And beyond Rs400 billion lies 16 hours of loadshedding in rural areas and six hours of loadshedding in urban areas.

    Lo and behold, the PML-N has a solution: build more power projects. That’s the equivalent of treating the stomach of a mental patient. The patient will never recover. Generation capacity is not the issue. Mis-governance is.

    The circular debt, in essence, is the accumulation of all the unpaid power bills of Pakistan’s power sector. In March 2017, we discovered that there were 13 IPPs who had not been paid their multi-billion rupee bills. In March 2017, we discovered that 13 IPPs were producing electricity well below their capacity. Remember, even when an IPP is idle, the government must still pay the capacity charges.

    Lo and behold, the PML-N has a solution: build more power projects. Imagine: the government has no money to fuel the existing power plants and the solution is to buy more power plants. That’s like I have two cars in my garage but no money to put petrol in them. And my solution: buy another car.

    If history is any guide, when the system generates around 13,000MW a day, the system gives rise to a circular debt of around Rs400 billion in about four years. Yes, the government has plans of adding 7,680MW of additional generation capacity at the cost of $12.5 billion. Yes, the issue of circular debt is about to get worse. Yes, the patient is about to get worse. Yes, the government will have to cough out a hefty Rs414 billion. But the power sector will have to wait till just before the next election.

    ReplyDelete
  3. CEOs of Distribution companies are politically appointed and there is huge political interference in the work of Discos
    No professional approach just political drama

    ReplyDelete