Out of control
آمدن و اخراجات: عدم توازن!
آغاز بیان ’منی بجٹ‘ سے کرتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے برآمد کنندگان کے لئے کچھ غیرمعمولی اور منفرد مراعات کا اعلان کیا ہے جس میں چند ایسے خام مال کی درآمدی ڈیوٹی بھی کم کی گئی ہے‘ جو برآمدی اشیاء کی تیاری کے لئے زیادہ تر استعمال ہوتے ہیں۔ اِسی طرح چھوٹی و درمیانی صنعتوں‘ زرعی شعبے اُور کم آمدنی والے ہاؤسنگ سیکٹر کے لئے بھی براہ راست مراعات کا اعلان کیا گیا ہے جس میں ٹیکس سے رعایت بھی شامل ہے۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ وزیرخزانہ نے چند بہت ہی منفرد اور حسب حال ضروری اقدامات کئے ہیں جن سے زبوں حال اقتصادیات اور کاروبار کو فائدہ ہوگا۔ ضمنی بجٹ کے ذریعے تین اہداف بیک وقت حاصل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ قومی بچت میں اضافہ‘ سرمایہ کاری اور آسائش سے متعلقہ اشیاء کی درآمدات کی حوصلہ شکنی۔ برآمدکنندگان کو شکایت رہتی ہے کہ حکومت اُن کے بقایا جات بروقت ادا نہیں کرتی۔ اِس دیرینہ مطالبے (ریفنڈ کے معاملے) کو حل کرنے پر بطور خاص توجہ دی گئی ہے‘ جو کہ خوش آئند ہے۔
اب آتے ہیں کچھ دیگر مسائل کی جانب۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے اخراجات ناقابل یقین حد تک زیادہ ہیں اُور یہ ضبط (کنٹرول) میں نہیں آ رہے جبکہ دوسری طرف حکومت کی آمدنی بھی کم ہو رہی ہے جو کہ گذشتہ 6 ماہ کے دوران 170 ارب روپے سے زائد کی کمی ہے۔ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ پاکستان کے ذمے واجب الادأ قرضہ جات پر سود کی اقساط 2000 ارب روپے تک جا پہنچی ہیں جبکہ مالی سال کے پیش کردہ بجٹ میں اِس کا حجم 1620 ارب روپے تھا۔ پاکستان کی اقتصادی تاریخ میں ایسا بھی پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ وفاقی حکومت اسٹیٹ بینک سے 6.6 کھرب روپے قرض لے چکی ہے‘ جو کہ ایک غیرمعمولی طور پر بڑی رقم ہے۔
اعدادوشمار کی حد تک مہنگائی کی شرح 6.17 فیصد ہے لیکن یہ اعدادوشمار ’ادارۂ شماریات‘ کی ملکیت ہیں جو کہ اپنے تیئں مہنگائی پر قابو پانے میں کامیاب رہی ہے لیکن برسرزمین حقیقت یہ ہے کہ مہنگائی کی شرح میں غیرمعمولی رفتار سے اضافہ ہو رہا ہے اور یہ (مہنگائی) بھی ضبط (کنٹرول) میں نہیں آ رہی ہے۔ حکومت کی آمدنی اور حکومت کے اخراجات کے درمیان توازن نہیں۔ عدم توازن کی یہ صورتحال بھی ضبط (کنٹرول) میں نہیں آ رہی ہے۔ بجٹ کا خسارہ چھ فیصد بتایا جاتا ہے لیکن اِس خسارے میں گردشی قرضہ‘ سرکاری اداروں کی ناقص کارکردگی سے ہونے والا جاری خسارہ‘ حکومتی اخراجات کا بوجھ اُور بجلی و گیس کے شعبوں میں ہونے والے خسارے شامل نہیں‘ جنہیں اگر بجٹ خسارے میں شمار کیا جائے تو یہ خسارہ ملک کی موجودہ کل آمدنی کے 10فیصد تک پہنچ جائے گا۔
قرض کا چکر اُس صورتحال کو کہا جاتا ہے جس میں قرض کی اقساط اور اُس پر سود ادا کرنے کے لئے قرض لیا جاتا ہے۔ سال 2008ء سے 2013ء تک پاکستان پیپلزپارٹی حکومت نے 5 ارب روپے یومیہ کے حساب سے قرض لیا۔ یہ پانچ ارب روپے یومیہ پانچ سال تک ہر روز لئے جاتے رہے۔ سال2013 ء سے 2018ء تک پاکستان مسلم لیگ نواز کی حکومت نے 7.7 ارب روپے یومیہ کے حساب سے قرض لیا اور یہ سات اعشاریہ سات ارب روپے پانچ سال (حکومت کی آئینی مدت ختم ہونے تک) تک ہر روز لئے جاتے رہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد پہلے پانچ ماہ کے دوران 15 ارب روپے یومیہ کے حساب سے قرض لیا ہے یعنی پانچ ماہ کے ہر دن پندرہ ارب روپے لئے گئے ہیں۔ رواں سال پاکستان کی تاخیر میں ایسا پہلا اقتصادی عرصہ ہوگا جس میں حکومت کو ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی نصف آمدنی (کل آمدنی کا پچاس فیصد) قرضہ جات کی ادائیگی کی مد میں خرچ ہو جائے گی۔
حرف آخر یہ ہے کہ قومی پیداوار میں اضافہ سست رفتار یعنی 2 فیصد ہے یعنی 700 ارب روپے کا نقصان ہو رہا ہے۔ جلد یا بدیر وزارت خزانہ کو ایسے اقدامات کرنا پڑیں گے جن کی وجہ سے حکومت کی آمدن و اخراجات کے درمیان ’’800 ارب روپے‘‘ کا عدم توازن پورا کرنے کی سعی کی جائے۔ حکومت کے ناقابل کنٹرول اخراجات کی وجہ سے بہت جلد ہر پاکستانی خاندان کو اضافی 30 ہزار روپے کا بوجھ برداشت کرنا پڑے گا کیونکہ حکومت کی آمدنی کم ہے اُور اِس کے اخراجات زیادہ ہیں۔
آمدنی بڑھانے کے ساتھ حکومت کو اُن تمام خرابیوں کو بھی دور کرنا ہے‘ جن کی وجہ سے اخراجات اور سرکاری اداروں کا خسارہ کم نہیں ہو رہے۔ ہمارے سرکاری ادارے سالانہ 1100 ارب روپے کا خسارہ کرتے ہیں۔ 2 ارب روپے یومیہ کے حساب سے بجلی کا خسارہ ہے۔ 150 ارب روپے سالانہ کے حساب سے گیس شعبے کا خسارے ہے اُور 624 ارب روپے کا بوجھ مختلف حکومتی اداروں کو فعال رکھنے کے لئے سرکاری خزانے پر مسلط ہے۔
اگر کسی مریض کو سرطان (کینسر) جیسا پیچیدہ اُور معلوم مرض لاحق ہو تو کیا اُس کا علاج گھریلو ٹوٹکوں یا درد رفع کرنے والی عمومی دوا ’پیناڈول (panadol)‘ سے کیا جاتا ہے؟
اگر کسی مریض کو سرطان (کینسر) جیسا پیچیدہ اُور معلوم مرض لاحق ہو تو کیا اُس کا علاج گھریلو ٹوٹکوں یا درد رفع کرنے والی عمومی دوا ’پیناڈول (panadol)‘ سے کیا جاتا ہے؟
(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)
Let’s begin with the mini-budget. Our minister for finance has come up with some innovative incentives for the export sector whereby there will be duty concessions on a list of imported raw materials used by our export-oriented industries. Then there is this creative use of tax incentives to direct additional credit towards three important sectors of the economy: small and medium-sized enterprises (SMEs), the agricultural sector, and the low-income housing sector.
ReplyDeleteYes, the minister for finance has made some smart moves in trying to revive the falling business sentiment. The supplementary finance bill has also suggested measures that will encourage savings, investments and, at the same time, compress the demand for imported luxury items. The extra-long delay in refunds had sucked out working capital from many exporters and this is the first government to come up with a promissory note-based plan to pump some oxygen back into exporters.
Now on to some macro issues. Alarmingly, government expenditures are completely out of control. And, over the past six months, revenue shortfall is in excess of Rs170 billion. For the first time in our financial history, interest payments on the accumulated public debt are going to hit Rs2,000 billion as opposed to the budgeted Rs1,620 billion. For the first time in our financial history, the federal government’s borrowing from the State Bank of Pakistan (SBP) hit a high of Rs6.6 trillion. The macroeconomy is gradually spinning out of control.
Yes, the official rate of inflation at 6.17 percent is entirely in the control of the Pakistan Bureau of Statistics (PBS), but the real prices on the ground are out of control. The budgetary deficit, the root of most financial evil, is also out of control. According to Fitch, one of the “big three credit-rating agencies”, our budget deficit is six percent of GDP – that may be so without including the circular debt, the losses to public-sector enterprises (PSDs), the government’s commodity operations and losses in the gas sector. Alarmingly, if we include the circular debt, the losses to public-sector enterprises (PSDs), the government’s commodity operations and the losses in the gas sector, our budget deficit will hit 10 percent of GDP
ReplyDeleteA debt trap is a “situation in which a borrower is led into a cycle of re-borrowing, or rolling over, their loan payments because they are unable to afford the scheduled payments”. From 2008 to 2013, the PPP government borrowed an average of Rs5 billion a day every day for five years. From 2013 to 2018, the PML-N government borrowed an average of Rs7.7 billion a day every day for five years.
Alarmingly, over the past five months, the PTI government has been borrowing an average Rs15 billion a day every day for the past five months. Red alert: This year could become the first year in our financial history where we may be forced to pay 50 percent of all FBR taxes collected to debtors for debt-servicing.
The bottom line is that GDP growth is going to slow down by two percentage points, which means a loss of Rs700 billion. Sooner rather than later, the Ministry of Finance will be forced to bridge a gap worth Rs800 billion resulting from its out-of-control expenditure stream and the serious shortfall in its revenue stream. Sooner rather than later, every Pakistani family will have to suffer an additional burden of Rs30,000 because of the government’s out-of-control expenditure stream and the serious shortfall in its revenue stream.
To be certain, multi-billion rupee leakages in public procurement aren’t being plugged. This includes a gap worth Rs1,100 billion per year in public-sector enterprises, Rs2 billion per day in the electricity sector, Rs150 billion per year in the gas sector, and a burden of Rs624 billion in the commodity operation sector. Can cancer be treated with Panadol?