Sunday, February 10, 2019

TRANSLATION: Room for reforms by Dr. Farrukh Saleem

Room for reforms
اِصلاحات کی گنجائش!
گیس قیمتوں میں اضافے سے پریشان حال عوام کو جاننا چاہئے کہ پاکستان میں ہر روز (یومیہ) ایک ارب کیوبک فٹ گیس چوری ہو رہی ہے۔ گیس کے پیداواری‘ درآمدی‘ نگران اُور تقسیم کار شعبوں کی فیصلہ سازی اور کارکردگی ’افسرشاہی (بیوروکریٹس)‘ کے ہاتھ میں ہیں‘ جنہوں نے چوری ہونے والی گیس کا خسارہ گیس صارفین کو منتقل کر رکھا ہے حالانکہ اِس میں گیس بل باقاعدگی سے ادا کرنے والے صارفین کا کوئی قصور نہیں۔ حکومتی ادارے تمام تر افرادی و تکنیکی وسائل اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی موجودگی میں بھی اگر ’گیس چوری کرنے والوں‘ کا سراغ لگانے اور اُنہیں انجام تک پہنچانے میں ناکام ہیں تو اِس کی سزا گیس صارفین کو کیوں دی جا رہی ہے؟

گذشتہ چند ماہ کے دوران ’افسرشاہی‘ پر یہ راز آشکارہ ہو چکا ہے کہ اُن کے سیاسی فیصلہ ساز تکنیکی معاملات کی خاطرخواہ سمجھ بوجھ نہیں رکھتے اور یہی وجہ تھی کہ اُنہوں نے ایک گیس نرخوں میں اضافے کے لئے طریقہ کار (فارمولہ) وضع کیا‘ جسے اقتصادی تعاون کونسل (اکنامک کوآرڈی نیشن کونسل) کے اجلاس میں من و عن منظور کر لیا گیا اور اِسی کی وجہ سے گیس کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں۔ حیران کن امر یہ بھی ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے بھی گیس قیمتوں سے متعلق بیوروکریسی کا بنایا ہونے فارمولے کے من و عن اطلاق اور فوری نفاذ کی منظوری دے دی۔ 3 فروری کو جب پورے ملک سے گیس بلوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند ہوئی اور ذرائع ابلاغ نے عوام کے احتجاج کو حکومت تک پہنچایا تو سوائے اِس کے کوئی دوسرا چارہ نہ تھا کہ حکومت تحقیقات کا حکم دیتی اور یہی ہوا کہ وفاقی حکومت جو پہلے گیس قیمتوں میں اضافے سے متعلق خبروں کو حکومت مخالف منظم مہم (پراپگنڈہ) قرار دے رہی تھی‘ نے اچانک اپنے مؤقف پر ’یوٹرن‘ لیا۔ تحقیقات کیا ہوئیں اُور اُن کے نتائج کیا برآمد ہوئے؟ اِن تحقیقات کے بعد عوام کو ریلیف ملے گا یا نہیں اور جن لوگوں نے اضافی بل ادا کئے ہیں کیا اُنہیں پیسے واپس کئے جائیں گے‘ اِس بارے میں تفصیلات دستیاب نہیں۔

نئے پاکستان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ سبھی لوگ جو قریب 50 ہزار روپے ماہانہ کماتے ہیں اُن کے لئے اقتصادی طور پر گزربسر کرنا ہر دن مشکل بنایا جا رہا ہے۔ تصور کیجئے کہ پچاس ہزار روپے ماہانہ تک کمانے والے خاندانوں کے توانائی اخراجات بشمول گیس و بجلی اور پیٹرول پر اِن کی کل آمدنی کا قریب 30 فیصد خرچ ہو رہا ہے۔ تصور کیجئے کہ روپے کی قیمت گذشتہ 12 ماہ کے دوران 30 فیصد کم ہوئی ہے۔ توانائی کی قیمتوں میں ’ہوشربا اِضافہ‘ اُور ’روپے کی قدر میں غیرمعمولی کمی‘ کی وجہ سے مذکورہ خاندانوں کے پاس کھانے پینے‘ بچوں کے تعلیمی اخراجات‘ علاج معالجے یا ملبوسات خریدنے کے لئے زیادہ مالی وسائل باقی نہیں بچتے اور ایسے لوگوں کے لئے زندگی ہر گزرتے دن زیادہ مشکل ہو رہی ہے۔ اِن برسرزمین حقائق کا حکومتی اقدامات اور بہتری کی کوششوں سے موازنہ ضروری ہے۔ اِس مرحلۂ فکر پر ’تحریک انصاف‘ کی قیادت میں وفاقی حکومت کی اصلاحات پر بھی نظر ہونی چاہئے۔ اصلاح اُس عمل کو کہتے ہیں جس کے ذریعے کسی ادارے یا کسی ادارے کی کارکردگی میں تبدیلی لائی جاتی ہے تاکہ وہ بہتری کی جانب گامزن ہو سکے لیکن اگر حکومتی اصلاحات کے خاطرخواہ نتائج برآمد نہیں ہو رہے تو اِس کا مطلب ہے کہ اصلاحات وضع کرنے کے عمل میں کہیں نہ کہیں کمی رہ گئی ہے اور ترجیحات کا اُس طرح تعین نہیں ہو سکا ہے جس طرح کہ ہونا چاہئے تھا۔

سرکاری خریداریوں میں اصلاحات: عالمی بینک کی جانب سے بذریعہ بلاگ (blog) پاکستان حکومت کی توجہ اِس امر کی جانب مبذول کی گئی ہے کہ جنوب ایشیائی ممالک میں حکومتوں کے سب سے زیادہ اخراجات مختلف ضروریات کے لئے کی جانے والی خریداریوں پر ہوتے ہیں۔ (اگرچہ حکومتوں کی کارکردگی بہتر نہیں ہوتی لیکن معمول کے طور پر سالانہ خریداریوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔) اِس سلسلے میں مختلف براعظموں کے موازنے پر مبنی دیئے گئے اعدادوشمار حیران کن ہیں‘ جن سے پتہ چلتا ہے کہ افریقی ممالک اپنی سالانہ کل آمدنی کا 19.3 فیصد‘ بھارت 20فیصد جبکہ پاکستان 19.8 فیصد خرچ کرتا ہے۔

پاکستان کی کل آمدنی 35 کھرب روپے ہے‘ جس میں سے 7 ارب روپے مالیت کی مختلف خریداریاں کی جاتی ہیں۔ عالمی بینک کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوئی ہے کہ حکومتوں کے لئے خریداری کے عمل ہی میں بدعنوانی کا عنصر پوشیدہ ہے۔ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل (Transparency International) کی ایک رپورٹ کے مطابق سرکاری خریداری کے عمل میں حکومت وسائل کا پانچواں حصہ بدعنوانی کی نذر ہو جاتا ہے۔ لب لباب یہ ہے کہ پاکستان میں ہونے والی سرکاری خریداریوں میں کل کتنی کرپشن ہو رہی ہے‘ یہ بات درست اعدادوشمار کے ساتھ جاننا مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن حد تک دشوار ہے لیکن اگر ’ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل‘ کے مرتب کردہ اعدادوشمار پر اکتفا کیا جائے تو پاکستان حکومت کے لئے خریداریوں کی مد میں (کم سے کم) سالانہ 7 کھرب روپے کی مالی بدعنوانی ہو رہی ہے!

حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت سرکاری خریداریوں میں ہونے والی بدعنوانیوں کا راستہ روکنے کے لئے اصلاحات نہیں لا رہی۔ تحریک انصاف کے دور حکومت میں بھی ماضی کے حکمرانوں (نواز لیگ و پیپلزپارٹی ادوار کی طرح) اربوں کھربوں روپے مالیت کی سرکاری خریداریاں ہو رہی ہیں۔ سرکاری فیصلہ سازی کے منصب پر فائز لوگوں کے لئے بدعنوانی کرنے کا یہ آسان ذریعہ ہے اور اگر حکومت چاہے تو اِس میں اصلاح کرنے کے لئے کئی ایسی موجود مثالوں (طریقۂ کار) کو اختیار کر سکتی ہے‘ جس کے ذریعے مالی بدعنوانی کے امکانات کو کم کیا جا سکتا ہے جیسا کہ کوریا کی حکومت نے سرکاری خریداری کو ’آن لائن‘ کر دیا۔ پولینڈ اور ائرلینڈ کی حکومتیں بھی آن لائن وسائل ہی کے استعمال کے ذریعے سرکاری خریداریوں کو شفاف بنا رہی ہیں۔ سنگاپور کی مثال موجود ہے‘ جہاں قومی سطح پر الیکٹرانک انوائسنگ (electronic invoicing framework) متعارف کروایا گیا ہے تو اگر نیت میں فتور نہیں‘ اصلاح کا عزم اُور ارادہ بھی ہے‘ بدعنوانی کا خاتمہ بھی کرنا ہے‘ سرکاری وسائل کی جاری لوٹ مار بھی روکنی ہے تو اِس کے لئے عملی کوششیں کرتے ہوئے یورپی ممالک کی طرز کا کوئی ’آن لائن نظام‘ پاکستان میں کیوں متعارف (لاگو) نہیں کر دیا جاتا؟

سرکاری خریداری کے بعد پاکستان کے قومی خزانے کو پہنچنے والا دوسرا سب سے بڑا نقصان ’سرکاری اداروں کا خسارہ‘ ہے جس کے اصلاح وقت کی ضرورت ہے۔ حکومت پاکستان کے 195 سرکاری ادارے مجموعی طور پر سالانہ 1.1 کھرب روپے خسارہ کرتے ہیں۔ اِس کا مطلب یہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران اِن سرکاری اداروں نے ’’550 ارب روپے‘‘ کا خسارہ کیا ہے لیکن تاحال حکومت کی جانب سے اِس غیرمعمولی خسارے پر قابو پانے کے لئے اصلاحات متعارف نہیں کروائی گئیں۔ سننے میں آ رہا ہے کہ حکومت ’’سرمایہ پاکستان‘‘ کے نام سے ایک کمپنی بنائے گی جس کی سربراہی وزیراعظم عمران خان خود کریں گے اور یہ کمپنی خسارے میں چلنے والی ’’195قومی اداروں‘‘ کے انتظامی ڈھانچوں میں ایسی تبدیلیاں لائے گی‘ جس سے اِنہیں اپنے پاؤں پر کھڑا کیا جاسکے۔ قابل ذکر ہے کہ دنیا میں جہاں بھی ماسوائے سنگاپور حکومتوں نے سرکاری اداروں کو اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے کے لئے اِس قسم کی اصلاحات متعارف کروائیں وہ ناکام ثابت ہوئی ہیں۔

سرکاری خریداری اُور سرکاری اداروں کے خسارے کے پاکستان کے قومی خزانے کو پہنچنے والے تیسرے سب سے بڑے نقصان کا تعلق ’توانائی کے شعبے‘ سے ہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا دارومدار اُس کے توانائی کے شعبے کی فعالیت و کارکردگی پر ہوتا ہے لیکن پاکستان میں یہ شعبہ بحرانی دور سے گزر رہا ہے۔ پاکستان میں توانائی کا پیداواری شعبہ 1.5 کھرب روپے کے گردشی قرض میں جھکڑا دکھائی دیتا ہے۔ ماضی میں یہ گردشی قرضہ 228 ارب روپے تھا‘ جو بڑھ کر 1.5کھرب روپے ہو چکا ہے۔ ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی قرض سے حاصل ہونے والی آمدنی کے ذریعے ’گردشی قرض‘ ادا کر رہی ہے اور ایسا کرتے ہوئے ماضی ہی کی طرح حسابات کا باریک بینی سے جائزہ (audit) بھی نہیں کیا جاتا۔ تحریک انصاف حکومت ماضی سے مختلف نہیں ہے۔

کوئی بھی حکومت اصلاحات کے ذریعے جو اہداف حاصل کرتی ہے وہ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک تو اُن اصلاحات کی وجہ سے ممکنہ طور نقصان اُور دوسرا ممکنہ طور پر فائدہ اُٹھانے والے ہوتے ہیں۔ اصلاحات کا کھیل مفادات کے گرد گھومتا ہے۔ سرکاری اہلکار کے مالی مفادات اُن کے فیصلوں سے جڑے ہوتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ ذاتی طور پر ’ثمرات‘ حاصل کرنے کے لئے وہ ایسے فیصلے کرتے ہیں جس سے سرکاری مفادات کی بجائے ذاتی طور پر اُنہیں زیادہ فائدہ پہنچے۔

اصلاحات ضروری ہیں اُور یہ اصلاحات اُس وقت تک متعارف اور لاگو نہیں ہوں گے جب تک اِن سے متعلق فیصلہ سازی کرنے کے طریقۂ کار میں تبدیلی نہیں لائی جاتی۔ کیا ماضی کی طرح موجودہ حکومت بھی ذاتی مفادات کے اسیروں سے ہار مان جائے گی اور سرکاری خریداریوں میں شفافیت‘ سرکاری اداروں کے مالی خسارے میں کمی اُور توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کی صورت قومی خزانے پر بوجھ کم کرنے کے لئے اصلاحات ترجیحی بنیادوں پر متعارف کروانے میں سستی‘ کاہلی یا حیل و حجت سے کام لیا جائے گا؟ 

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

3 comments:

  1. The gas price fiasco: A billion cubic-feet of gas is being stolen every day. The bureaucrats running gas companies and the regulatory authority need to fill this hole. Over the past few months, bureaucrats have discovered that their political bosses are technically incompetent. In order to fill the hole, bureaucrats had submitted a complicated slab formula. The ECC approved the formula (that increased the price of gas). PM Imran Khan also approved the formula. On February 3, after the gas bomb had exploded, he ordered an inquiry.
    The ground reality of Naya Pakistan is that making ends meet is becoming more difficult for a Pakistani breadwinner making around Rs50,000 per month. Imagine: power-related expenses, including gas, the electricity and the petrol bills taking away around 30 percent of income. Imagine: the rupee falling by 30 percent over the past 12 months. Not much is left for kitchen expenses, rent, school fees, medical or winter clothes. Life is becoming harsher by the day.

    Now, on to reform. To reform is to “make changes in (something, especially an institution or practice) in order to improve it”. We must reform if we want to get somewhere – and if we are going nowhere, any road will take us there. Reformers must prioritise reform actions – and prioritising reforms “lies at the heart of the sequencing issue”.

    ReplyDelete
  2. Reforming public procurement: A World Bank blog states: “Across regions, South Asia has the highest share of public procurement in GDP, at 19.3 [percent]; followed by sub-Saharan Africa at 14.9 [percent]. India procures 20 [percent] of GDP publicly, Pakistan 19.8 [percent].”

    Pakistan’s GDP of Rs35 trillion would mean public procurements amounting to a Rs7 trillion. According to a World Bank study, “public procurement is one of the government functions most prone to corruption”. According to Transparency International, “up to a fifth of the value of government contracts may be lost to corruption”. To be certain, quantifying corruption is next to impossible. But in our case, a fifth of the Rs7 trillion will be Rs1.4 trillion “lost to corruption”.

    Alarmingly, there are no procurement reforms in sight. The PTI government is undertaking multi-trillion rupee public procurements no differently than the PML-N and PPP governments did. The easiest way out would be to adopt a successful model. Jordan has adopted the Korean Online E-procurement System. Poland and Ireland are adopting the Pan-European Public Procurement On-Line. Singapore is adopting a “nationwide, interoperable electronic invoicing framework”. Why can’t we adopt one?

    Reforming PSEs: Pakistan’s 195 PSE’s end up losing Rs1.1 trillion a year. The PTI government must have lost at least Rs550 billion over the past six months. Alarmingly, there are no real reforms in sight. Yes, there’s talk of a Sarmaya Pakistan Company, a company chaired by the PM that will restructure the loss-making 195 PSEs. This is a tried-and-failed model around the world (except in Singapore).

    Reforming the power sector: The foundation of an economy is its power sector. And the circular debt worth Rs1.5 trillion is holding Pakistan’s power sector hostage. Over the past decade, circular debt has grown from Rs228 billion to its current level. Over the past decade, governments have come and gone. Over the past decade, policies have all been the same –gather additional debt and pay off the accumulated circular debt (often without any pre-audit requirements). The PTI government isn’t doing anything different.

    ReplyDelete
  3. The first rule behind every reform effort is that there are potential winners and potential losers. The second is that as long as potential losers are also the decision-makers, reforms will not take place. The game of reforms is all about conflict of interest. And a “public official has a disqualifying conflict of interest in a government decision if it is foreseeable that the decision will have a financial impact on his or her personal finances or other financial interests”.

    Reform we must. Reforms won’t take place for as long as the decision-making hierarchy is infected with conflict of interest. Reform we must. Can we afford to let the ‘hybrid warriors’ win?

    ReplyDelete