Performance check
کارکردگی پر نظر!
یادش بخیر‘ سال 2001ء میں برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر (Tony Blair) نے اپنی انتخابی مہم کے سلسلے میں عوام سے 4 وعدے کئے جو تعلیم‘ صحت‘ ٹرانسپورٹ سہولیات میں اضافے اُور جرائم میں خاتمے سے متعلق تھے۔ جب ’ٹونی بلیئر‘ مذکورہ انتخابات میں کامیاب ہوئے تو اُنہوں نے اِن وعدوں کی تکمیل کے لئے ’پرائم منسٹر ڈیلیوری یونٹ (PMDU)‘ کے نام سے ایک محکمہ قائم کیا۔
سال 2009ء میں ملائشیا (Malaysia) حکومت نے اپنے فیصلوں پر عمل درآمد کا جائزہ اور بروقت تکمیل کے لئے ’پرفارمنس مینجمنٹ اینڈ ڈیلیوری یونٹ (PEMANDU)‘ نامی محکمے کے تحت 2 حکمت عملیاں ترتیب دیں۔ پہلی حکمت عملی کا نام ’گورنمنٹ ٹرانسفورمیشن پروگرام (GTP)‘ اُور دوسری حکمت عملی کو ’اکنامک ٹرانسفورمیشن پروگرام (ETP)‘ کا نام دیا گیا۔
سیاسی حکومتوں کی مجبوری یہ ہوتی ہے کہ اُنہیں آئین میں معین وقت کے لئے منتخب کیا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ اُن کے پاس کارکردگی دکھانے کے لئے وقت اور مہلت اُتنی ہی ہوتی ہے‘ جو ایک عام انتخاب سے دوسرے انتخاب تک کی ہو جبکہ انتخابات سے قبل کئے گئے وعدے کرتے ہوئے حکومت کی آئینی مدت اور درپیش قومی مالی و اقتصادی مشکلات کو باوجود نظر میں رکھنے کے بھی نظرانداز کر دیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں کہیں حکومتیں اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں ناکام ہوتی ہیں تو اُس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہوتی ہے کہ اُنہوں نے مالی وسائل اور حکومتی اداروں کی کمزور کارکردگی سے متعلق زمینی حقائق کی اصلاح کے لئے وقت مختص نہیں کر رکھا ہوتا اور یہ دونوں امور یعنی مالی وسائل کا بندوبست کرنا اُور سرکاری اداروں کی کارکردگی کو اُس بلند مقام تک پہنچانا کہ جہاں کم سے کم وسائل اور وقت میں زیادہ سے زیادہ کارکردگی کے اہداف حاصل کئے جا سکیں لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پاتا۔ اِس سلسلے میں صرف پاکستان ہی کی مثال نہیں پیش کی جا سکتی کہ یہاں بے انتہاء سیاسی مداخلت اور بدعنوانی کے باعث قومی اداروں کی کارکردگی شدید متاثر دکھائی دیتی ہے بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی کسی ایک سیاسی جماعت کے بعد دوسری سیاسی جماعت کو جب کبھی بھی حکومت کا موقع ملتا ہے‘ تو اُسے اپنے انتخابی وعدوں کی تکمیل میں بہرحال مشکلات اور رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کی مثال لیں تو ہم دنیا سے زیادہ مختلف نہیں۔ قومی سطح پر وسائل کی کمی بھی نہیں لیکن اِس کے باوجود ترقی کے اہداف حاصل کرنے میں مشکلات درپیش ہیں۔
کسی حکومت کے لئے اپنے وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے نگرانی کا عمل بنانا پڑتا ہے‘ جس کے تین بنیادی اہداف ہوتے ہیں۔ 1: عوام کو فراہم کی جانے والی بنیادی و ضروری سہولیات کا معیار اور مقدار میں خاطرخواہ اضافہ کیا جا سکے۔ 2: عوام کے رہن سہن کے معیار کو بہتر بنایا جائے اُور 3: ایسے کاروباری و معاشی حالات پیدا کئے جائیں جس میں ہر خاص و عام کی قوت خرید یعنی آمدنی میں اضافہ ہو یعنی سرمایہ کمانے کے مواقع بڑھائے جا سکیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ حکومت کے سامنے کسی بھی پالیسی کو تخلیق کرنے کے لئے دو پہلو سب سے زیادہ اہم ہوتے ہیں۔ ایک تو پالیسیوں کے نتائج حاصل ہوں اور دوسرا اُن کے ذریعے صرف حکومت کی فراہم کردہ خدمات و سہولیات کا معیار ہی بہتر نہ ہو بلکہ اِن خدمات کی مقدار میں بھی اضافہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کے تناظر میں ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ ہر وزارت کی سطح پر کارکردگی کے معیار اُور اِس سے حاصل ہونے والے نتائج پر مسلسل نظر رکھتے ہوئے نگرانی کا شفاف طریقۂ کار وضع کیا جائے کیونکہ جب تک ہر فیصلے پر عمل درآمد کی رفتار مسلسل نہیں رکھی جائے گی‘ اُس وقت تک ہر قسم کی رکاوٹیں اور مخالفتیں حکومتی کارکردگی کو متاثر کرتی رہیں گی جبکہ کسی سیاسی حکومت کے لئے یکساں اہم ہوتا ہے کہ وہ عوام کی توقعات پر پورا اُترے اُور عوام کی زندگیوں میں بہتری (آسانیاں) پیدا کرنے کے وعدوں کو عملی جامہ پہنائے۔
انتخابی کامیابی کے بعد کارکردگی کے محاذ پر کامیاب ہونے ہی سے سرخروئی و کامرانی ملتی ہے۔
اگر ہم وزارت خزانہ کی بات کریں تو اِس کے فیصلہ سازوں کو ’3 طرح کے اَہداف‘ اپنے لئے مقرر کرنا ہوں گے جس سے 1: آمدن و اخراجات میں عدم توازن ختم ہو۔ 2: مالی خسارہ کم ہو اُور 3: قومی قرض میں کمی ہو۔ اِسی طرح توانائی کی وزارت کو اپنے لئے کارکردگی کے اہداف مقرر کرتے ہوئے بجلی کی چوری‘ ترسیلی نظام میں موجود خرابیوں کا خاتمہ‘ بقایا جات کی وصولی اُور گردشی قرض ختم کرنے کے بارے سوچ بچار کرنی چاہئے۔ ریلویز کی وزارت کو سفر کرنے والے مسافروں کے اعدادوشمار کو سامنے رکھتے ہوئے سفری سہولیات میں کمی بیشی پر قابو پانا‘ ریل گاڑیوں کے ذریعے مال برداری میں اضافہ اور اپنی مجموعی آمدنی میں اضافے کے لئے اقدامات کو بطور ترجیحات پیش نظررکھنا چاہئے۔
’’وزراء کی کارکردگی کا پیمانہ‘‘ پہلی مرتبہ 1970ء کی دہائی کے آخر میں سامنے آیا تھا لیکن یہ پاکستان میں نہیں تھا۔ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ دستیاب وسائل اور وقت کا بہترین استعمال کرتے ہوئے ہر وزیر اپنے محکمے کے لئے ترجیحات و اہداف کا تعین کر کے کارکردگی پر مسلسل نظر رکھے اور اِس کارکردگی سے وقتاً فوقتاً قومی اسمبلی اور عوام کو بذریعہ ذرائع ابلاغ آگاہ بھی کرتا رہے تاکہ وقت اور حالات گواہ رہیں کہ کس طرح ایک سیاسی حکومت نے مالی و کارکردگی سے متعلق امور میں شفافیت برقرار رکھی اور کس طرح خود کو عوام کے سامنے جوابدہ سمجھا۔ جمہوریت کا قطعی مطلب یہ نہیں کہ کامیاب ہونے والی سیاسی جماعت ایک انتخاب سے دوسرے انتخاب تک کسی کے سامنے جوابدہ نہ ہو بلکہ جمہوریت کا حسن یہ ہے کہ اِس طرزحکمرانی میں ہر منتخب عوامی نمائندہ ہر لمحہ خود کو احتساب کے لئے پیش رکھتا ہے اور اقوام عالم کی تاریخ گواہ ہے کہ ترقی نظم و ضبط کے تابع حکمرانوں کے ذریعے حاصل ہوئی‘ جنہوں نے خود کو ہر جوابدہ سمجھا اور اپنے کارکردگی پر وقت اور عوام کو گواہ بنائے رکھا۔
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ تلخیص و ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)
In 2001, British PM Tony Blair made four campaign promises: education, health, crime and transport. After winning the election, Tony Blair created the Prime Minister’s Delivery Unit (PMDU) to monitor progress on the four key campaign promises.
ReplyDeleteIn 2009, the Malaysian government established the Performance Management & Delivery Unit (PEMANDU) to undertake two programmes: the Government Transformation Program (GTP) and the Economic Transformation Program (ETP).
PMDU and PEMANDU were both dependent on key performance indicators or KPIs. Ministerial KPIs ‘evaluate the success of a ministry or a particular activity within the ministry’. Ministerial performance measurement is the “process of quantifying the efficiency and effectiveness of past [ministerial] actions.” In other words, ministerial performance measurement ‘estimates the parameters under which ministerial actions are reaching the targeted results.’
Ministerial KPI management is a scientific undertaking. To begin with, KPIs “serve two purposes: communicate what is important and what the expected level of performance is.” Remember: there are three goals: improving delivery of essential public services, raising the standard of living of citizens and wealth creation.
The first step is to come up with the right ministerial KPIs – both qualitative and quantitative. Remember: ‘what gets measured gets done’. Ministerial performance measurement is both an art and a science. For every ministry we need to develop an ‘explicit set of goals’ followed by a specific strategy to measure performance.
ReplyDeleteThe Ministry of Finance, for instance, should have an ‘explicit set of goals’ that could include the current account deficit (CAD), the fiscal deficit and national debt. The Ministry of Energy’s ‘explicit set of goals’ could include line losses, recovery percentage and circular debt. The Ministry of Railways should be measuring the number of passengers carried, freight carried and gross earnings/losses.
The mission statement of the Ministry of Finance in Singapore states: “To create a better Singapore through Finance.” The vision statement is: “A forward looking Ministry of Finance that advances leading ideas, drives synergies across government and ensures fiscal prudence.
All the ministries should set a five-year target with quarterly, biannual and annual performance benchmarks. Once again, ‘what gets measured gets done’. The performance monitoring system, including the performance measures and the data supporting them, should be evaluated periodically.
Imagine: ministerial performance measurement was first introduced back in the late 1970s (not in Pakistan). Will our ministers be required to submit to KPIs? Will there be regular ministerial KPI reports to parliament? Pakistani voters must be provided with material so that they can judge how seriously our ministers take their ‘actual jobs versus their political careers’.
Yes, we need performance-based leadership. Our ministers “should be required to articulate their goals for their portfolios and report publicly and formally on their progress…explaining to us [Pakistanis]…the relationship between what they said they would do and what they actually did.”
The writer is the government’s spokesperson on economy and energy issues.
ReplyDelete