ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیرحسین اِمام
گلیات: حسن اِنتخاب!
وقت گویا رُک سا گیا ہے۔ ایک جیسے اقدامات سے متعلق بیانات بطور ’یاد دہانی‘ حرج (مضائقہ) نہیں لیکن برسرزمین حقائق میں تبدیلی کے اہداف حقیقی اُور قابل عمل ہونے چاہیءں۔ یادش بخیر ’’سولہ اکتوبر دوہزار پندرہ‘‘ وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا ایک ایسی ویب سائٹ (website) کا باقاعدہ افتتاح کرتے ہیں‘ جس کے ذریعے کوئی بھی پاکستانی خیبرپختونخوا کی ملکیت ’ریسٹ ہاؤسیز‘ میں قیام و طعام کر سکے گا۔ یہ ایک انقلابی اقدام تھا جس میں ’عوام و خواص‘ کے درمیان فرق ختم کرنے کی کوشش کرتے ہوئے اُن ’نوگو ایریاز‘ کے دروازے عوام کے لئے کھول دیئے گئے‘ جن پر صرف اور صرف ’صاحبان اقتدار واختیار‘ قابض چلے آ رہے تھے۔ اِس سلسلے میں منعقدہ تقریب حافظے میں محفوظ ہے جب نتھیاگلی کے ’ریٹریٹ ہاؤس‘ میں صوبائی حکومت کے وہ سبھی مرکزی کردار اور تحریک انصاف کے مرکزی قائدین بہ نفس نفیس موجود تھے جو نتھیاگلی آنے (وزٹ) کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے! اِس ماشاء اللہ تقریب میں 15عدد ریسٹ ہاؤسیز کو ’ٹورازم کارپوریشن خیبرپختونخوا‘ کے حوالے کرنے کا باضابطہ اعلان کیاگیا تھا۔ اِس پیشرفت کو ذہن میں رکھتے ہوئے پھر سے نتھیاگلی کی طرف متوجہ ہوں کیونکہ رواں ہفتے (تیئس جون دوہزار سترہ) خیبرپختونخوا کی ’کمرشلائزیشن پالیسی‘ کے تحت ’پہلے مرحلے میں‘ ضلع ایبٹ آباد کے پرفضا بالائی علاقوں (گلیات) کے ’پندرہ ریسٹ ہاؤسیز‘ کو ’گلیات ڈویلپمنٹ اتھارٹی (جی ڈی اے)‘ کے حوالے کرنے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ یہ پندرہ ’ریسٹ ہاؤسیز‘ 13 صوبائی محکموں کے رحم و کرم پر رہے‘ جہاں قیام پاکستان سے ’اَفسرشاہی (اَعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین) اُور اُن کے اہل و عیال‘ گرمیوں کا موسم ٹھاٹھ باٹھ سے گزارتے۔ صرف ایک مثال سے اِس پورے منظرنامے کو سمجھنے کی کوشش کریں کہ نتھیاگلی میں ’16 کنال رقبے‘ پر پولیس ریسٹ ہاؤس میں کل 6کمرے (تین ڈیلکس اور تین ڈبل بیڈ رومز) ہیں۔ برطانوی راج کے دوران تعمیر کئے گئے اِس ریسٹ ہاؤس کا نام ’روکنگھم ہاؤس (Rockingham House)‘ تھا‘ جسے قیام پاکستان (1947ء) کے بعد تبدیل کرکے ’آئی جی پی ہاؤس‘ اُور بعداَزاں ’پولیس ریسٹ ہاؤس‘ کہا جانے لگا۔ یاد رہے کہ نتھیاگلی میں ایک کنال اراضی کی قیمت تین سے چار کروڑ روپے ہے اور تعمیراتی اخراجات الگ سے میدانی علاقوں کے مقابلے ہزار گنا زیادہ آتے ہیں۔
حسن اِنتخاب نے دلچسپ صورتحال کو جنم دیا ہے۔ تحریک اِنصاف کی مرکزی قیادت اُور موجودہ خیبرپختونخوا (صوبائی) حکومت کی ’نظرکرم‘ گویا ’گلیات‘ پر ٹک (رُک) گئی ہے! یہ بات اب تو خبر بھی نہیں رہی کہ چیئرمین عمران خان اُور مرکزی قائدین نے ’نتھیاگلی‘ میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں‘ جہاں پارٹی میں شمولیت کرنے والی سیاسی شخصیات کو بھی مدعو اور دعوتوں کا اہتمام ایک معمول بن چکا ہے لیکن نہ تو حکمرانوں کے معمولات بدلے ہیں اور نہ ہی گلیات کے حالات! جہاں کے مقامی افراد کے لئے ماضی و حال تبدیل نہیں ہوا۔ سرکاری وسائل سے اگر کبھی ’’جنگل میں منگل‘‘ افسرشاہی کے دم کرم سے ہوا کرتا تھا تو اَب خوشگوار موسم میں ’اِنجوائے (enjoy)‘ کرنے والے سیاست دان ہیں۔ گلیات کے رہنے والے اِس خدشے کا برملا اِظہار کرتے ہیں کہ موجودہ حکومت ’کمرشل ائزیشن‘ کے نام اُن قیمتی اثاثوں کو اُونے پونے داموں فروخت کردے گی اور اِس مرتبہ تحریک انصاف کے مرکزی قائدین دیگر مختلف ناموں سے ’ریسٹ ہاؤسیز‘ کے مالک بن جائیں گے! خاکم بدہن ایسی تبدیلی نہ سنی نہ کہیں دیکھی! نتھیاگلی اُور ملحقہ علاقوں میں تجاوزات کے خلاف مہمات پر مقامی افراد کا اِحتجاج جاری ہے جبکہ صوبائی حکومت نے ایک مرتبہ پھر اِس عزم کا اظہار کیا ہے کہ بڑی بڑی گاڑیوں میں سیر کے لئے آنے والوں کی سہولت کو مدنظر رکھتے ہوئے گلیات کو تجاوزات سے پاک کیا جائے گا۔ مضحکہ خیز صورتحال یہ ہے کہ ایبٹ آباد سے نتھیاگلی تجاوزات کا شمار ممکن نہیں لیکن نتھیاگلی سے صوبہ پنجاب کی حدود‘ خیرا گلی تک ترقی کا عمل اور حکومتی اداروں کی توجہ دیدنی ہے۔ ایبٹ آباد میں تجاوزات اور سڑکوں کی حالت نتھیاگلی کے سوفیصد برعکس ہے۔ اگر سیاحت کی ترقی ہی مطلوب و مقصود ہوتی تو تعمیروترقی‘ تجاوزات کا خاتمہ اور سیاحوں کے لئے رہنمائی و سہولیات کی فراہمی چار مرحلوں میں پائیدار و مربوط کی جا سکتی تھی۔ رابطہ شاہراہیں اور بائی پاس بنائے جا سکتے تھے۔ پہلا مرحلہ ہری پور سے حویلیاں‘ دوسرے مرحلے میں ایبٹ آباد تیسرے مرحلے میں ایبٹ آباد سے گلیات اور چوتھے مرحلے میں گلیات بشمول سرکل بکوٹ (پی کے پینتالیس) پر توجہ دی جاتی جس سے سیاحت کا فروغ بھی ہوتا اور روزگار کے نئے مواقعوں کی وجہ سے مقامی افراد کی زندگیاں بھی آسان ہوتیں۔ گلیات کی ’جنت نظیر وادیوں‘ میں رہنے والے رابطہ شاہراؤں کی خستہ حالی‘ علاج معالجے‘ تعلیم‘ پینے کے پانی جیسی بنیادی سہولیات اور پائیدار روزگار سے محروم ہیں۔ قومی اسمبلی کے دو اُور صوبائی اسمبلی کے دو اِنتخابی حلقوں میں تقسیم ’بالائی ضلع ایبٹ آباد‘ پر تیس سال تک ماضی کے حکمرانوں نے یہاں کے رہنے والوں کو محروم اور محکوم بھی رکھا۔ گلیات سے سیاسی تعصبات کا خاتمہ اُور تعمیروترقی کے عمل میں مقامی بلدیاتی نمائندوں کی مشاورت بھی شامل ہونی چاہئے۔
حکومتی ’ریسٹ ہاؤسیز‘ کی نجکاری (کمرشل ائزیشن) ’سونے کے اَنڈے دینے والی مرغی ذبح‘ کرنے کے مترداف عمل ہوگا۔ دنیا میں کہیں بھی سیاحتی مقامات صرف اُور صرف سرمایہ دار‘ بااثر اُور سیاسی شخصیات کی آسائش و سکون کے مراکز نہیں ہوتے بلکہ حکومت متوسط طبقات کے لئے بھی معیاری تفریح کے مواقع اور اِمکانات ذہن میں رکھتی ہے۔ کیا کوئی ایسی مثال موجود ہے جس میں خیبرپختونخوا میں موسم گرم کی شدت والے میدانی علاقوں سے سرکاری سکولوں کے بچوں کو چند ہفتے گلیات کی سیر کرائی جائے؟ پشاور یونیورسٹی کے ’باڑہ گلی کیمپس‘ پر مستقل بنیادوں پر اساتذہ و انتظامیہ ڈیرے ڈالے رہتی ہے‘ جہاں طلباء و طالبات کو چند روز کے لئے مدعو کرنے جیسی ’سخاوت (فراخدالی)‘ کے مظاہرے پر لاکھوں روپے خرچ کرنا ایک ایسا معمول (بدعت حسنہ اور بدعنوانی) ہے‘ (تعجب ہے کہ) اِس جانب صوبائی حکومت تاحال متوجہ نہیں ہوئی۔ گلیات میں ’عیاشی کے اڈے‘ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ مقامی اَفراد خاموش تماشائی بنے وہ سب کچھ ’سہتے‘ ہیں جو نہ تو علاقے اُور نہ ہی اسلامی روایات (تعلیمات) کا حصہ ہیں! گلیات کی خوبصورتی اُور موسم سے لطف اندوز ہونے کے لئے تشریف لانے والوں کو تصور بھی نہیں ہوتا کہ اِن علاقوں میں مقامی اَفراد بھی رہتے ہیں‘ جن کے ہاں بیماری‘ ماتم‘ سوگ یا غم کا ماحول بھی ہوسکتا ہے۔ بلند آواز میں موسیقی‘ سرعام رقص و سرور کی محفلیں یا کھانے پینے کی اَشیاء کے خالی ڈبے‘ گندگی (کوڑاکرکٹ) پھیلانے سے گلیات کی مقامی اَفراد اُور جنگی حیات کے ’معمولات زندگی‘ بُری طرح متاثر ہوتے ہیں۔ سیاحت کا شوق کرنے والوں کے لئے رہنما اصول‘ شعور‘ رہنمائی‘ پردے اور حدودوقیود کی پابندی و اِحترام کے حوالے سے بھی ضروریات کا اِدراک و اِحساس ہونا چاہئے۔
Good job dear
ReplyDeleteTotally agree with u