Economic security
اِقتصادی تحفظ
قانون نافذ کرنے والے اداروں کی فعالیت سے داخلی و خارجہ چیلنجز (حملہ آور عوامل) سے نمٹنے کے لئے ’’قومی سلامتی (نیشنل سیکورٹی)‘‘ کی حکمت تشکیل دی جاتی ہے۔ اگر ہم ’نیشنل سیکورٹی‘ کے لفظی و اصطلاحی مفہوم کو دیکھیں تو اِس کا مطلب ہوگا ’’قوم کو لاحق خطرات سے بچانے کی حکمت عملی۔‘ اِس مرحلۂ فکر پر ’خطرات (threats)‘ کے اصطلاحی مفہوم پر بھی غور کیجئے جس کا مطالب میں شامل ہے کہ ’’کوئی ایسا فعل یا عمل (action) جس کے ذریعے دوسروں کو تکلیف‘ درد‘ زخم‘ جانی و مالی نقصانات یا دیگر ایسے اشتعال انگیز اقدامات کرنا۔‘‘ اگر ہم خطرات کے سانچے (matrix) اور اِس کی ساخت کو سمجھنا چاہیں تو کچھ یوں ہوگی کہ ’’ملکی سلامتی کو لاحق خطرات (چیلنجز) سے خفیہ اطلاعات کی بنیاد پر نمٹنے کی ایک ایسی حکمت عملی جس میں داخلی و خارجی محاذوں پر خطرات اور اُن کے پہلوؤں کا احاطہ کیا گیا ہو۔‘‘
موجودہ صورتحال میں پاکستان کی ساری توجہ داخلی و خارجی محاذ پر درپیش خطرات کے یہ پانچ پہلو ہیں۔ فوج‘ جوہری صلاحیت‘ دہشت گردی‘ سائبر اثاثے اور اقتصادیات لیکن اِن سب سے زیادہ عدم توجہی کا شکار (neglected) پہلو ’ملک کے اقتصادی مفادات کا تحفظ‘ ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ اجتماعی بہبود کے نکتۂ نظر سے ملک میں ایسے حالات پیدا کئے جائیں کہ جس میں ہر مالی حیثیت‘ آمدن و رہن سہن محفوظ ہوں اور مستقبل میں درپیش چینلجز کا بروقت اُور قبل اَزوقت (پیشگی) اِحساس کر لیا جائے۔ ایک عرصے سے پاکستان کی دفاعی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق ترجیحات کا تعین کیا جاتا رہا ہے جن کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں لیکن ’اقتصادی تحفظ‘ بھی ایک اہم ضرورت ہے‘ جس پر خاطرخواہ توجہ دینی چاہئے۔
اقتصادی تحفظ کے چھ حصے ہیں۔ کمرشل‘ فنانشیل‘ توانائی‘ صنعتی‘ تکنیکی (ٹیکنیکل) اور خوراک کا تحفظ یقینی بنانا۔ پاکستان کی کمرشل سیکورٹی کی بنیاد دو امور پر ہے۔ درآمدی و برآمدی توازن اور درآمدی و برآمدی تنوع۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کی اقتصادی سیکورٹی کو لاحق خطرات میں اضافہ اُور اِن کی جس قدر شدت آج ہے‘ ماضی میں کبھی نہیں رہی۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ہماری درآمدات 52 ارب ڈالر تک جا پہنچی ہوں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا جس طرح گذشتہ پانچ برس کے دوران ہماری برآمدات میں 20فیصد کمی ہوئی ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کا تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر تک جا پہنچا ہو۔
پاکستان کا ’اقتصادی تحفظ‘ دو عوامل پر منحصر ہے۔ قومی قرض اور آمدن و اخراجات میں عدم توازن کی وجہ سے مالی خسارہ (bugetary deficit)۔ تصور کیجئے کہ 1971ء میں پاکستان پر واجب الادأ قرضہ جات کا مجموعی حجم 30ارب روپے تھا جو 46 برس میں بڑھ کر ’’22 ہزار ارب روپے‘‘ ہو چکا ہے۔ مالی سال 2016-17ء کی پہلی سہ ماہی میں ٹیکسوں (محصولات) سے حاصل ہونے والی پاکستان کی کل قومی آمدنی کا دو تہائی حصہ قرضہ جات پر سود کی ادائیگی پر خرچ ہوا۔ مشرف دور (سال 2005ء) میں ایک قانون (Fiscal Responsibility and Debt Limitation Act) بنایا گیا جس کا مقصد مالی نظم و ضبط قائم کرنا تھا۔ اِس قانون کے تحت قومی آمدنی کے ساٹھ فیصد حصے سے زیادہ قرض نہیں لئے جا سکتے۔ پاکستان پر موجودہ قرضوں کا بوجھ مجموعی قومی خام آمدنی کے 75فیصد تک پہنچ چکا ہے۔
بجٹ خسارہ کم کرنے کا دعویٰ کرنے والی موجودہ حکومت پیپلزپارٹی دور میں بجٹ خسارے سے اقتصادی موازنہ کرتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ حکومت تین اہم اور بنیادی حقائق نظرانداز کر رہی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی کمرے میں تین ہاتھی گھس گئے ہوں اور کوئی اُن کی موجودگی کا انکار کر رہا ہو۔ پہلا ہاتھی (پہلی حقیقت) یہ ہے کہ حکومت نے بجلی پیدا کرنے والے نجی اداروں کو کم سے کم 400 ارب روپے ادا کرنے ہیں۔ دوسرا ہاتھی (دوسری حقیقت): حکومت نے نجی شعبے کے 300ارب روپے دینے ہیں جو ٹیکس کی صورت جمع کئے جاتے ہیں۔ یہ دونوں ادائیگیاں بجٹ خسارے کا حصہ ہونا چاہیءں لیکن جب وفاقی وزارت خزانہ اعدادوشمار مرتب کرتی ہے تو اِن دو مدوں میں واجب الادأ ادائیگیوں کو شمار نہیں کرتی جس کا مقصد ’بجٹ خسارہ‘ کم ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے۔
سال 1984ء سے 2004ء کے دوران بھارت نے پاکستان کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی سازش کی‘ جس کی ناکامی کے بعد 2004ء سے 2014ء زمینی دراندازی کی بجائے دیگر محاذوں پر پاکستان پر حملہ آور ہونے کی کوشش کی جس کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے ’’حتف IX (نصر)‘‘ نامی بلاسٹک میزائل کا تجربہ کیا جو جوہری بم لیجانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس کی وجہ سے بھارت کے عزائم خاک میں مل گئے لیکن دشمن کو کبھی بھی غافل نہیں سمجھنا چاہئے بلکہ وہ ہتھیاروں اور دراندازی کی بجائے دیگر محاذوں کے ذریعے پاکستان پر حملہ آور ہوسکتا ہے۔
چھبیس مئی دوہزار چودہ کے روز ’نریندرہ مودی‘ نے بھارت کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور تب سے اُن کی کوشش ہے کہ وہ پاکستان کی ترقی و سلامتی کے لئے چیلنجز میں اضافہ کریں۔ ہتھیار دفاعی ضرورت ہیں لیکن اِسے یقینی بنانے کے لئے دیگر محاذوں جیسا کہ اقتصادی تحفظ کا خیال رکھنا بھی ضروری ہوتا ہے۔ یادش بخیر 1991ء میں روس کے پاس 7 ہزار جوہری ہتھیار تھے لیکن یہ بالادستی اُسے ٹکڑے ہونے سے نہ بچا سکی اور اُس کی ریاستیں 15 ممالک (آرمینیا‘ آزربائیجان‘ بیلاروس‘ ایستونیا‘ جورجیا‘ قزقستان‘ کرغستان‘ لٹوویا‘ لیتھونیا‘ مالدیویا‘ رشیا‘ تاجکستان‘ ترکمنستان‘ یوکرئن اُور ازبکستان) میں تقسیم ہوگئیں۔ پاکستان کے ’اقتصادی تحفظ‘ کو لاحق موجودہ خطرات پہلے سے بڑھ کر ہیں لیکن قومی سلامتی میں اقتصادی تحفظ کے عنصر کو خاطرخواہ اہمیت (توجہ) حاصل نہیں!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
National security, in the simplest of terms, is “the safety of a nation against threats”. A threat is “an intention to inflict pain, injury, damage or other hostile action”. A threat matrix is “an intelligence-based measure used for evaluating perceived external and internal threats which challenge a country’s national security”.
ReplyDeletePakistan’s current threat matrix has five major elements: military, nuclear, terrorist, cyber and economic. Of the five, economic security is the most neglected element of Pakistan’s national security. Economic security “is the condition of having stable income to support a standard of living now and in the foreseeable future”.
For way too long, we have focused on Pakistan’s military security. For way too long, we have focused on Pakistan’s nuclear security. Yes, the two are important. And yes, the terrorist threat is a ‘real risk’. But, for way too long, we have also neglected Pakistan’s economic security.
Economic security has at least six components: commercial, financial, energy, industrial, technical and food security. Pakistan’s commercial security depends on two factors: our import-export balance and the diversification of our import-export base. To be certain, our commercial security is under serious threat as never before. Never in history has our import bill skyrocketed to $52 billion. Never in history have our exports suffered a five-year, 20 percent decline. Never in history has our trade deficit touched a colossal $32 billion.
Pakistan’s financial security depends on two factors: national debt and budgetary deficit. Imagine: our national debt has gone from Rs30 billion in 1971 to a massive Rs22,000 billion in a mere 46 years. In the first quarter of 2016-17, two-thirds of tax revenue collected went into debt-servicing. Second, the top-limit allowed under the Musharraf-drafted Fiscal Responsibility and Debt Limitation Act of 2005 is 60 percent as oppose to the current debt-to-GDP that stands at 75 percent.
ReplyDeleteAs far as the budget deficit is concerned, the incumbent government claims that they have halved the PPP-era budget deficit. The truth is that the government is trying hide to at least three elephants in the room. First elephant: the government owes the private sector power plants at least Rs400 billion. Second elephant: the government owes the private sector refunds of at least Rs300 billion (the two should be part of the budgetary deficit, but are not).
From 1984 to 2004, under the Sundarji Doctrine, the Indian Army fielded seven ‘holding corps’ and three ‘strike corps’ tasked to “penetrate deep into Pakistani territory” through “sledgehammer blows in a high-intensity battle” with the goal of “cutting Pakistan into two halves.” The Sundarji Doctrine failed because the long mobilisation lacked the all-important element of surprise.
From 2004 to 2014, under the Cold Start Doctrine, after the failure of the Sundarji Doctrine, the Indian Army came up with eight Integrated Battle Groups that conducted offensive operations to invade Pakistan for ‘shallow gains’ (as opposed to the ‘deep penetration’ under the Sundarji Doctrine). As a reaction to Cold Start, the Pakistan Army put forward a battlefield ballistic missile carrying a sub-kilotonne nuclear warhead – the Hatf IX (Nasr) – and checkmated the Cold Start Doctrine.
What next? On May 26, 2014, Narendra Modi assumed the office of the prime minister of India and gave birth to the Modi-Doval Doctrine. Back in 1991, the Soviet Union was in possession of 7,000 nuclear warheads. Back in 1991, the Soviet Union split into 15 republics – Armenia, Azerbaijan, Belarus, Estonia, Georgia, Kazakhstan, Kyrgyzstan, Latvia, Lithuania, Moldavia, Russia, Tajikistan, Turkmenistan, Ukraine and Uzbekistan.
Our economic security is vulnerable like it has never been in our history. And our economic security continues to be the most neglected element of our national security. To top it all, the Modi-Doval equation also has political chaos, anarchy and lawlessness in its stockpile.