ژرف نگاہ ۔۔۔ شبیر حسین اِمام
عشرۂ فجر: کرہٌ اَرض کی تقدیر
عشرۂ فجر: کرہٌ اَرض کی تقدیر
پانچ فروری 1978ء کے روز جمہوری اِسلامی ایران کے رہنما ’بانی انقلاب‘ اِمام خمینی (پیدائش: چوبیس ستمبر انیس سو دو۔ وفات: تین جون انیس سو اناسی) نے ’عبوری حکومت‘ کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے ’انقلاب کے اہداف و مقاصد‘ بیان کئے۔ اِس خاص دن کی اہمیت کے لحاظ سے یکم فروری تا دس فروری کے ایام بطور ’عشرۂ فجر‘ منائے جاتے ہیں اور پھر گیارہ فروری (شمسی سال کی تاریخ 22بہمن 1357ء) کا عہدساز دن اِیران کی سیاسی وسماجی تاریخ کے اُن حساس لمحات کا شاہد ہے جب ’’اللہ اکبر‘‘ کے نعروں سے شہنشاہیت کا اختتام کیا گیا اور سالہا سال کی جدوجہد بصورت ’اسلامی انقلاب‘ کامیابی سے ہم کنار ہوئی۔ انقلاب ایران کے 36 سال مکمل ہونے پر اُس پیغام کو سمجھنے اور سمجھانے کی ضرورت ہے‘ جس نے اسلام کی حاکمیت اور توحید کے پرچم کو بلند کیا۔ اِستعمار کے بتوں کو پاش پاش کیا اور نہ صرف مسلم اُمہ کے حقوق کی اخلاقی حمایت کی بلکہ عالمی طاقتوں آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جرأت سے ایک ایسے مقدمے کا دفاع کیا‘ جس کی وکالت کے لئے کوئی تیار نہیں تھا۔
اسلامی انقلاب دن میں خورشید کی مانند‘ ظلم وزیادتیوں کی تاریکیوں میں مہتاب کی مانند چمک رہا ہے۔ یہ انقلاب اسلامی ہی ہے کہ جس نے اپنا اوّلین مقصد فلسطینی عوام کی مدد و نصرت کو قرار دیا اُور دنیا بھرکے مظلومین کی حمایت کی۔ انقلاب اسلامی کی عظیم الشان فتح وہ تھی جب مغربی طاقتوں کی حمایت سے اِیران پر حملہ کیا گیا اور آٹھ برس تک مسلط کردہ یک طرفہ جنگ میں انقلاب اسلامی کی حفاظت کرنے والے قربانیاں دیتے رہے۔ یہاں تک کہ ہمسایہ ملک عراق سمیت مغربی پشت پناہوں نے اقوام متحدہ کی مدد لے کر اس جنگ کو بند کرنے کا مطالبہ کیا۔ اسلامی انقلاب کے ثمرات فلسطین میں بھی مشاہدہ کیے گئے کہ جہاں اسلامی مزاحمتی تحریک حماس کے جوانوں نے سال 2008ء میں اسرائیلی حملے کے جواب میں مزاحمت کا فیصلہ کیا اور پھر دنیا نے دیکھ لیا کہ بائیس روزہ جنگ کے بعد مشرق وسطیٰ کا سرطان اسرائیل ذلت و رسوائی کا شکار ہوا۔دنیا اس بات کو جانتی ہے کہ یہ بھی انقلاب اسلامی ایران کے ثمرات میں سے ایک تھا۔ اس بات کا اعتراف خود اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے کرتے ہوئے کہا تھا کہ ۔۔۔ ’’ہم ہر گز یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ فلسطین جو ایران کی مدد و نصرت کے ساتھ خطے میں موجود ہے‘ ایک مضبوط فلسطین بن جائے۔‘‘ انقلاب اسلامی ایران سے قبل دنیا کے بہت سے بڑے نامور تجزیہ نگار کہا کرتے تھے کہ ایران میں آنے والا انقلاب پائیدار ثابت نہیں ہوگا۔ ایسے تمام تجزیئے رد ہو چکے ہیں۔ جس طرح انقلاب نے سب سے پہلے ایران سے اسرائیلی سفارتخانے کا خاتمہ کرکے اس جگہ کو فلسطینی سفارت خانے میں تبدیل کیا‘ اسی طرح یہ تجزیئے بھی دم توڑتے ہوئے نظر آئے کہ جب یونیورسٹی کے چند طلباء نے امریکی سفارتخانے کا گھیراؤ کر نے کے بعد امریکی سفارت خانے میں موجود جاسوسی کے آلات برآمد کیے اور اس واقعے کو ایران میں انقلاب دوئم کا نام دیا گیا‘ اس دن کے بعد سے آج تک ایران میں دوبارہ امریکی سفارتخانہ قائم نہیں ہونے دیا گیا۔ مغربی پنڈتوں نے اسلامی انقلاب کے رونما ہونے سے قبل ہی اِس کے انتقال کی خبریں دینا شروع کر دی تھیں۔ مغربی دانشوروں نے کہا تھا کہ ۔۔۔’’ایران کا انقلاب بہت جلد ختم ہو جائے گا‘‘ لیکن آج تاریخ کا مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ انقلاب ترقی کی راہوں پر گامزن ہے اور عالمی سامراجی طاقتوں کے سامنے تن و تنہا سینہ سپر ہے۔‘‘ انقلاب اسلامی ایران کے بعد کوئی سال ایسا نہیں گزرا‘ جب اس کے خلاف سازشیں نہ کی گئی ہوں لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود انقلاب آگے بڑھ رہا ہے۔
چھتیس برس بیت جانے کے بعد دنیا اس بات پر شاہد ہے کہ اسلامی انقلاب عملاً مظلوموں بالخصوص فلسطینیوں اور دیگر مظلوم اقوام کی حمایت کررہا ہے۔ اِس حوالے سے افغانستان‘ عراق اور شمالی افریقی ممالک کی مثالیں دیکھی جا سکتیں ہیں۔
خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اِسلامی اِنقلاب چھتیس برس بعد کمزور یا غیرمتعلقہ نہیں بلکہ مزید توانا و مستحکم ہو چکا ہے اور پاکستان سمیت ایسے ہی انقلاب کی مسلم اُمہ کو شدت سے ضرورت ہے۔ اسلامی انقلاب کا خواب شاعر مشرق ڈاکٹر محمد اقبال نے بہت پہلے دیکھ لیا تھا اور اپنی ایک پیشگوئی میں غوروفکر کی دعوت دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’’دیکھا تھا افرنگ نے ایک خواب جنیوا: ممکن ہے کہ اس خواب کی تعبیر بدل جائے۔۔۔تہران ہو گر عالم مشرق کا جنیوا: شاید کہ کرۂ ارض کی تقدیر بدل جائے۔‘‘
Worth Reading: 1978: one last fling in Iran before the revolution ... http://www.theguardian.com/world/iran-blog/2015/feb/04/sp-americans-in-iran-eve-1979-revolution
ReplyDeleteIran in Pictures - 1960: http://www.theguardian.com/world/iran-blog/gallery/2014/sep/10/iran-swinging-sixties-in-pictures
ReplyDelete