Horse-trading
ہارس ٹریڈنگ
سال 37 سے 41 عیسوی کی بات ہے جب ’’رومن دور حکومت کے تیسرے بادشاہ ’گائیس جولیس سیزر‘ (Gaius Julius Caesar) المعروف ’کالیگوا‘ (Caligula) کو اپنے گھوڑے ’اِنچی تاتُس (Incitatus)‘ سے اتنا پیار ہوا کہ اُسے ’رومن قانون ساز ادارے ’سینیٹ‘ کا رکن بنا دیا گیا۔‘‘ جو کچھ میں لکھ رہا ہوں یہ موجودہ اراکین صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے لئے اُمیدواروں کی زبانی سنا ہے۔ تین مارچ کے روز ’سینیٹ انتخابات‘ کا مرحلہ درپیش ہے جس کے لئے بلوچستان اسمبلی 65 اراکین اسمبلی نے اپنے اپنے ووٹ (رائے) کے ذریعے 7 سنیٹیرز کا براہ راست انتخاب کرنا ہے۔ کسی اُمیدوار کو سینیٹر بننے کے لئے بلوچستان اسمبلی کے 9 اراکین کی حمایت درکار ہے۔ سینیٹ کے اُمیدواروں کی جانب سے اراکین صوبائی اسمبلی کو اپنے حق میں ووٹ دینے کی پیشکشیں بھی کی جا رہی ہیں اور انہیں اراکین اسمبلی کی جانب سے بھی رقم کا تقاضا سننے میں آ رہا ہے۔
سردست بات تین کروڑ روپے فی ووٹ تک جا پہنچی ہے۔ اراکین اسمبلی کچھ کمانے کے اِس آخری موقع سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں کیونکہ عام انتخابات سے قبل اُنہیں سینیٹ نشستوں کے لئے ووٹ ڈالنے کا یہ آخری موقع مل رہا ہے۔ شنید ہے کہ ڈھائی کروڑ تک کی پیشکشیں عام ہو رہی ہیں۔ جس کا مطلب ہے کہ ایک سینیٹ کی نشست کے لئے بولی 25 کروڑ روپے تک جا پہنچی ہے اور اِس پورے انتخابی عمل میں قریب ’2 ارب روپے‘ کی لین دین ہونے والی ہے!
جو کچھ میں لکھ رہا ہوں یہ موجودہ اراکین صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کے لئے اُمیدواروں کی زبانی سنا ہے۔ خیبرپختونخوا اسمبلی کے اراکین کی تعداد 124 ہے جنہوں نے براہ راست انتخاب کے ذریعے 7 سینیٹرز کا انتخاب کرنا ہے۔ یوں سینیٹ کے کسی بھی اُمیدوار کو کامیابی کے لئے 18 اراکین صوبائی (خیبرپختونخوا) اسمبلی کی حمایت (ووٹ) چاہئے۔ بلوچستان اسمبلی کی طرح یہاں بھی بولی لگ رہی ہے اور سینیٹ کے لئے فی ووٹ کی قیمت 2 کروڑ تک جا پہنچی ہے۔ آئندہ عام انتخابات سے قبل ’اراکین صوبائی اسمبلی‘ کے لئے کچھ کمانے کا یہ آخری موقع ہے۔ ایک ووٹ کے عوض 2 کروڑ روپے کی پیشکش کا مطلب ہے کہ سینیٹ کی ایک نشست کی قیمت قریب 35 کروڑ روپے مقرر کی گئی ہے۔ اِس موقع پر اپنی ہی سیاسی جماعت سے تعلق رکھنے والے سینیٹ اُمیدواروں سے اراکین صوبائی اسمبلی کچھ رعائت کا معاملہ کر سکتے ہیں تاہم اندازہ ہے کہ خیبرپختونخوا اسمبلی میں سینیٹ انتخاب کے لئے اراکین کے درمیان 2 ارب روپے کی لین دین متوقع ہے!
نتیجۂ خیال (خلاصۂ کلام) یہ ہے کہ 18 فروری سے 3 مارچ کے درمیان بلوچستان اور خیبرپختونخوا قانون ساز ایوانوں میں ’’4 ارب روپے‘‘ کی لین دین متوقع ہے۔ قبائلی علاقہ جات سے تعلق رکھنے والے اراکین قومی اسمبلی سینیٹ انتخاب میں ووٹ دینے کے اہل ہیں جن کی سینیٹ اُمیدواروں سے رابطے اور ملاقاتیں زبان زد عام ہیں! سننے میں آیا ہے کہ سینیٹ کے لئے قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے ایک ووٹ کی قیمت 5 کروڑ روپے مقرر ہے!
قانون ساز ایوان بالا‘ سینیٹ میں پاکستان پیپلزپارٹی (پارلیمینٹرین) سے تعلق رکھنے والے سینیٹرز کی کل تعداد 26 ہے‘ جن میں 18 کی مدت ختم ہو رہی ہے۔ اِس صورتحال میں پیپلزپارٹی سب سے زیادہ ’حاجت مند‘ ہے کہ وہ کسی بھی قیمت پر اراکین صوبائی اسمبلی کی حمایت خریدے تاکہ سینیٹ میں اُس کی موجودگی اور پلڑا بھاری رہے۔ اِس حوالے سے جو معلومات مجھ تک پہنچی ہیں وہ قابل اعتماد ذرائع سے ہیں اور اِن معلومات کے مطابق پیپلزپارٹی نے بلوچستان اسمبلی سے ووٹ خریدنے کے لئے ڈیڑھ ارب روپے مختص کر رکھے ہیں۔ شریک چیئرمین آصف علی زرداری مبینہ طور پر منصوبہ سازی کر رہے ہیں کہ وہ بہرصورت بلوچستان سے سینیٹ کی چھ سے تین جبکہ خیبرپختونخوا سے ایک یا دو نشستیں حاصل کریں۔ یاد رہے کہ بلوچستان میں پیپلزپارٹی کا ایک بھی رکن صوبائی اسمبلی کا حصہ نہیں لیکن وہ وہاں سے سینیٹ نشست جیتنے کے متمنی ہیں۔
سننے میں یہ بھی آیا ہے کہ صوبہ پنجاب اور سندھ کی اسمبلیوں سے تعلق رکھنے والے اراکین کے منہ سے بھی رال ٹپک رہی ہے اور وہ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے اراکین اسمبلی کی طرح سینیٹ انتخاب سے کچھ نہ کچھ مالی فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں لیکن توقع ہے کہ پنجاب اور سندھ اسمبلیوں میں سینیٹ کے لئے انتخابات نسبتاً شفاف ہوں گے۔ یاد رہے کہ پنجاب میں 53 اراکین صوبائی اسمبلی کے ووٹوں سے ایک سینیٹر منتخب ہو گا۔
مارچ 2016ء کی بات ہے جب ’سینیٹ آف پاکستان‘ کے اراکین نے اِس بات پر احتجاج کیا کہ دیگر قانون ساز اسمبلیوں کے اراکین کی طرح اُنہیں بھی ’سالانہ ترقیاتی فنڈز‘ دیئے جائیں۔ جس پر وزیر مملکت برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے وعدہ کیا تھا کہ ہر سینیٹر کو ’20 ارب روپے‘ کے ترقیاتی فنڈز دیئے جائیں گے۔
تصور کیجئے سینیٹ اراکین کی کل تعداد 104 اور اِن میں سے ہر ایک کی قدر ’اُنیس کروڑ (190 ملین) روپے!‘ انسان اشرف المخلوقات ہستی ہے لیکن صرف اُسی صورت میں جبکہ اُس کے اعمال واجب الاحترام یعنی دیگر ہم زمین مخلوقات سے عقل و شعور کے حامل ہوں۔ اگر ’رومن بادشاہت‘ میں گھوڑے سینیٹ کی رکنیت کے اہل ہو سکتے ہیں تو اِس بات پر تعجب کیسا کہ اگر پاکستان کی سینیٹ میں بھی گھوڑوں (جانوروں) کی طرح خریدوفروخت کے بعد وفاداریاں (حمایت اور ووٹ) حاصل کی جائیں!
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
Gaius Julius Caesar, the third emperor of the Roman Empire, nicknamed Caligula, had a favourite horse called Incitatus. Caligula loved Incitatus to the point that he promoted his horse and made him a member of the Roman Senate.
ReplyDeleteWhat I write is what I hear from sitting MPAs. What I write is what I hear from senatorial candidates. The Balochistan Assembly has 65 MPAs who will directly elect a total of seven senators. To be elected a senator, one would need the support of nine MPAs. There are ‘offers’ and there are ‘bids’. What I hear from sitting MPAs is a demand of around Rs30 million each. After all, this is their last chance before the next election. What I hear is that senatorial candidates are offering around Rs25 million. That would put a price tag of roughly Rs250 million per senate seat. And that would mean a sum of around Rs2 billion changing hands.
What I write is what I hear from sitting MPAs. What I write is what I hear from senatorial candidates. The Khyber Pakhtunkhwa Assembly has 124 MPAs who will directly elect a total of seven senators. To be elected a senator one would need the support of 18 MPAs. There are ‘offers’ and there are ‘bids’. What I hear from sitting MPAs is a demand of around Rs20 million each. After all, this is their last chance before the next election. That would put a price tag of roughly Rs350 million per senate seat. Yes, your own party’s MPAs are more willing to lower the price tag. For the Khyber Pakhtunkhwa Assembly that would mean a sum of around Rs2 billion changing hands.
ReplyDeleteLo and behold, between February 18 and March 3, a hefty Rs4 billion may change hands in the Balochistan and the Kyber Pakhtunkhwa assemblies. In Fata, secret and not-so-secret meetings are being held between MNAs and senatorial candidates. Money has long been – and continues to be – the most decisive factor in winning a senate seat from Fata. I have heard that at least one senatorial candidate has offered a huge sum of Rs500 million for the privilege of sitting in the Senate.
The PPP currently has 26 senators, 18 of whom are retiring. The PPP, therefore, is the most in need to buy as many senate seats as money can buy. What I write is what I hear from historically dependable sources. The PPP may have assembled a Rs1.5 billion kitty to buy horses in Quetta. Co-Chairman Asif Ali Zardari is reportedly strategising to win anywhere, from three to six senate seats out of the Balochistan Assembly (and a seat or two in the KP Assembly). Lo and behold, the PPP does not have a single MPA in the Balochistan Assembly.
What I hear is that MPAs in the Punjab and Sindh assemblies are envious of their counterparts in the Balochistan and the Khyber Pakhtunkhwa assemblies. What I hear is that the Senate election in the Punjab and Sindh assemblies will be relatively clean. In Punjab, for instance, 53 MPAs will elect a senator.
In March 2016, there was a protest in the Senate of Pakistan. The honourable senators demanded ‘development funds’. Yes, Sheikh Aftab Ahmed, the minister of state for parliamentary affairs, had promised a fund of Rs20 billion. Lo and behold, Rs20 billion over
104 senators amounts to Rs190 million each. If the Roman Senate can have horses, why can’t we?