Sunday, July 29, 2018

TRANSLATION: Challenges ahead by Dr. Farrukh Saleem

Challenges ahead
تحریک انصاف چیلنجز
پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ ہوا ہے۔ انتخابی تاریخ میں ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا کہ غیرموروثی سیاست کرنے والی کوئی سیاسی جماعت اتنی بڑی اکثریت سے کامیاب ہوئی ہو کہ اُس کی حکومت بننا واضح ہو چکا ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ایسا بھی پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کوئی سیاسی جماعت ملک کے چاروں صوبوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد سے انتخابی نشستوں پر بیک وقت کامیاب ہوئی ہو لیکن جیسا کہ ہر عہدے کے ساتھ ذمہ داری جڑی ہوتی ہے اِس لئے غیرمعمولی انتخابی کامیابی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت پر غیرمعمولی دباؤ بھی آیا ہے کہ اب اُنہیں اپنی کارکردگی کے ذریعے ووٹروں کے فیصلے کو فیصلے کو درست ثابت کرنا ہے اور یہ قطعی آسان نہیں بلکہ جلتے ہوئے انگاروں پر چلنے جیسا عمل ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کو آنے والے دنوں میں کن چیلنجز کا سامنا کرنا پڑے گا‘ جن کا مختصر بیان آئندہ چند سطور میں کیا جا رہا ہے۔

18 ارب ڈالر: پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ ملک کو 18 ارب ڈالر جیسا بڑا ’جاری اخراجات‘ کا خسارہ برداشت کرنا پڑ رہا ہو۔ اِس غیرمعمولی خسارے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان ہر ماہ ڈیڑھ ارب روپے خسارہ کر رہا ہے۔ رواں مالی سال کے دوران جاری اخراجات کا خسارہ گذشتہ مالی سال کے مقابلے 45 فیصد زیادہ ہے اور اگر 2 برس قبل کی بات کی جائے تو جو مالی خسارہ آج 18 ارب ڈالر ہے وہی 4.9 ارب ڈالر تھا۔ کسی بھی وزیر اعظم کے لئے سب سے بڑا اور پہلا چیلنج اِس قدر بڑے مالی خسارے پر قابو پانا ہوگا۔

پاکستانی روپے کی قدر میں تیزی سے کمی آئی ہے جبکہ حکومت نے برآمدکنندگان کے اربوں ڈالر بھی واپس کرنے ہیں۔ ہمیں پیٹرولیم مصنوعات کی داآمد‘ مشنیری‘ مائع گیس (ایل این جی)‘ کوئلہ‘ کوکنگ آئل اور دالیں تک درآمد کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اگر پیٹرولیم مصنوعات کی درآمد کسی بھی مہینے عدم توازن یا تاخیر کا شکار ہوتی ہے تو اِس سے ملک گیر سطح پر پیٹرولیم مصنوعات کی کمی بحرانی شکل اختیار کر لے گی اور پیٹرول پمپوں پر لمبی قطاریں دیکھنے میں آئیں گی۔ اِن مسائل کا حل موجود ہے لیکن یہ حل قدرے مشکل علاج ہے یعنی اگر پاکستانی روپے کی قدر میں مزید کمی کر دی جائے۔ شرح سود میں اضافہ کر دیا جائے۔ سرمائے کی نقل و حرکت پر حکومت کا سخت گیر کنٹرول نافذ ہو۔ درآمدات کم کرنے کے لئے خصوصی اقدامات کرے۔ برآمدکنندگان (ایکسپورٹرز) کے لئے حکومت خصوصی مراعات کا اعلان کرے اُور بیرون ملک پڑے چوری شدہ اثاثہ جات کو پاکستان واپس لایا جائے۔

4 ارب روپے: نئی حکومت کو آنے والے تین سے چار مہینوں میں ’4 کھرب روپے‘ مالیت کے ’ٹی بلز‘ یعنی واجب الادأ مالی ذمہ داریاں ادا کرنی ہیں اور یہ بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔

2.2 کھرب روپے: پاکستان کی تاریخ میں ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا کہ پاکستان کو 2.2 کھرب روپے جیسے بڑے ’بجٹ خسارہ‘ کا سامنا رہا ہوں۔ اِس 2.2 کھرب روپے کے خسارے سے نمٹنا بھی ممکن ہے جس کے لئے ترقیاتی عمل پر اخراجات کو غیرمعمولی طور پر کم کرنا ہوگا۔ وفاقی حکومت کو زیادہ سخت فیصلہ کرتے ہوئے ’نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی)‘ کے تحت صوبوں کو دیئے جانے والے ’مالی وسائل‘ روکنا ہوں گے اور ظاہر ہے کہ سیاسی اعتبار سے یہ فیصلہ آسان نہیں ہوگا۔

1.1 کھرب روپے: پاکستان کو گردشی قرضے کا سامنا ہے جس کا حجم 1.1 کھرب روپے تک جا پہنچا ہے۔ لمحہ فکریہ ہے کہ اِس گردشی قرضے میں ہر گزرتے دن اضافہ ہو رہا ہے اور اگر اِسے ضبط (کنٹرول) میں نہ لایا گیا تو اندیشہ ہے کہ یہ گردشی قرضہ ہی پاکستان کے پورے ’اقتصادی نظام‘ کو دیوالیہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تصور کیجئے کہ پاکستان ہر سال قریب 12 ارب ڈالر مالیت کی بجلی پیدا کرتا ہے جس میں سے 4 ارب ڈالر کی بجلی چوری یا گم ہو جاتی ہے۔ تصور کیجئے کہ پاکستان ہر سال گیس کی مد میں 200 ارب روپے کا نقصان کر رہا ہے!

پاکستان میں بجلی کی قیمت اِس کی پیداواری لاگت سے کم ہے۔ کیا نئی حکومت بجلی کی فی یونٹ قیمت کو بڑھانے جیسا فیصلہ کرے گی؟ مہنگی گیس (ایندھن) کی وجہ سے پنجاب میں سینکڑوں ٹیکسٹائل کارخانے بند ہوئے ہیں۔ نئے وزیراعظم کے لئے کوئی دوسری صورت نہیں لیکن وہ ’توانائی کے شعبے میں اصلاحات لائیں۔‘ اور یہ اصلاحات ہنگامی و جنگی بنیادوں پر (فوری) ہونی چاہیئں۔

1.1 کھرب روپے: مالی سال 2017ء کے دوران 190سرکاری اداروں نے قومی خزانے کو مجموعی طور پر ’1.1 کھرب روپے‘ کا نقصان پہنچایا اُور اگر گذشتہ 5 سال کا حساب کتاب کیا جائے تو مذکورہ 190 سرکاری محکمے ’3.7 کھرب روپے‘ نقصان کر چکے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ 5 سال کے عرصے میں ہر پاکستانی خاندان کا ’1لاکھ 25 ہزار روپے‘ کا نقصان ہوا ہے۔

464 ارب روپے: حکومت کے ذمے واجب الادأ مالی ذمہ داریوں میں ’چارسوچونسٹھ ارب روپے‘ بھی ایک قسم کا گردشی قرضہ ہی ہے جو صوبائی خوراک کے محکموں اور دیگر ایسے اداروں کا پیدا کردہ ہے‘ جو مختلف قسم کی اجناس و اشیاء کی خریداری کرتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق خریداری کی مد میں پیدا ہونے والے آمدن و اخراجات کے عدم توازن کی وجہ سے قومی خزانے کو خسارہ 464.2 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔

نئی حکومت کو ایسے تمام خسارے ختم کرنا ہوں گے جس کے لئے صرف اور صرف سیاسی قوت ارادی کی ضرورت ہے۔ حکومت کو اپنی آمدنی کے وسائل اور اخراجات کو ازسرنو مرتب کرنا ہوگا اور بالخصوص آمدنی کو اخراجات کے ساتھ توازن میں لانا ہوگا۔ اب تک یہ کام اگر نہیں ہو سکا تو اِس کے پیچھے کارفرما محرک یہی رہا کہ ’سیاسی قوت ارادی‘ کی کمی تھی۔

لب لباب یہ ہے کہ نئے ’وزیراعظم پاکستان‘ کو ’’12 کھرب روپے‘‘ جیسے بڑے چینلج کا سامنا ہے۔ رواں ماہ (پچیس جولائی) عام انتخابات میں ہر سیاسی جماعت نے اپنا اپنا بیانیہ پیش کیا اُور پاکستانیوں کی اکثریت نے تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے پیش کردہ بیانیئے کے حق میں اپنا ووٹ دیا۔ پاکستان تحریک انصاف ایک حقیقی قیادت اور قومی سیاسی جماعت کے طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہے‘ جس نے 45 سال سے جاری مسلم لیگ اور پیپلزپارٹی کے درمیان اقتدار کی ایک دوسرے کو منتقلی کے عمل کو روک دیا ہے۔ سیاسی و انتخابی طور پر تحریک انصاف نے بھلے ہی بہت بڑی کامیابی حاصل کر لی ہے لیکن اب وقت کارکردگی دکھانے کا ہے اور اب وقت عوام کی توقعات پر پورا اُترنے کا ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)

2 comments:

  1. History is being re-written. For the first time in Pakistan’s electoral history, a non-dynastic political party will form the government. For the first time in three decades, a political party has won in all four provinces and the Islamabad Capital Territory. For the new PM it will be a crown of thorns; it will be like walking on burning coals. Here are the major challenges he will have to face.

    $18 billion: Never in Pakistan’s history have we had an $18 billion current account deficit (CAD). What this means is that we are losing $1.5 billion a month. This year’s CAD is 45 percent higher than last year’s. Yes, a mere two years ago our CAD was $4.9 billion. This indeed will be the single biggest challenge for the new PM.

    Our rupee is in free fall and exporters are holding back billions of dollars of receipts. We need to import petroleum products, machinery, LNG, coal, cooking oil and pulses. There is a real potential of a serious nation-wide fuel crisis with long queues at petrol pumps.

    Yes, there are solutions, but the cure can be worse than the disease: more devaluation, further increase in the rate of interest, capital controls, additional import curtailment measures, incentives to exporters and recovery of stolen assets.

    Rs4 trillion: The new government will have to rollover Rs4 trillion worth of T-bills (read: outstanding rupee debt) over the following three to four months. That will be a big challenge.

    Rs2.2 trillion: Never in Pakistan’s history have we had a Rs2.2 trillion budgetary deficit. Yes, there are solutions, but the cure can be worse than the disease: development expenditures will have to be cut drastically, the government will have to tighten its belt and the National Finance Commission Award – that allocates financial resources to the provinces – might have to be abandoned.

    Rs1.1 trillion: The circular debt has hit the fan on the roof – and has the potential of bringing down the entire financial system with it. Imagine, we produce around $12 billion worth of electricity a year, of which $4 billion is stolen or lost. Imagine, we also lose Rs200 billion worth of natural gas per annum to what is euphemistically referred to as ‘unaccounted-for-gas’.

    ReplyDelete
  2. The electricity tariff is bound to go up. Will the new PM be able to stop the tariff from going up? Expensive gas has shut down a couple of hundred textile mills in Punjab. What will the new PM do about it? For the new PM, there is absolutely no way out but to reform the entire energy sector – and that too on a war-footing.

    Rs1.1 trillion: In 2017, a total of 190 Public Sector Enterprises lost Rs1.1 trillion. The accumulated loss over the past five years stands at a colossal Rs3.7 trillion. Imagine, each and every Pakistani family has lost Rs125,000 over the past five years.

    Rs464 billion: This is a circular debt of another kind – debt created by the provincial food departments and other procurement agencies. What I heard from the State Bank of Pakistan (SBP) a couple of years ago was that the outstanding loans of commodity operations had surged to Rs464.2 billion.

    These losses must be plugged. The only thing needed is political will. It is about re-positioning the assets our government owns. It is about re-organising the assets our government owns. All that is lacking is political will.

    The new PM is up against a Rs12 trillion challenge. To be certain, this was a narrative-based election. And Pakistanis have wholeheartedly bought PM-to-be Imran Khan’s narrative. The PTI has emerged as a genuine national party. The 45-year duopoly of the PML-N and the PPP has been broken. It is now time to deliver.

    ReplyDelete