Sunday, April 29, 2018

Translation: The defence budget by Dr. Farrukh Saleem

The defence budget
دفاعی بجٹ
پاکستان پر جنگ مسلط ہے اور اِس حالت جنگ میں جہاں روائتی ہتھیاروں اور طریقوں کو آزمایا جا رہا ہے وہیں غیرروائتی ہتھیاروں سے بھی کام لیا جا رہا ہے اور اِس پوری کوشش کا مقصد صرف یہی ہے کہ پاکستان کو کمزور کردیا جائے جس کے لئے اقتصادی طور پر ملک کو ناتواں کرنا ترجیح ہے۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ پاکستان کثیرالجہتی قومی سلامتی کی حکمت عملی مرتب کرے جس میں کسی بھی سمت سے آنے والے حملے کو پسپا کرنے کی صلاحیت اور قوت موجود ہو۔

وفاقی حکومت نے مالی سال برائے 2018-19ء کا بجٹ پیش کر دیا ہے جس میں دفاعی بجٹ کے لئے 10فیصد اضافہ تجویز کیا گیا ہے تاہم دفاعی بجٹ سے متعلق پائے جانے والے عمومی تصورات اور نظریات وضاحت طلب ہیں۔

پہلا تاثر: پاکستان کا سب سے بڑا خرچ اِس کا دفاع ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کی کل آمدن (مالی وسائل) کا سب سے بڑا حصہ دفاع کے لئے نہیں بلکہ قرضوں کی ادائیگی پر خرچ ہوتا ہے۔ قرضوں کی ادائیگی کے بعد پاکستان کا دوسرا سب سے بڑا خرچ ادارہ جاتی خسارہ ہے جسے جان بوجھ کر ظاہر نہیں کیا جاتا۔ مثال کے طور پر پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن (پی آئی اے)‘ پاکستان اسٹیل ملز‘ بجلی کا پیداواری شعبہ اُور پاکستان ریلویز اُن سرکاری اِداروں کی فہرست میں شامل ہیں‘ جو مسلسل خسارے کا سبب قومی خزانے پر مستقل بوجھ ہیں۔ وفاقی حکومت کا تیسرا سب سے بڑا خرچ ’قومی ترقیاتی حکمت عملی‘ ہوتی ہے جو وفاق اور صوبے الگ الگ تشکیل دیتے ہیں جبکہ چوتھا بڑا خرچ دفاع (ڈیفینس افیئرز اینڈ سروسیز) ہے۔

دوسرا تاثر: دفاعی بجٹ کی وجہ سے پاکستان کی ترقی کا عمل متاثر ہو رہا ہے کیونکہ دفاع کے لئے مالی وسائل مختص کرنے کے بعد قومی ترقی کے لئے خاطرخواہ وسائل باقی نہیں رہتے۔ یہ تصور بھی درست نہیں۔ مالی سال 2018-19ء کے بجٹ کا اَگر جائزہ لیا جائے تو حکومتی اَخراجات کا ’18 فیصد‘ دفاعی امور اور خدمات ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ 82فیصد حکومتی اخراجات کا تعلق دفاع سے نہیں۔

تیسرا تاثر: دفاع کے لئے ہر سال مالی وسائل میں غیرمعمولی اضافہ کیا جاتا ہے۔ یہ عمومی تاثر بھی حقیقت پر مبنی نہیں۔ مالی سال 2001-02ء یعنی 17 سال قبل‘ ملک کی مجموعی آمدن کا 4.6فیصد حصہ دفاع کے لئے مختص کیا گیا تھا۔ مالی سال 2003-04ء کے دوران دفاعی شعبے کے لئے بجٹ میں کمی کرتے ہوئے اِسے 3.9فیصد کر دیا گیا اور 2018-19ء میں دفاع کے لئے ملک کی مجموعی آمدنی (34 کھرب روپے) کا 3.2 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔

چوتھا تاثر: پاک فوج دفاع کے لئے مختص ہونے والے سارے مالی وسائل (بجٹ) کو ہڑپ کر جاتی ہے۔ یہ تاثر بھی گمراہ کن ہے۔ 1960ء میں پاک فوج کا بجٹ قومی بجٹ کا 42 فیصد حصے پر مشتمل ہوا کرتا تھا جس میں ہر سال بتدریج کمی ہوتی چلی گئی اور آئندہ مالی سال 2018-19ء میں دفاع کے لئے کل مالی وسائل کا 9.6 فیصد حصہ مختص کیا گیا ہے۔

پانچواں تاثر: پاکستان اپنے دفاع پر قومی آمدنی کا سب سے زیادہ حصہ خرچ کرتا ہے۔ یہ تاثر بھی درست نہیں۔ دنیا میں ایسے کم سے کم چار درجن ممالک ہیں جو اپنی قومی آمدنی کا نسبتاً بڑا حصہ دفاعی امور پر خرچ کرتے ہیں‘ اِن میں بھارت‘ مصر‘ سری لنکا‘ امریکہ‘ برطانیہ‘ جنوبی کوریا‘ فرانس‘ ارئٹیریا‘ عمان‘ سعودی عرب‘ اسرائیل‘ اُردن‘ لائبریا‘ برونائی‘ شام‘ کویت‘ یمن‘ انگولا‘ سنگاپور‘ یونان‘ ایران‘ بحرین‘ جبوتی‘ موروکو‘ چلی‘ لبنان‘ روس‘ کولمبیا‘ زمبابوے‘ ترکی‘ جارجیا‘ گنی بساؤ‘ ایتھوپیا‘ نامیبیا‘ گھنی‘ ترکمنستان‘ کرغستان‘ الجیریا‘ سربیا و موٹینیگرو‘ آرمینیا‘ بوسٹوانا‘ یوکرین‘ یوگینڈا‘ ایکواڈور‘ بلغاریہ‘ لیستھو اُور سوڈان شامل ہیں۔

پاکستان کے ’قومی اخراجات‘ سے متعلق چند حقائق بھی غورطلب ہیں۔

پہلی حقیقت: پاکستان کا گردشی قرضہ ملک کے دفاعی بجٹ کے قریب مساوی ہو چکا ہے۔ اِس بات کا مطلب یہ ہے کہ اگر توانائی کے شعبے میں ہونے والے خسارے پر قابو پایا جائے تو اِس سے حاصل ہونے والی بچت ملک کے دفاع جیسی بنیادی و اہم ضرورت کے مساوی حاصل کی جا سکتی ہے۔

دوسری حقیقت: پاکستان کی فوج دنیا کی چھٹی بڑی فوج ہے لیکن پاک فوج کے جوانوں پر اوسطاً دنیا کا سب سے کم خرچ ہوتا ہے۔ اِس سلسلے میں چند ممالک کے اعدادوشمار سے رہنمائی لی جا سکتی ہے۔ جیسا کہ امریکہ اپنے ہر فوجی پر سالانہ اوسطاً چار لاکھ ساٹھ ہزار ڈالر خرچ کرتا ہے۔ سعودی عرب سالانہ اوسطاً تین لاکھ چالیس ہزار ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے۔ بھارت سالانہ اوسطاً 33 ہزار ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے۔ مصر سالانہ اوسطاً 18 ہزار ڈالر فی فوجی خرچ کرتا ہے جبکہ پاکستان سالانہ اوسطاً 12 ہزار ڈالر فی فوجی خرچ کر رہا ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. We are in the midst of a hybrid war which is the ‘synchronised use of multiple instruments of power tailored to specific vulnerabilities across the full spectrum of societal functions to achieve synergistic effects.’ The principal objective behind this hybrid war is to weaken Pakistan through a synchronised attack that includes economic warfare, supporting domestic unrest, diplomatic onslaught, along with regular and irregular military operations. We need to replace a uni-dimensional National Security Strategy focused singularly on military security with a synchronised strategy of a counter attack.

    Yes, Budget 2018-19 has increased defence allocation by 10 percent, Rs1.1 trillion, while the hike in current expenditures is 20 percent (development expenditure down by 20 percent). Here is an account of a few popular myths about our defence budget.

    Myth number 1: Our largest expenditure item is defence. Not true. The largest expenditure item in the budget is debt-servicing. The second largest expenditure, which is deliberately hidden in budget figures, will actually be eaten up by losses of Public Sector Enterprises like PIA, the Pakistan Steel Mills, power sector and Pakistan Railways. The third largest chunk will go for the Public Sector Development Programme (federal plus provincial). And the fourth largest allocation will go towards ‘Defence Affairs and Services’. Myth number 2: The defence budget takes away the lion’s share of the total budgetary outlay. Not true. In Budget 2018-19, ‘Defence Affairs and Services’ will consume around 18 percent of all the government expenditures. What this means is that a full 82 percent of all government expenditures are not defence related.

    ReplyDelete
  2. Myth number 3: The defence budget has been increasing at a high rate. Not true. In the financial year 2001-02, 17 years ago, the allocation for defence amounted to 4.6 percent of GDP. In 2003-04, the defence budget dropped to 3.9 percent of GDP. Budget 2018-19 has allocated Rs1.1 trillion for ‘Defence Affairs and Services’ which is 3.2 percent of our Rs34 trillion GDP.

    Myth number 4: The Pakistan Army consumes almost the entire defence budget. Not true. In the 1960s, Pak Army’s budget as a percentage of our national budget had hit a high of 42 percent. In Budget 2018-19, Pak Army’s budget as a percentage of our national budget has dropped sharply, and it now amounts to 9.6 percent.

    Myth number 5: Pakistan spends a very high percentage of its GDP on defence. Not true. There are at least four dozen countries that spend a higher percentage of their GDPs on defence. They include: India, Egypt, Sri Lanka, United States, United Kingdom, South Korea, France, Eritrea, Oman, Saudi Arabia, Israel, Jordan, Liberia, Brunei, Syria, Kuwait, Yemen, Angola, Singapore, Greece, Iran, Bahrain, Djibouti, Morocco, Chile, Lebanon, Russia, Colombia, Zimbabwe, Turkey, Georgia, Guinea-Bissau, Ethiopia, Namibia, Guinea, Turkmenistan, Kyrgyzstan, Algeria, Serbia and Montenegro, Armenia, Botswana, Ukraine, Uganda, Ecuador, Bulgaria, Lesotho and Sudan.

    And now the two facts. Fact number 1: The accumulated amount of the circular debt almost equates the current year’s defence allocation. And what that means is that if we can somehow manage losses within the power sector the savings will cover one year’s defence allocation.

    Fact number 2: Pakistan’s armed forces are the 6th largest in the world, but our expenses per soldier are the lowest. The US spends $460,000 per soldier, Saudi Arabia $340,000, India $33,000, Egypt $18,000 and Pakistan $12,000.

    ReplyDelete