100 Days
سو دن
پاکستان تحریک انصاف حکومت کے ’ابتدائی 100 دن‘ کا جائزہ لینے کے لئے 2 امور لائق توجہ ہیں۔ 1: کیا وفاقی حکومت نے ایسی حکمت عملیاں وضع کیں‘ جن سے حسب ضرورت پائیدار ترقی کے اہداف حاصل ہوں اُور 2: کیا وضع کردہ حکمت عملیوں پر عمل درآمد جاری ہے؟
یہ بات وثوق سے کہی جا سکتی ہے کہ کسی بھی حکمت عملی پر عمل درآمد کا آغاز تو فوری طور پر ہو سکتا ہے لیکن اُس سے نتائج حاصل ہونے میں وقت لگتا ہے۔ مذکورہ ’100 دن‘ کے دوران جن شعبوں سے متعلق حکمت عملیاں وضع کی گئیں اُن میں اقتصادیات‘ صحت‘ تعلیم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی پر مبنی ڈیجیٹل طرزحکمرانی ہے۔ اگر اِن چاروں شعبوں میں کئے گئے فیصلوں کا نظر کی جائے تو اِن کا انتخاب جامع ہونے کے ساتھ اُن زمینی حقائق کو ظاہر کرتا ہے‘ جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے حکومت کی باقی ماندہ آئینی مدت کے لئے ’قومی ترجیحات‘ کا تعین کیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی اقتصادی حکمت عملی تین ستونوں پر کھڑی ہے۔ برآمدات۔ سرمایہ کاری اور ترسیلات زر۔ حکومت اِن تینوں شعبوں میں غیرمعمولی بہتری چاہتی ہے۔ برآمدات کے شعبے کی اگر بات کی جائے تو پاکستان کی 71 سالہ اقتصادی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ دیکھا گیا کہ تجارتی خسارہ 38 ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ یہ بات بھی پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہی دیکھنے میں آئی کہ ہماری برآمدات مسلسل چار سال تک زوال پذیر رہیں اُور پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں یہ بھی پہلی ہی مرتبہ دیکھنے کو ملا کہ ’جاری اخراجات (کرنٹ اکاونٹ)‘ کا خسارہ 18 ارب ڈالر جیسی غیرمعمولی بلند سطح کو عبور کر گیا ہو۔
ماہ ستمبر (دوہزار اٹھارہ) کی بات ہے جب وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر نے پانچ ایسے صنعتی شعبوں کی نشاندہی کی تھی‘ جن پر توجہ دے کر پاکستان اپنی برآمدات میں خاطرخواہ اضافہ کر سکتا ہے۔ اِن میں پارچہ بافی (ٹیکسٹائل)‘ قالین سازی (کارپٹ)‘ چمڑے کی صنعت (لیدر)‘ کھیلوں کا سامان (سپورٹس گڈز) اُور طبی جراحت (سرجری) میں استعمال ہونے والے ’میڈیکل آلات‘ بنانے والی صنعتیں شامل ہیں۔ ماہ ستمبر ہی میں ’اقتصادی رابطہ کمیٹی‘ نے صنعتوں کے لئے گیس کی قیمت میں 44 ارب روپے کی رعائت (سبسڈی) دینے کا اعلان کیا۔ اگر ہم ٹیکسٹائل سیکٹر کی بات کریں تو پاکستان کی 60فیصد برآمدات کا تعلق اِسی صنعتی شعبے سے ہے۔ ’اقتصادی رابطہ کمیٹی‘ کے مذکورہ اجلاس میں 82 اشیاء کی قیمتوں پر درآمدی ڈیوٹی (محصولات) کم کئے گئے اور اِن دونوں اقدامات سے صنعتوں کی پیداواری لاگت میں کمی آئے گی۔ اِن حکومتی اقدامات کے جواب میں ’آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن (ایپٹما)‘ نے اعلان کیا ہے کہ آئندہ 5 برس میں برآمدات دوگنا بڑھ جائیں گی جو فی الوقت سالانہ 13 ارب ڈالر کے مساوی ہیں۔ صنعتوں کا پہیہ تیزرفتاری سے چلنے کی وجہ سے ملازمتوں کے مواقع بھی بڑھیں گے اور اندازہ ہے کہ صرف فیصل آباد و ملتان کے شہروں میں پانچ لاکھ ملازمتیں پیدا ہوں گی۔ ظاہر سی بات ہے کہ گیس کی قیمت میں رعایت دینا ’برآمدات‘ بڑھانے کا پائیدار حل نہیں‘ اِس لئے زیادہ سوچ بچار کی بہرحال ضرورت اپنی جگہ موجود ہے۔
سرمایہ کاری کے شعبے میں اصلاحات کے تین بنیادی نکات ہیں۔ 1: ایسی سرمایہ کاری کی جائے جس کے ساتھ قرض کا بوجھ نہ ہو۔ 2: پاکستان میں کاروبار کرنے کے مواقعوں اور ماحول کو بہتر بنایا جائے تاکہ سرمایہ کار بناء تحفظات پاکستان کا رخ کریں اُور 3: خام پیداواری لاگت میں کمی لائے جائے۔ ایکزن موبل (ExxonMobil) نامی کمپنی جو کہ دنیا میں اپنی آمدن کے لحاظ سے 9ویں بڑی کمپنی ہے 27 برس بعد پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے آ رہی ہے۔ سوزوکی موٹر گلوبل کے چیئرمین اوسمو سوزوکی (Osamu Suzuki) پاکستان میں 45 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کا سوچ رہے ہیں۔ کوکا کولا (ترکی) پاکستان میں 20 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے کی منصوبہ بندی کئے ہوئے ہیں۔ یہ سب سرمایہ کاری کے مثبت اشارے ہیں۔
ابوظہبی نیشنل آئل کمپنی کی سالانہ آمدنی 60 ارب ڈالر ہے۔ اِس ادارے کے سربراہ ڈاکٹر سلطان احمد الجبار نے اکتوبر (دوہزاراٹھارہ) میں پاکستان کے دورے پر آئے اور یہاں سرمایہ کاری کے امکانات کا جائزہ لیا۔ اِسی طرح ابوظہبی انویسٹمنٹ اتھارٹی جس کے اثاثوں کی قیمت 828 ارب ڈالر ہے نے بھی پاکستانی مارکیٹ میں سرمایہ کاری کرنے میں دلچسپی کا اظہار کیا ہے۔ اِن سبھی سرمایہ کاروں کی پاکستان میں دلچسپی اپنی جگہ لیکن یہ بات وقت ہی ثابت کرے گا کہ عملی طور پر کتنی سرمایہ کاری پاکستان آتی ہے۔
بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ’ترسیلات زر میں اضافہ‘ موجودہ حکومت کو مقصود ہے۔ پاکستانی ورکر قریب 20ڈالر سالانہ بینکوں کے ذریعے پاکستان بھیجتے ہیں۔ عالمی ادارہ برائے مائیگریشن (آئی اُو ایم) کے مطابق اِس قانونی ذریعے کے علاؤہ سالانہ 20 ارب ڈالر سے زیادہ سرمایہ دیگر (بینکاری کے علاؤہ) ذرائع سے بھی پاکستان آتا ہے۔ حکومت بینکاری کے علاؤہ دیگر ذرائع سے ہونے والی ترسیلات زر کو قانونی بنانے کے لئے کوششیں کر رہی ہے جن میں ابھی تک کوئی خاص کامیابی تو حاصل نہیں ہوئی‘ جس کی دو وجوہات ہیں۔ بینکاری کے بغیر سرمائے کی ترسیل کرنے والے اپنی خدمات کا معاوضہ بینکوں کے مقابلے خاصہ کم وصول کرتے ہیں اور دوسرا اُن کے ذریعے سرمائے کی زیادہ تیزرفتار ہوتی ہے‘ جن سے ناخواندہ شخص بھی باآسانی فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
غیرقانونی ذرائع سے سرمائے کی نقل و حمل (منی لانڈرنگ) روکنے کے لئے حکومتی کوششوں کا خلاصہ یہ ہے کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی 43 سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایسا ہو رہا ہے کہ یہ ادارہ ’منی لانڈرنگ‘ کے معاملات کو سامنے لا رہا ہے۔ 12 نومبر (دوہزاراٹھارہ) کے روز وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے احتساب‘ شہزاد اکبر نے اعلان کیا کہ ۔۔۔ ’’10 ممالک کو ہوئی 700 ارب ڈالر کی ’منی لانڈرنگ‘ کا سراغ لگایا گیا ہے۔‘‘ شہزاد اکبر نے یہ بھی کہا کہ ’’منی لانڈرنگ اور پاکستان کے مالیاتی قوانین کو خاطر میں نہ لانے والے ’بڑے مگرمچھوں (قانون شکنوں)‘ شکنجے میں لانے کے عمل کا آغاز کر دیا گیا ہے۔‘‘
عمومی جائزے (سروے) سے یہ تشویشناک بات سامنے آئی ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے آنے کے بعد سے اسلام آباد میں کاروباری سرگرمیوں میں 30 فیصد کمی آئی ہے۔ ڈالر اور روپے کی قدر میں فرق کاروبار کے لئے خوش آئند نہیں ہوگا۔ اِس سلسلے میں مرکزی مالیاتی ادارہ (اسٹیٹ بینک آف پاکستان) خاطرخواہ اقدامات کر رہا ہے لیکن ظاہر ہے کہ اِن اقدامات اور اصلاحاتی کوششوں کے نتائج برآمد ہونے میں وقت لگے گا۔ بہتری کی گنجائش ہمیشہ موجود رہتی ہے۔ خوش آئند ہے کہ حکومت کی اُن تمام شعبوں پر نظر ہے‘ جن میں اصلاح و بہتری کے ذریعے قومی ترقی کو پائیدار اور اِس میں اضافہ کیا جا سکتا ہے۔
(مضمون نگار وزیراعظم کے مشیر ہیں۔ بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
100 days
ReplyDeleteA 100-day analysis means two things: Are there policy initiatives in place? How is implementation proceeding? To be certain, policy outcomes will take time. The four policy initiatives that I have studied in detail are: economic, health, education and digital. All the four policy initiatives are quite comprehensive and stand on solid grounds. The PTI’s economic policy stands on three pillars: exports, investments and remittances.
Exports: For the first time in our 71-year chequered financial history, our trade deficit crossed $38 billion. For the first time in our 71-year chequered financial history, our exports declined for four consecutive years. For the first time in our 71-year chequered financial history, our current account deficit crossed $18 billion.
In September, Finance Minister Asad Umar identified five export-sector industries: textile, carpets, leather, sporting goods and surgical goods. The same month, the Economic Coordination Committee (ECC) approved a subsidy worth Rs44 billion on gas tariffs for the five export-sector industries. The textile sector – 60 percent of our exports – was also given a reduction in regulatory duty on 82 import items.
In return, the All Pakistan Textile Mills Association (APTMA) is projecting a doubling of their exports in the next five years (with current exports worth around $13 billion). Plus, the government’s move is expected to bring back around 500,000 jobs (in Faisalabad and Multan). Admittedly, a gas subsidy for the export sector is not a sustainable solution; making it globally competitive is. So, a lot more needs to be done.
Investments: The focus here is on three things – non-debt-creating investments; ease of doing business in Pakistan; and lowering the cost of inputs. ExxonMobil (revenue: $237 billion in 2017), the world’s ninth largest company by revenue, is re-opening its office in Pakistan after a 27-year absence. Suzuki Motors Global Chairman Osamu Suzuki is considering a $450 million expansion in Pakistan. Coca Cola (Turkey) plans to invest $200 million.
ReplyDeleteIn October, Dr Sultan Ahmed Al Jaber, head of the Abu Dhabi National Oil Company (Revenue: $60 billion), was in Pakistan evaluating investment opportunities. In addition, the Abu Dhabi Investment Authority (Assets: $828 billion) has also shown interest. Question: how much of this would actually materialise? Answer: Only time will tell.
Remittances: Pakistani workers aboard send back around $20 billion a year through banking channels. According to the International Organization for Migration (IOM), an amount of more than $20 billion arrives in Pakistan through non-banking channels. In an attempt to divert additional billions through banking channels, the government is going all out to identify feasible alternatives. Admittedly, none has so far been identified. This indeed is a tough one because the government is competing head-on with the speed and superior rates of hundi and hawala dealers.
On the anti-money laundering front, for the first time in the FIA’s 43-year history the agency has unearthed the biggest money laundering scam, not just in the history of Pakistan but in the history of this region. On November 12, Special Assistant to the PM on Accountability Shahzad Akbar announced that the details of money laundering worth Rs700 billion have been traced in 10 countries. Shahzad Akbar also declared that the process to freeze the accounts of big crocodiles has been started.
Alarmingly, based on a random survey, business activity in Islamabad has slowed down by around 30 percent. To be certain, the high volatility in the rupee-dollar parity is bad for business. The State Bank of Pakistan must establish mechanisms to preempt any such incidence. Yes, sector-wise policy initiatives are in place, implementation is in process and policy outcomes will take time. Yes, there is no room for complacency and a lot more needs to be done.