Sunday, August 6, 2017

TRANSLATION: Alarm bells by Dr. Farrukh Saleem

Alarm bells
خطرے کی گھنٹیاں
پانامہ پیپرز کی صورت منظرعام پر آنے والی دستاویزات کے بعد سے پورا پاکستان گزشتہ پندرہ ماہ سے حقائق کی کھوج اور سیاست میں ذاتی مفادات پر مبنی ترجیحات پر بحث کر رہا ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ’کاروبارِ حیات‘ رُک گیا ہو اور ماسوائے پانامہ پاکستان میں کچھ بھی نہ ہو رہا ہو لیکن توجہ طلب یہ امر ہے کہ جب ہم ’پانامہ کھیل‘ میں مصروف ہیں تو پس پردہ پاکستان کی اقتصادیات تیزی سے روبہ زوال ہیں! ہمارے سامنے یورپی ملک اٹلی کی مثال موجود ہے جہاں وزیراعظم کو یوں تبدیل کیا جاتا ہے جیسے کوئی شخص اپنی جرابوں کے جوڑے تبدیل کرتا ہے اور یہی صورتحال جاپان کے سیاسی نظام کی بھی ہے کہ وہاں حکمرانی کسی ایک خاندان یا فرد کی میراث نہیں ہے۔ اِن ممالک میں سیاسی حکمرانوں کی ’آمدورفت‘ سے ملک کی اقتصادی ترقی کا عمل متاثر نہیں ہوتا کیونکہ ادارے پالیسیوں کے تابع ہوتے ہیں اور پالیسیاں مرتب کرنے خودمختار ہونے کے ساتھ قومی اداروں میں سیاسی مداخلت نہیں کی جاتی۔ سیاست دانوں کو اپنی حدود کا علم ہے اور وہ جانتے ہیں کہ قومی اِداروں کی مضبوطی حد درجہ ضروری ہے لیکن ہمارے (بدقسمتی سے) ہاں ایسا نہیں ہے۔ جب کوئی وزیراعظم یا سیاسی حکومت مشکل میں پھنستی ہے تو ملک کا ہر ادارہ اُس کے حق یا مخالف ہو کر اپنی بنیادی ذمہ داریاں پس پشت ڈال دیتا ہے اور اِس طرزعمل سے برآمد ہونے والا نتیجہ‘ 
پانامہ کیس کی ذیل میں ملک کی صورتحال سے واضح ہے۔

تجارتی خسارہ: پاکستان کی تاریخ میں کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ملک کی درآمدات ’52 ارب ڈالر‘ تک جا پہنچی ہوں۔ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی ایسا نہیں ہوا کہ پاکستان کی برآمدات اِس تیزی سے کم ہوئی ہوں جیسا کہ گذشتہ 6 سال کے دوران ہوئی ہیں! پاکستان کی تاریخ میں یہ بھی کبھی نہیں ہوا کہ اقتصادی خسارہ 32 ارب ڈالر کو چھو رہا ہو! اِس قومی اقتصادی خسارے کو کم کرنے کے لئے ہمارے پاس یہی صورتیں باقی رہ گئی ہیں کہ ہم مزید قرضوں کی صورت بھیک مانگیں۔ ادھار لیں یا پھر چوری کر کے کہیں نہ کہیں سے مالی ضروریات کو پورا اور اقتصادی خسارہ کم کرنے کی تدبیر کریں۔ ذہن نشین رہے کہ ’’اقتصادی خسارہ‘‘ ایک اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کی برآمدات (باہر سے آنے والی اشیاء) اُس کی درآمدات (اُس کی پیداوار کی بیرون ملک فروخت) سے زیادہ ہو جائیں! موجودہ حالات میں پاکستان میں اشیاء و اجناس کی پیداوار کے مقابلے بیرون ملک سے اشیاء و اجناس کی درآمدات زیادہ ہو رہی ہیں۔

اقتصادی بحران کا ایک رخ ’پاکستانی روپے (کرنسی)‘ پر برقرار اور بڑھتا ہوا دباؤ بھی ہے۔ ڈالر کے مقابلے پاکستانی روپے کی شرح پھر سے نظرثانی کی متقاضی ہے۔ کیا ہم اِس ناکام حکمت عملی سے کام لیتے رہیں گے کہ باہر سے درآمدات کرتے رہیں؟ آخر ہم کیسے 32 ارب ڈالر کے تجارتی خسارے کو کم اور اِس قدر سرمائے کا بندوبست کریں گے کیونکہ درآمدات و برآمدات کے درمیان فرق کا موجودہ تناسب زیادہ عرصہ برقرار رکھنا (جھیلنا) ممکن نہیں ہوگا۔ اقتصادی بحران کی شدت میں بڑھتے ہوئے اضافے سے نمٹنے کے لئے سوچ بچار کا عمل کس کی ذمہ داری ہے اُور اِس میں اِضافہ ہماری سوچ سے زیادہ تیزی سے ہو رہا ہے تو درست اقتصادی فیصلے کون کرے گا۔

بجٹ خسارہ: وزارت خزانہ کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی آمدن و اخراجات عدم توازن کا شکار ہے اور وفاقی بجٹ کا خسارہ 1.5(ڈیڑھ کھرب) ٹریلین روپے ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ وزارت خزانہ (ایف بی آر) جائز قابل واپسی محاصل جن کی مالیت 300 ارب روپے ہے ادا نہیں کر رہی۔ ہم جانتے ہیں کہ حکومت کے ذمے بجلی پیدا کرنے والے نجی کمپنیوں (آئی پی پیز) کے 400 ارب روپے واجب الادأ ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ ایف بی آر چاہتا ہے کہ لوگ اپنی آمدنی کا پیشگی ٹیکس ادا کریں! ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ قومی ادارے جیسا کہ پی آئی اے‘ پاکستان سٹیل اور پاکستان ریلویز خسارے میں ہیں اور ہرسال سینکڑوں ارب روپے اِن اداروں کو فعال رکھنے پر خرچ ہو رہے ہیں!

لمحہ فکریہ ہے کہ ہماری حکومت کھربوں روپے کے اقتصادی خسارے کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کر رہی ہے یہ بالکل ایسی ہی کوشش ہے کہ جیسے کوئی ہاتھی کمرے میں گھس آیا ہو اور کوئی اُسے چھپانے کی کوشش کر رہا ہو۔ پاکستان کا خسارہ مجمومی قومی آمدنی کے آٹھ فیصد کے قریب ہے لیکن حکومت اِسے چار فیصد کے قریب ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ قومی آمدنی اور قومی اخراجات زیادہ عرصہ تک برقرار رکھنا عملاً ممکن نہیں ہوگا۔

ملکی قرضہ جات: 1971ء میں (قریب 46 برس قبل) پاکستان کا قومی قرض 30 ارب روپے تھا جو بڑھ کر 22 ہزار ارب روپے ہو چکا ہے۔ ہم قرض کی دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں۔ گذشتہ چار برس کے دوران حکومت نے 35 ارب ڈالر مالیت کے نئے غیرملکی قرضے حاصل کئے اِن میں 17 ارب ڈالر مالیت کے نئے قرضے اِس لئے حاصل کئے گئے تاکہ پرانے قرضہ جات کی اقساط ادا کی جائیں! علاؤہ ازیں حکومت نے مقامی مالیاتی اداروں سے اضافی 3 کھرب روپے کے نئے قرضے لئے۔ وزارت خزانہ نے قومی ضروریات کے لئے حاصل کئے جانے والے قرضہ جات کی اصطلاح تبدیل کرکے عوام کو نہیں بلکہ خود کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے! اگر ’اقتصادی خسارہ‘ بے قابو رہتا ہے تو اس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر وفاقی بجٹ کا خسارہ بھی بڑھتا چلا گیا تو اِس کے خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔ اگر قومی قرضے می

2 comments:

  1. We have all been playing Panama and doing nothing else for the past 15 months. And while we were playing Panama and doing nothing else, the economy fell off the cliff. Italy has been changing its prime minister as often as one changes a pair of socks. And Japan has been no different. But their economies do not fall off the cliff. Why? Because their economic decision-making has been institutionalised. Ours is not. When a Pakistani prime minister gets into trouble, the entire governmental paraphernalia abandons each and every one of its responsibilities and jumps into politicking. The results are for all of us to see.

    Trade deficit: Never in Pakistan’s history have we imported goods and services worth a whopping $52 billion. Never in Pakistan’s history have our exports declined in the way that they have over the past six years. Never in Pakistan’s history have we had a colossal trade deficit worth $32 billion. Now we must beg, borrow or steal to bridge the deficit (A trade deficit is the “amount by which the cost of a country’s imports exceeds the value of its exports”).

    Should we readjust the rupee-dollar parity? Should we continue with our failed policy of import substitution? How do we plan to finance a trade deficit worth $32 billion? The current import-export scenario is definitely not sustainable. The bomb is ticking and will explode sooner than we think. Who will decide it all?

    ReplyDelete
  2. Budget deficit: On this count, we have been deceiving ourselves like never before. The Ministry of Finance claims that the deficit is worth Rs1.5 trillion. We know that the FBR is holding back genuine refunds of Rs300 billion. We know that the government owes the IPP sector a sum of over Rs400 billion. We know that the FBR forces taxpayers to pay advance taxes. We know that the so-called state-owned enterprises – PIA, Pakistan Steel and Pakistan Railways – loose a few hundred billion a year every year.

    Yes, the government has been trying to hide a trillion-rupee deficit that is out there like an elephant in the room. Yes, the deficit is around eight percent of the GDP (the government claims it is half of that). To be certain, the current revenue-expenditure scenario is definitely not sustainable. The bomb is ticking and will explode sooner than we think. Who will decide what to do?

    Debt: In 1971 – a mere 46 years ago – our national debt stood at Rs30 billion. Lo and behold, our national debt has since soared to Rs22,000 billion. We are indebted like never before. Over the past four years, the government has obtained $35 billion in new foreign loans ($17 billion of new loans were used to pay back old loans). And that is in addition to Rs3 trillion in new loans raised in the domestic market.

    Lo and behold, the only thing that the Ministry of Finance has done is change the definition of national debt. Yes, “illusion is the first of all pleasure”.

    The out-of-control trade deficit has consequences. The out-of-control budgetary deficit has consequences. The out-of-control national debt has consequences. And these consequences would have to borne by generations to come. Yes, our economic security – which has long been the neglected element of our national security – is under serious threat.

    ReplyDelete