Sunday, December 1, 2019

TRANSLATION: The debt bomb by Dr Farrukh Saleem

The debt bomb
قرضوں کا بوجھ
پاکستان کے قومی قرضوں کا بوجھ ایک ایسا مسئلہ ہے جس کا براہ راست تعلق ملک میں مہنگائی اُور شرح سود سے ہے۔ قیام پاکستان یعنی سال 1947ءسے 2008ء کے 61 سالہ عرصے میں ملک کے 4 گورنر جنرلز‘ 9 صدور اُور 23 وزرائے اعظم گزرے اُور اِن سبھی نے مجموعی طور پر 6 کھرب روپے کا قرض لیا۔ سال2008ءتک ہر پاکستانی (قومی قرضوں کی وجہ سے) 36 ہزار روپے کا مقروض تھا۔

سال 2008ءسے 2013ء کے درمیانی عرصے (پانچ برس) میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی۔ پاکستان نے آصف علی زرداری کی صدارت اُور 2 وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی و راجہ پرویز اشرف کی وزارت عظمیٰ کے ادوار دیکھے۔ اِن تین کرداروں (زرداری‘ گیلانی اُور راجہ) نے پاکستان نے قومی قرض کو 6 کھرب ڈالر سے 16 کھرب ڈالر تک پہنچا دیا یعنی 5 سال کے عرصے میں پاکستان کے قومی قرض میں 10 کھرب (10-trillion) روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اگر اوسط معلوم کی جائے تو پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت (2008-13) کے دوران پاکستان کے قومی قرضے میں ہر دن (یومیہ) ”5.5 ارب روپے“ کا اضافہ کیا جاتا رہا۔ پاکستان پیپلزپارٹی کے مذکورہ 5 سالہ دور حکومت کے اختتام پر ہر پاکستانی اوسطاً 36 ہزار روپے سے 88 ہزار روپے کا مقروض ہو گیا یعنی پانچ سال کے دوران ہر پاکستانی پر قومی قرض کا بوجھ دوگنے سے بھی زیادہ ہو گیا۔

سال 2013ءسے 2018ءکے 5 سالہ دور میں پاکستان نے ممنون حسین بطور صدر اُور 2 وزرائے اعظم میاں نواز شریف و شاہد خاقان عباسی دیکھے۔ اِن تینوں کا تعلق ایک ہی سیاسی جماعت یعنی ’پاکستان مسلم لیگ (نواز)‘ سے تھا۔ نواز لیگ حکومت کے دوران (دوہزار تیرہ سے دوہزار اٹھارہ) پاکستان کے قومی قرضوں کو 16 کھرب روپے سے بڑھا کر 30 کھرب روپے جیسی بلند سطح پر پہنچا دیا گیا یعنی پانچ سال میں 14 کھرب روپے کا اضافہ کیا گیا۔ اگر نواز لیگ کے آخری دور حکومت کے دوران ہر دن لئے گئے قرض کا تناسب معلوم کیا جائے تو یہ 7.5 ارب روپے یومیہ بنتا ہے۔ لیگی حکومت نے پانچ سال تک ہر دن ساڑھے سات ارب روپے قومی قرض میں اضافہ کیا۔ یوں پانچ سال کے عرصے میں ہر پاکستانی پر قومی قرض کا بوجھ جو کہ پہلے ’88 ہزار روپے‘ تھا بڑھ کر ’1لاکھ 44 ہزار روپے‘ ہو گیا۔

سال 2018ءسے 2019ئ‘ صدر مملکت عارف علوی اُور وزیراعظم عمران خان ہیں۔ اِن دونوں کا تعلق ’پاکستان تحریک انصاف‘ سے ہے۔ موجودہ حکومت کے 2 سال کی مالیاتی کارکردگی کا ایک رُخ یہ ہے کہ جولائی دوہزار اٹھارہ کے عام انتخابات کے بعد ’تحریک انصاف‘ کے برسراقتدار آنے کے وقت پاکستان کے قومی قرضوں کا کل حجم 30 کھرب روپے تھا اُور ماضی کی طرح موجودہ حکومت نے بھی قرض لینے کا سلسلہ جاری رکھا اُور قومی قرض کو 41 کھرب روپے پر پہنچا دیا یعنی اب تک (ایک سال کے عرصے میں) ’11 کھرب روپے‘ قرض لیا جا چکا ہے‘ جس کی اگر یومیہ اوسط نکالی جائے تو پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں ہر دن ’30 ارب روپے‘ قرض لیا گیا ہے۔ حکومت کی مالیاتی کارکردگی‘ ترجیحات اُور منصوبہ بندی کا اندازہ اِس اَمر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ 71 سال کے دوران پاکستان نے 30 کھرب روپے قرض لیا جبکہ تحریک انصاف نے ’1 سال‘ کے دوران ’11 ارب روپے‘ لیا ہے۔ تحریک انصاف کے حکومت میں آنے سے قبل ہر پاکستانی ’ایک لاکھ 44 ہزار روپے‘ کا مقروض تھا لیکن اب ہر پاکستانی پر قومی قرض کا بوجھ ’1 لاکھ 87 ہزار روپے‘ ہو چکا ہے۔

لمحہ فکریہ ہے کہ قیام پاکستان سے 71 سال کے سفر میں قومی قرض میں ’73 فیصد‘ جبکہ ایک سال میں ’27فیصد‘ اضافہ ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے مالیاتی مشیر اُور حساب دانوں کا دعویٰ ہے کہ اُنہوں نے قومی قرض کے حجم میں اضافہ نہیں کیا بلکہ تحریک انصاف نے ماضی میں لئے گئے قرض واپس کئے ہیں اُور قومی مالیاتی ذمہ داریوں کے بوجھ کو کم کیا ہے لیکن برسرزمین حقائق مختلف ہیں۔ اگر تحریک انصاف نے قرض نہ لیا ہوتا اُور قومی قرضوں کی واپسی کی ہوتی تو پھر پاکستان کی واجب الاداءمالی ذمہ داریوں میں ایک سال کے دوران ”11 کھرب روپے“ کا اضافہ نہ ہوا ہوتا۔ آخر یہ کیسے ہو گیا کہ تحریک انصاف نے قرض نہیں لیا اُور واجب الاداءقرضوں کی واپسی بھی کی لیکن پھر بھی پاکستان پر قرض بڑھ گیا ہے؟

کوئی تسلیم کرے یا نہ کرے لیکن تحریک انصاف نے ایک سال کے دوران ’گیارہ کھرب روپے‘ قرض لیا ہے۔ اِس قرض میں روپے کی قدر میں کمی سے ہونے والا اضافہ بھی شامل ہے لیکن یہ اضافہ ماضی میں لئے گئے قرضہ جات میں بھی شمار کیا گیا ہے کیونکہ روپے کی قدر میں کمی بیشی تب بھی ہوا کرتی تھی۔ اِس لئے کسی بھی دور حکومت کے دوران لئے گئے مجموعی قومی قرض کا موازنہ دوسرے حکومتی دور میں لئے گئے مجموعی قومی قرضوں ہی سے کیا جائے گا۔
سال 1971ءمیں ہر پاکستان فرد (مرد‘ عورت یا بچے) کے ذمے 500 روپے قومی قرض تھا اُور 48 برس میں ہر پاکستانی فرد ”1 لاکھ 87 ہزار روپے“ کا مقروض ہو چکا ہے۔

قرض وقتی طور پر راحت کا باعث ضرور ہوتے ہیں لیکن جب ایک خاص حد سے زیادہ قومی قرضوں میں اضافہ کیا جاتا ہے تو اِس کی وجہ سے ’ملکی شرح سود‘ میں اضافہ کرنا پڑتا ہے اُور معیشت قرضوں کی عادی ہونے لگتی ہے کیونکہ مصنوعی طریقے سے معیشت کو چلانے میں اِس کی ناکامی کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ جہاں خسارے (قومی معاشی ناکامی) کے امکانات زیادہ ہوں‘ وہاں یا تو سرمایہ کاری نہیں ہوتی یا سرمایہ کار احتیاط سے کام لیتے ہوئے زیادہ مراعات اُور منافع کا تقاضہ کرتے ہیں اُور اِن دونوں روئیوں (حکمت عملیوں) کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قومی اقتصادی ترقی یا تو بالکل رُک جاتی ہے یا پھر اِس کی شرح نمو میں اضافہ نہیں ہوتا۔

حد سے زیادہ قومی قرضہ جات میں اضافے کی مثال ایک ایسی گاڑی میں سفر سے دی جا سکتی ہے جو اپنی جگہ پر کھڑی ہو لیکن اُس کے اندر بیٹھے ہوئے افراد سمجھ رہے ہوں کہ سفر جاری ہے۔

(بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔ ترجمہ: شبیرحسین اِمام)

2 comments:

  1. From 1947 to 2008:over the 61-year period we had four governor-generals, nine presidents and twenty-three prime ministers. All of them put together managed to accumulate a mere Rs6 trillion in debt. In 2008, our per capita debt stood at Rs36,000.


    2008-13: Over the five-year period we had Asif Ali Zardari as president and two prime ministers – Yousaf Raza Gilani and Raja Pervez Ashraf. The three of them managed to take our debt from Rs6 trillion to Rs16 trillion. Over the five-year period we added a colossal Rs10 trillion worth of debt. Over the five-year period, on average, we were taking on Rs5.5 billion worth of debt every single day.

    Over the 5-year period, the PPP government increased our per capita debt from Rs36,000 to Rs88,000. Imagine: it took us 61 years to accumulate Rs36,000 worth of debt on a per capita basis but a mere five years to more than double it to Rs88,000.

    ReplyDelete
  2. 2013-2018: Over the 5-year period we had Mamnoon Hussain as president and two prime ministers – Mian Nawaz Sharif and Shahid Khaqan Abbasi. The three of them managed to take our debt from Rs16 trillion to Rs30 trillion. Over the five-year period we added a colossal Rs14 trillion worth of debt. Over the five-year period, on average, we were taking on Rs7.5 billion worth of debt every single day.

    Over the five-year period, the PML-N government increased our per capita debt from Rs88,000 to Rs144,000.

    2018-2019: over the one year period we had Dr Arif Alvi as president and Imran Khan as prime minister. The two of them have managed to take our debt from Rs30 trillion to Rs41 trillion. Over the one year period we have added a colossal Rs11 trillion worth of debt. Over the one year period, on average, we have taken on Rs30 billion worth of debt every single day. Imagine: we accumulated Rs30 trillion worth of debt in 71 years and an additional Rs11 trillion just in one year.

    Over the one year period, the PTI government has managed to increase our per capita debt from Rs144,000 to Rs187,000. Alarmingly, debt taken on over a 71-year period now comprises 73 percent of our total debt and debt taken on over the past year now comprises 27 percent of our total debt.

    The PTI’s mathematicians claim that they have taken on debt to pay off previous debt. Al-Khwarizmi, the Muslim mathematician during the Golden Age of Islam, is puzzled: if you have paid off previous debt then the final figure should be lower not higher. How come it is Rs11 trillion higher?

    To be certain, PTI has simply taken on Rs11 trillion worth of additional debt. Yes, there is an element of devaluation in it but the same element of devaluation is present in all the previous calculations as well. We must compare apples with apples.

    In 1971, every Pakistani man, woman and child owed Rs500. The same has since gone up to Rs187,00 in 48 years. Excessive public debt means higher rates of interest and a higher risk perception. A higher risk perception means investors will not invest or will demand a higher rate of return. All that means is little or no economic growth. Yes, excessive public debt is like “driving a car with the emergency brake on”.

    ReplyDelete