Sunday, April 12, 2015

Apr2015: Translation LNG by Dr Farrukh

LNG
مائع گیس
پاکستان اور قطر کے دو سرکاری اداروں (پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی لیمٹیڈ اُور قطرگیس آپریٹنگ کمپنی) کے درمیان ’مائع گیس‘ کی خریدوفروخت کا ایک معاہدہ طے پایا ہے جس میں تین بنیادی خامیاں نظر آتی ہیں۔ مائع گیس کی قیمت‘ مقدار (حجم) اور اِس معاہدے کے طویل المدت ہونے سے سودے میں پاکستان سے زیادہ قطر کے مالی مفادات کا تحفظ کیا گیا ہے۔ اِن تین امور کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان نے اب کسی بھی ادارے سے مائع گیس کی خریداری کا اِس قدر طویل المدت معاہدہ نہیں کیا۔ اس معاہدے کی رو سے پاکستان مائع گیس وقتی قیمت کی بنیاد پر خریدے گا‘ اِسے ’سپاٹ بیس خریداری‘ کہا جاتا ہے جس میں کسی جنس کی خریداری کے وقت اُس قیمت کے مطابق ہوتی ہے جو ہر خریداری پر رضامندی کے دو دن مارکیٹ کی عام قیمت ہوگی۔

چھبیس مارچ کو قطر سے 1لاکھ 47ہزار کیوبک فٹ مائع گیس کراچی پہنچ جاتی ہے لیکن وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل نہ تو مائع گیس کی قیمت کا اعلان یا تعین کرتی ہے اور نہ ہی یہ بات بتائی جاتی ہے کہ یہ گیس کسے فروخت کی جائے گی۔ جب یہ بات ذرائع ابلاغ کے ذریعے پوچھی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ یہ گیس دو ادارے خریدیں گے۔ ذرائع ابلاغ ہی اِس بات کا کھوج نکالتے ہیں کہ قطر سے گیس کی خریداری کے پہلے سودے میں ادائیگی پاکستان اسٹیٹ آئل کمپنی (پی ایس اُو) نے کی تھی اور بعدازاں ذرائع ابلاغ کو کہا جاتا ہے کہ ’’8 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو (ون ملین برٹش تھرمل یونٹس) کے عوض مائع گیس خریدی گئی ہے۔‘‘

جس وقت پاکستان ’آٹھ ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو‘ کی قیمت پر ’مائع گیس‘ خرید رہا تاھ اُس وقت عالمی مارکیٹ میں اس کی قیمت 6.90 ڈالر فی ایم ایم بی ٹی یو تھی۔ یاد رہے کہ مائع گیس کی پہلی خریداری کے سودے میں چونکہ پاکستان نے مارکیٹ کی قیمت سے مہنگی مائع گیس خریدی ہے اِس لئے ادا کی گئی قیمت 30 لاکھ ڈالر زیادہ ہے۔
پاکستان نے (فی ایم ایم بی ٹی یو) 8 ڈالر کے عوض جو مائع گیس خریدی ہے‘ جب اُس کی قیمت میںآمدروفت اور دیگر اخراجات شامل کئے جائیں تو (فی ایم ایم بی ٹی یو) کی قیمت 11.50 سے 12.50 ڈالر تک جا پہنچتی ہے یا اِس سے کچھ زیادہ۔ اگر یہ مائع گیس بجلی کی پیداوار میں استعمال کی جاتی ہے تو اس سے حاصل ہونے والی بجلی کی قیمت بھی زیادہ ہوگی اور اس زیادہ قیمت کے تناسب کا اندازہ اِس امر سے لگایا جاسکتا ہے کہ تیل جیسے مہنگے ایندھن کے مقابلے مائع گیس سے پیدا ہونے والی بجلی زیادہ داموں فروخت کی جائے گی۔

تصور کیجئے کہ پاکستان میں فروخت ہونے والی موجودہ قدرتی گیس کی قیمت 2.90ڈالر (فی ایم ایم بی ٹی یو) ہے۔ تصور کیجئے کہ ایران سے بذریعہ گیس پائپ لائن حاصل ہونے والی گیس 6 ڈالر (فی ایم ایم بی ٹی یو) حاصل کی جاسکتی ہے۔ یہ امر بھی ذہن میں رہے کہ چین کے صدر ایران پاکستان گیس پائپ لائن منصوبے کو مکمل کرنے کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں صرف پاکستان حکومت کو اِس منصوبے سے متعلق فیصلہ کرنا ہے۔

وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل کے مطابق مائع گیس کی پہلی خریداری نجی شعبے کے لئے کی گئی ہے۔ اس سلسلے میں میرا نکتۂ نظر یہ ہے کہ اگر نجی شعبے کو مائع گیس درآمد کرنے کی ضرورت تھی تو اُس نے خود یہ درآمد کیوں نہیں کی اور پاکستان حکومت کیوں خود کو مائع گیس کے درآمدی سودوں میں ملوث کرنا چاہتی ہے؟ اگر نجی شعبہ مائع گیس درآمد کرنا چاہتا ہے تو وہ حسب ضرورت یہ کام خود بھی کرسکتا ہے لیکن اگر نجی شعبہ اپنی ضروریات کے مطابق مائع گیس درآمد کرنے لگ پڑے تو پھر ہم جیسے نقادوں اور تجزیہ کاروں کا کام تو ٹھپ ہی ہو جائے گا!

کم و بیش اکیس برس قبل‘ پاکستان حکومت نے 1994ء کی ’پاور پالیسی‘ کے تحت ایک درجن بجلی پیدا کرنے کے نجی اداروں کے ساتھ معاہدے کئے تھے۔ اکیس برس قبل ہی بجلی پیدا کرنے یہ معاہدے پندرہ سے تیس برس کی مدت کے لئے کئے گئے۔ گذشتہ اکیس برس کے دوران پاکستان نے 2 کھرب ڈالر کا نقصان کیا ہے! تصور کیجئے کہ جب پاکستان حکومت نے نجی اداروں سے بجلی پیدا کرنے کا معاہدہ پندرہ سے تیس برس کے لئے کیا اُور اُس سے 2 کھرب ڈالر کا خسارہ ہوا تو جب مائع گیس کی خریداری کا ایک ایسا معاہدہ کیا جاتا ہے جس کی حتمی مدت ہی طے نہیں کی جاتی تو اِس سے پاکستان کو کتنا نقصان ہوگا!

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کے مطابق ’’مائع گیس کی خریداری کا معاہدہ 22 ارب ڈالر مالیت کا ہے‘ جسے طے کرتے ہوئے اِس قسم کی بڑی خریداری سے متعلق قواعد کی خلاف ورزی کی گئی ہے۔‘‘

تصور کیجئے کہ اینگرو نامی ادارے جس نے بندرگاہ پر ’مائع گیس ٹرمینل‘ بنانے پر 15کروڑ ڈالر (150ملین) کی سرمایہ کاری کی ہے‘ وہ صرف 18ماہ میں اپنی تمام سرمایہ کاری 65فیصد کی شرح سے حاصل ہونے والے منافع سے کما لے گی۔ تصور کیجئے کہ حکومت نے بندرگاہ پر مائع گیس کا ٹرمینل لگانے والے نجی شعبے کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے لیکن 17فیصد ٹیکس صارفین پر لاگو کیا گیا ہے۔

دنیا میں جہاں کہیں بھی مائع گیس سے استفادہ کیا جاتا ہے وہاں چار قسم کے اقدامات بہتر انتظامی معاملات کے لئے اختیار کئے جاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو مائع گیس کی درآمد میں نجی شعبے کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ دوسرا مائع گیس کی قیمت کا تعین کرنے کے لئے حکومتی عمل دخل نہیں ہوتا۔ تیسرا مائع گیس کی درآمد کی اجازت سے مقابلے کی فضاء پیدا ہوتی ہے اور مختلف ادارے اپنی قیمتوں کو ایک دوسرے سے کم رکھتے ہیں جس سے صارفین کو فائدہ ہوتا ہے اور چوتھا امر یہ ہوتا ہے کہ مائع گیس کی درآمد سے متعلق امور شفاف اور آزادانہ انداز میں قانونی طورپر مرتب کئے جاتے ہیں لیکن پاکستان کی وزارت پیٹرولیم و قدرتی وسائل کی جانب سے مائع گیس خریداری کا جو معاہدہ اور خریدوفروخت کی جارہی ہے اُس میں نہ تو قانونی طور پر شفافیت دکھائی دیتی ہے اور نہ ہی جنس کی قیمت عالمی مارکیٹ میں کم سے کم قیمتوں سے مطابقت رکھتی ہے۔ مہنگے داموں گیس کی خریداری سے اِس کے استعمال سے حاصل ہونے والی جنس بھی لامحالہ مہنگی ہوگی‘ جس کی ادائیگی پاکستان کے عام آدمی کے بس کی بات نہیں۔ دوسری بات مائع گیس کی خریداری اور درآمد نجی اداروں کے سپرد نہیں کی گئی جس سے مقابلے کی فضاء پیدا نہیں ہوئی اور ایک ادارے کی اجارہ داری قائم ہوئی ہے۔ تیسرا نکتہ مائع گیس کی قیمت کے تعین میں مارکیٹ کے اصول کو مدنظر نہیں رکھا گیا اور چوتھا نکتۂ جو مائع گیس کی ادا کردہ قیمت اور اس کی مہنگے داموں فروخت کے سودوں سے متعلق ہے پر حکومتی اداے کی اجارہ داری ہے۔

 (بشکریہ: دی نیوز۔ تحریر: ڈاکٹر فرخ سلیم۔تلخیص و  ترجمہ: شبیر حسین اِمام)

1 comment:

  1. LNG
    Dr Farrukh Saleem
    Sunday, April 12, 2015

    The three things missing in the ‘Sale and Purchase Agreement’ between the Pakistan State Oil Company Limited (PSO) and Qatargas Operating Company Limited are: price, quantity and expiration. What that means is that we haven’t really bought any LNG on a long-term basis. What that really means is that we will be buying LNG on spot basis (a spot contract is the buying or selling of a commodity on the spot date which is normally two business days after the trade date).

    On March 26, the first shipment of 147,000 cubic feet of Qatari LNG arrived at the Karachi anchorage but the Ministry of Petroleum and Natural Resources was willing to disclose neither the price nor the buyer. Later on, the media was told that two private sector entities were the buyers. Later on, the media discovered that the payment for the first shipment was made by PSO. Later on, the media was told that the price paid was $8 per mmBTU (FOB).

    For the record, when we bought our LNG for $8 per mmBTU the price of spot LNG stood at $6.90 per mmBTU. For the record, we overpaid a sum of $3 million for our first shipment.

    Back to Pakistan, a price of $8 per mmBTU, after freight plus re-gasification, port handling and wheeling, would fall within $11.50 per mmBTU to $12.50 per mmBTU (may be even higher). Ironically, generating power after buying LNG at $11.50 per mmBTU to $12.50 per mmBTU will be much more expensive than generating power from fuel oil.

    Imagine: the current natural gas average price in Pakistan is $2.90 per mmBTU. Imagine: natural gas from the proposed Iran-Pakistan gas pipeline will cost around $6 per mmBTU (as oppose to $12 from Qatar. President Xi Jinping is willing to build the pipeline).

    According to the Ministry of Petroleum and Natural Resources, the first LNG shipment has been imported by private sector entities. Here’s my issue: Now that Pakistan’s private sector has proven its capability to import LNG then why does the Government of Pakistan want to get involved in future LNG imports? Please let the private sector do it. Obviously, if the private sector starts importing LNG then critics like me will be thrown out of the business of criticising.

    Twenty-one years ago, the Government of Pakistan, under the 1994 Power Policy, signed up a dozen Independent Power Producers (IPPSs). Twenty-one years ago, the Government of Pakistan, under the 1994 Power Policy, signed up 15 to 30-year contracts. Over the past twenty-one years, the Government of Pakistan has lost a good Rs2 trillion. Imagine, the LNG contract has no expiration; it is to be used in perpetuity.

    According to Transparency International Pakistan (TIP), the“$22 billion LNG deal being finalized with Qatar at exorbitantly high cost is sheer violation of the PPPRA rules.”

    Imagine: Engro will recover all its $150 million investment on the LNG terminal in just 18 months-an annual rate of return of 65 percent. Imagine, the ECC has exempted the privately-owned terminal from taxes but imposed a 17 percent tax to be recovered from consumers.

    Worldwide best LNG practices recommend a four-component regime. One, let the private sector do it. Two, economies should promote ‘free and open markets to set the price across the LNG value chain’. Three, economies should promote ‘competition and anti-monopolistic behaviour’. Four, legal frameworks should be ‘clear and transparent’.

    Here’s what the Ministry of Petroleum and Natural Resources promotes: One, a cloudy and a non-transparent legal framework. Two, non-competitive, monopolistic behaviour. Three, non-market based setting of prices across the LNG value chain. Four, the public sector doing it all.

    ReplyDelete